سنگھ پریوار کی ہار ،ہندوستان کی جیت

بہار اسمبلی انتخابات

بہار سیاست کی جنم بھومی کہلاتی ہے ۔ جب بھی ملک غلط راستے پر گیا ہے بہار نے رہنمائی کی ہے ، سیاست میں ایک انقلاب پید اکرکے ہندوستان کی تقدیر کو سنوارا ہے ۔ لالو پرشادیادونے 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے موقع پر کہاتھاکہ’’ گروکو ہم نے روکاتھا اور چیلاکو بھی ہم ہی روکیں گے‘‘ ۔ 1990 کی دہائی میں ہندتو طاقتیں عروج پر تھیں ، پورے ملک میں افراتفری اور شدت پسندی کا ماحول تھا ، بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے اڈوانی اپنی رتھ یاتراکے ذریعے پورے ملک میں نفرت کی آبیاری کررہے تھے۔ستمبر 1990 میں گجرات میں واقع سومناتھ مندر سے بی جے پی کے صدر اڈوانی نے یاتر ا شروع کی اور ہندوستان کے مرکزی مقامات سے گذرتے ہوئے 30 اکتوبر کو ایودھیا پہونچنے کا پروگرام تھا ، کسی بھی حکومت میں انہیں روکنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی یہ یاترا جب بہار میں داخل ہوئی تو23 اکتوبر 1990کو اس وقت کے بہار کے وزیر اعلی لالو پرسادیادو نے انہیں سمستی پورسے گرفتار کرلیا اور طے شدہ منصوبہ کے مطابق اڈوانی 30 اکتوبر کو ایودھیا نہیں جاسکے ،تاہم بابری مسجد انہدام اور رام مندرکی تعمیرکے ایجنڈے پر ہندتو ووٹ کو متحد کرنے میں اڈوانی کی کوشش کامیاب رہی ، 1991 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 85 سے بڑھ کر 120 سے سیٹیں مل گئیں۔ 2014 میں مرکزی حکومت کی تبدیلی کے بعد ملک کے حالات پھری اسی ڈگر پر جاچکے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہورہے ہیں، پورے ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کا ماحول گرم ہے ، لوک سبھا انتخابات کے فورا بعد مہاراشٹر ، ہریانہ ،جھارکھنڈ اور کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں ملنے والی کامیابی سے بی جے پی کے حوصلے مزید آسمان کی بلندیوں پر پہونچ چکے تھے ،جن کمیونل موضوعات کواب تک انتخابات میں ایجنڈابنایا گیا تھا وہی ایجنڈا دہلی اور بہار کے الیکشن میں بھی اپنا یاگیابلکہ اس میں کچھ اور اضافہ بھی کیا گیا لیکن ان دونوں ریاستوں نے بی جے پی کی تمام تدبیروں کو ناکام ثابت کردیا، فرقہ پرستی اور نفرت کا ایجنڈا جیت سے ہم کنار نہیں کراسکا ، پہلے دہلی میں شکست فاش ملی اور ا س کے فورا بعد بہار میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرناپڑا۔
جب سے مجھے لکھنے ،پڑھنے کا شعور ہواہے یہ پہلا انتخاب ہے جسے میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ بہار کے مختلف علاقوں میں الیکشن کے دوران جانے کا موقع ملا، مختلف مذاہب اور مختلف خیال کے لوگوں کے ساتھ میں نے تبادلہ خیال کیا ۔ سماج کے مختلف طبقہ سے تعلق رکھنے والوں سے میں نے بہار کے مسائل اور الیکشن کے نتائج پر گفتگو کی، بہار کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ، بہار والوں کی ضروریات کو جاننے اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کی ، اس لئے اس تعلق سے میرے پاس لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے جسے میں وقتافوقتا اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا۔
2015 میں منعقد ہونے والا بہار اسمبلی انتخابات بہت ہی اہمیت کا حامل تھا ، اس الیکشن کا تعلق صرف بہار سے نہیں بلکہ براہ مرکز سے تھا، ملک کی تقدیر کا فیصلہ اس الیکشن پر منحصر تھا ، راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے حکمراں جماعت کا بہار پر قبضہ ضرور ی تھا لیکن بی جے پی اپنے اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور اس طرح اب وہ بہت سارے بلوں کو اپنی مرضی کے مطابق پاس نہیں کرسکے گی ، گذشتہ دوسالوں کے درمیان بنگال ، یوپی مدھیہ پردیش اور پنجاب میں ہونے والے انتخابات پر بھی بہارکا نتیجہ اثر انداز ہوگا، دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کا بی جے پی کا زوال اب شروع ہوگیا ہے ، لوک سبھا میں اسے جس طرح کی عوامی حمایت ملی تھی اس میں کمی آنی شروع ہوگئی ہے ، عوام کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ نفرت اور فرقہ پرستی کے سہارے زندگی کی کشتی آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ، ہندتو ایجنڈا سیاسی داؤ پیچ ہے ،ہندوتو کا نعرہ لگانے اور گائے کو تحفظ فراہم کرنے کا نعرہ صرف ووٹ حاصل کرنے کا حربہ ہے ، ہندؤوں کے تئیں بی جے پی کی ہمدردی ظاہری ہے حقیقت سے اس کاکوئی کا تعلق نہیں ہے۔

بہار اسمبلی الیکشن کے تعلق سے میں نے اپنے کئی مضمون میں لکھاتھاکہ انتخابات کا نتیجہ ملک کی ذہنیت اور رحجان کا فیصلہ کرے گا ’’ملک کی عوام کیا چاہتی ہے ، فرقہ پرستی،نفرت او ر تشدد پر مبنی سیاست یا پھر ترقی اور امن و سلامتی پر مبنی حکومت‘‘ ، بہار کا نتیجہ دیکھنے کے بعد مجھے یہ اطمیان ہواکہ ملک کی اکثریت فرقہ پرستی اور نفرت انگیز سیاست کے خلاف ہے ،بڑھتی ہوئی مہنگائی ، نفرت ، فرقہ پرستی اور تشدد کے ایجنڈے کو یہاں کی عوام قبول نہیں کرسکتی ہے ۔کیوں کہ ان دنوں ملک کے حالات بد سے بدتر ہیں ، بی جے پی کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ، مہنگائی پر کنٹرول ، غربت کا خاتمہ ،کرپشن پر لگام ،جرائم میں کمی اقتصادی بہتری ، خارجہ پالیسی میں تبدیلی جیسے تمام موضوعات پر گذشتہ ڈیڑھ سال میں یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ ملک کی رفتار تھم چکی ہے ایسے میں اگر بہار میں بھاجپاکی جیت ہوتی تو ملک مزید خطرے کی زد میں آجاتا لیکن خدائے پا ک کا ہزارہا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا بزرگوں کی دعائیں شرف قبولیت سے نوازیں گئیں اور مودی کو سخت ہزیمت کا سامنا کرناپڑا۔

دوسری طرف بہار کی عوام نتیش کمار کے کاموں سے انتہائی خوش ہے ، بہار سڑکوں کے حوالے سے کافی بدنام تھا ، 30 کیلو میٹر کا سفر تقریبا تین گھنٹے میں طے ہوتاتھا لیکن اب وہی راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے ، بجلی کی حالت بہت بہترہوچکی ہے ، اکثر گاؤں میں بجلی دستیاب ہے ،کبھی اسکولوں میں بچے نظر نہیں آتے تھے اور اب جگہ کی قلت کا شکوہ ہے ،دلت ،مہادلت اور خط افلاس نے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کے بچے بھی اسکول میں جارہے ہیں ،بیواؤں ، بوڑھوں او ردیگر ضرورت مندوں کو وظیفہ دیا جارہا ہے ، بے روزگاروں کو ملازمت ملی ہے ، خواتین نتیش کمار سے سب سے زیادہ خوش ہیں ، ٹائمز آف انڈیا کی رپوٹ کے مطابق خواتین اکثریت پر مشتمل 20 سیٹومیں سے 17 پر تنہاعظیم اتحاد کو کامیابی ملی ہے جبکہ بی جے پی صرف تین سیٹیں حاصل کرسکی ہیں ، جب لوگوں سے ہم نے سوال کیا کہ نتیش کی دس سالہ حکومت کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ، انہوں نے آپ کے لئے کیا کیا ہے توہ انگلیوں پر گنانے لگے کہ یہ کیا ،فلاں کیا، فلاں دیاوغیر وغیرہ، لگے ہاتھ ہم نے یہ بھی سوال کیا مودی جی نے 2014 میں بہت سارے وعدے کئے تھے ڈیڑھ سال میں اب تک آپ کو کیا ملا ہے ان کی جانب سے ، وہ کہنے لگے کچھ نہیں وہ صرف بولتے ہیں ، انہیں بہار میں نہیں آنا چاہئے ،مودی نے اپنا قد چھوٹا کرلیا ہے ،ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کچھ ضعیف العمر لوگوں نے یہ بھی کہاکہ نتیش کمار سے بہتر ہندوستان میں کوئی لیڈر نہیں ہے انہیں بہار کا پی ایم ہونا چاہئے ۔کچھ ایسے لوگ بھی ملے جو مودی کے فین تھے ،ان سے ہم نے سوال کیا کہ کیا آپ کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے آچکے ہیں ، انہوں نے جو وعدے کئے تھے وہ پورے ہوگئے ہیں ،کہنے لگے چھوڑیئے ان سب چیزوں کو حکومت نے کس کو کیا دے دیا ہے آج تک ،ہمارا کام ووٹ دینا ہم مودی کو ووٹ دیں گے،جب یہ کہاگیا کہ نتیش کمار کا دس سالہ دور آپ کے سامنے ہے جس میں بہار میں حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے ،ان سوالوں کے جواب میں ایسے لوگوں کا یہی کہناتھا کہ ہمارے علاقے کا تمام نوجوان بی جے پی کوووٹ دے رہا ہے ، ہم بھی اسی کو دیں گے ، نتیش اچھے تھے لیکن وہ چور سے مل چکے ہیں اس لئے اب وہ بھی چوری کریں گے ، ہم مودی کو اپنا ووٹ دیں گے۔

بہار میں بی جے پی شکست فاش سے دوچار ضرورہوئی ہے ، 243 اسمبلی والی سیٹ میں سے صرف 58 کا ملنا یقینااس کے لئے شرمناک ہے لیکن ملک کے جو حالات ہیں ایسے میں اسے اتنی سیٹوں کا مل جانا کسی المیہ سے کم نہیں ہے ، خاص طور پر ووٹ فی صد کا اعتبار کریں تو بی جے پی کی حمایت میں کمی نہیں آئی ہے۔ این ڈی اے کو کل 34 فی صد ووٹ ملے ہیں جس میں بی جے پی کا.90 24 فی صدووٹ ہے ، جبکہ عظیم اتحاد کو 41 فی صدووٹ ملا ہے ،18 فی صدراجد کو ،16 جدیوکو اور 6 کانگریس کو ، نتیش اور لالو کا اگر اتحاد نہ ہوتا تو بی جے پی آسانی کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ۔

نتیش کمار کی اس جیت میں بہار کی سیکولر عوام کے ساتھ وہاں کے مسلمانوں نے اپنی خصوصی کردار اداکیا ہے ، جذبانی نعروں کے بہکاوے میں آنے اور علاقائی نمائندوں کو دیکھنے کے بجائے براہ راست ان کی نگاہ پارٹی پر تھی ، فرقہ پرستی اور تشدد کے بڑھتے واقعات ، اخلاق سمیت کئی معصوم مسلمانوں کا بہیمانہ قتل ، گائے کے ذبیحہ پر پابندی کی دھمکی ،بی جے پی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات نے مسلمانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی متحد کردیا تھا، مسلمانوں کا مشن نتیش کو جتانا نہیں بلکہ بی جے پی کو ہراناتھا،مسلمان کے نام پر مسلمانوں نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ، مسیحائی کے دعویدار لیڈروں کو بھی مسلمانوں نے خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کردیا ،جس سے بھی پو چھا یہی جواب دیا کہ ہم بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں ، مسلم خواتین کا جوش و جذبہ بھی قابل دید تھا ،جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں کیا تھا انہوں نے بھی گھر کی چوکھٹ سے باہر قدم رکھکر مودی کی وجے رتھ کو روکنے میں حصہ داری لی ، عوام کے اسی اتحاد کے پیش نظر مجھے بھی یقین سا ہوگیا تھا عظیم اتحاد کی سرکار بنے گی، جو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے انہیں میں یہ کہتا تھاکہ اب سوال یہ نہیں کروکہ کس کی حکومت بنے گی بلکہ سوال یہ کروکہ بی جے بی کی ہارکیسی ہوتی ہے ؟ذلت آمیز یا عبر ت انگیز!

بہار میں بی جے پی کی قیادت میں چار پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی این ڈی اے کی شکست فا ش اور تین پارٹیوں پر مشتمل عظیم اتحاد کی فتح عظیم محبت ، ترقی اور یقین کی فتح ہے ، ہندوستان کی جیت ہے ، سیکولرزم کی جیت ہے ،نفرت ، فرقہ پرستی اور شدت پسندی کی ہار ہے ۔یہ نتیش کمار کی جیت سے زیادہ نریندرمودی کی ہار ہے ، وزیر اعظم کی شکست ہے ، ملک کے سب سے باوقار عہدہ کی شکست ہے، بہار انتخابات سے یہ پیغام بھی عیاں ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی عوام گجرات ماڈل کی جگہ بہار ماڈل چاہتی ہے ، پورے ملک میں اسی بہار ماڈل کا نفاذ ضروری ہے۔سب کا ساتھ سب کا وکاس اسی بہار ماڈل میں پوشیدہ ہے ، اسی کو اپنانے میں ملک کی ترقی اور بھلائی ممکن ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163521 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More