سیاست کا معیار گرتا کیوں جارہا ہے سوچنے کی باتیں

سیاست کے لغوی معانی کو چھوڑ تے ہوئے صرف عرفی حیثیت کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے اذھان کو اس تـأثر سے نکالا جائے کہ (سیاست صرف جھوٹ) کا نام ہے اور لوگ سیاست کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو چند سیاست دانوں یا چند سیاسی پارٹیوں کا کام سمجھتے ہیں کیونکہ سیاسی تربیت کا نظام ہی موجود نہیں اور عوام کو معروف سیاسی نظام میں آزادانہ آراء کی روشنی میں شرکت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ سیاست کا بنیادی نظریہ تو کسی بھی سطح پر منظم نظام کی ترتیب دینا ہوتا ہے جس سے معاشرے میں رواداری،برداشت، ہم آہنگی، محبت ،ہمدردی، مروت، مودت، حقوق کی پاسداری و حفاظت، احترام، خدمت ،انصاف اور آزادیٔ آراء کی اہمیت کے ساتھ ساتھ استعداد کے مطابق قومی معاملات میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا۔انسانی معاشرے میں افراد کا بڑا کردار ہوتاہے اور معاشرے کی تعمیر اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ تمام انبیائے کرام کی تعلیمات کے مرکز ی تین نکات رہے ایمان باﷲ، ایمان با الرسالت ، اورایمان الآخرۃ ۔ اعمال کی ترتیب ایمان کے ان تین نکاتی ایجنڈے کی تکمیل رہی سب نبی ؑ اپنے دور کے لوگوں کو زمین میں اﷲ کی نیابت اور حاکمیت کی عملاََ تنفیذ کے لئے معاشرہ ترتیب دیتے رہے جو ایک سیاسی نظام تھا۔ یہ تعلیمات اﷲ کے آخری رسول ؐ حضورنبیٔ کریم ﷺ پر تکمیل ہوئیں اور اﷲ کی آخری کتاب قرآنِ کریم کی صورت میں دستور العمل عطاء فرمایا اور رسول اکرم ﷺ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور پھر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنے خاندان والوں سے معاشرے کے رخ کو اﷲ کی وحدانیت پررسالت اور آخرت پر ایمان لانے کے مرکزی نکتے پرجمع کرنے کا آغاز اس انداز پر کیا کہ ( قولوا لاالہ الاﷲ تفلحوا) اﷲ کو وحدہ لاشریک مان لو فلاح پاؤ گے۔ گویا اسلامی نظامِ معاشرت کی بنیاد عقائد و نظریہ پہ رکھی جو دنیا و آخرت کی کامیابیوں کی ضمانت ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نظام معاشرت محض باطل اور ناکام نظام معاشرت ہے خواہ وہ کتنا ہی خوبصورت یا خوشنما کیوں نہ ہو۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ نظام باطل ہمشہ کچھ مدت کامیابیوں کے باوجود ناکام رہا۔ اﷲ کے پیغمبر علیھم السلام اوران کا وہ نظام جو اﷲ کی طرف سے ملا وہی بالا دست اور کامیاب رہا اس کی مخالفت کرنے والے یا تو طوفانِ نوح کی نذر ہوئے غرقِ دریائے نیل ہوئے یا آندھیوں کا شکار ہوئے یاپھر ایک دوسرے کو قتل و غارت کے ذریعے سے مٹ گئے۔رسولِ کریم ﷺ نے مکی دور میں تطہیر افکار بنیادی عقائد کی تعلیم اور تعمیر سیرت پر توجہ دی اور ایسی جماعت معرضِ وجود میں آئی اور ان کی سیاسی تربیت خود رسول اﷲ ﷺ نے اس انداز سے کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کی صلاحیت کے مطابق خدمات تفویض کیں ۔ کوئی بھی سیاسی قائد سیرت رسول ﷺ کے ان اقدامات کی روشنی میں اپنی سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دے گا وہ کامیاب سیاست دان ہو گا۔( اﷲ توفیق دے)حضور ﷺ نے مختصر جماعت کے ساتھ جب مدینے میں قدم رکھا تو اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ۔ دنیا کے غیر متعصب مؤرخین خواہ وہ قدیم ہوں یا جدید اسلامی ہوں یا مستشرقین مسلم ہوں یا غیر مسلم ، مدینے کی اسلامی ریاست کو خوبصورت اور کامیاب ریاست مانتے ہیں رسول اﷲ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کا دور بھی مثالی سیاسی نظام ریاست رہا جس کو نبی ﷺ نے اﷲ کے حکم کے مطابق ترتیب دیا تھا تا ہم آپ ﷺ چوں کہ اﷲ کے رسول ؐ اور منتخب راہنما اور رہبر تھے اگر چہ آپ ؐ ․ (۲) اہل الرائے سے بعض معاملات میں مشورہ لیتے تھے لیکن ان مسائل میں جن میں اہل الرائے کی شمولیت ضروری ہوتی آپؐ کی رحلت کے بعد اہل الرائے خلیفۂ ؓ راشد کا انتخاب سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں کرتے رہے اس کی مختلف صورت رہی ۔خلفائے راشدین ؓکے بعد ملوکیت کادور شروع ہوا طریقِ انتخاب میں بھی تغیر واقع ہوتا گیا لیکن اس صورت میں بھی اہل الرائے کا کردار رہا اگر چہ انتخاب خلیفہ اور بیت المال کے نظام میں تغیر رونما ہوگیا تھا تاہم عدالتی امور میں اہل الرائے کو اہمیت رہی۔طویل تاریخ ہے یہ اس مضمون کا موضوع بھی نہیں چند مثالوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔کیونکہ سیاسی نظام کی اہمیت اور اس کا زوال زیربحث ہے اس لئے اسی پر توجہ مبذول رہے گی ۔نبی ﷺ کے بعد امیر المؤمنین یا خلیفۃ المؤمنین ریاست کے سربراہ کی اصطلاح رہی اور عملاََ خلائے راشدینؓ کے بعد اگرچہ بظاہر امیر المؤمنین ہی استعمال میں رہی تاہم عملاََ شہنشاہ یاملک کے کردار سے ریاست کا نظام متعارف ہوا اور بکھرے ہوئے دائرۂ کار میں دونوں اصطلاحیں استعمال میں رہیں۔ ؑبنوعباس کے اختتام کے بعد سیاست نے نیا رخ لیا اور باقاعدہ ریاست کے سربراہ کو شہنشاہ معظم اور ملک کے نام سے پکارا جانے لگا اور عملاََ اﷲ کے پسندیدہ نظام ِ اسلام کو ناقابل عمل قرار دینے کی مہم کا آغاز ہو گیا اگر چہ اس سیاسی نظام میں رخنہ اندازی بنو امیہ کے دور حکومت سے ہی شروع ہو گیا تھا سوائے عمرِ ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور حکومت کے جس کو خلفائے راشدین ؓ کی طرز حکومت کے مطابق کہاجاسکتا ہے۔لیکن اس کا حلیہ اس وقت بگڑنا شروع ہوا جب سیاست کومذھب سے الگ کردیا گیا اور اب تو مذھب اور سیاست کو دو متحارب نظام کے طور پرمتعارف کیا جارہا ہے اور نظام اسلام کو موجودور میں ناقابل عمل قرار دیا جا رہا ہے ۔ اس کی ابتداء تو انیسویں صدی عیسوی میں چرچ کے خلاف لبرل ازم کے نام سے ہوئی اور مذھب کو نظام زندگی سے بے دخل کرنے کی مہم کے طور پہ لیا گیا اور مذھب کو استحصالی نظام قرار دیا نوجوانوں نے مادر پدر آزاد لبرل ازم کی بنیاد رکھی اس نظریے نے چرچ کو ناکام بنادیا با لآخر لبرل ازم یورپ میں پھیل گیااس کے اثرات یورپ کے معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں اور لبرل ازم نے آہستہ آہستہ یورپ سے نکل کر پوری دنیا میں اپنی گرفت مضبوط کرلی اورعیسائی مذھب چرچ تک محدود ہوکر رہ گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جن نظریات کو لبرل ازم کی بنیاد بنایا گیا تھا اپنی افادیت کھو بیٹھا کیونکہ اب لبرل ازم میں بھی کئی گروپ اور نظریات جنم لے چکے ہیں ان کی تفصیلات یہاں ذکر کر نے کی ضرورت نہیں البتہ اس کی ایک شاخ جمہوریت کے نام کے ساتھ دنیا میں پھیل رہی ہے اور خوبصورت عنوان سے متعارف ہو رہی ہے لیکن نظام جمہوریت بھی ان ضابطوں کی پابند نہیں جن کا بظاہر پر چار کیا جارہا ہے۔ یورپ میں تو اس نظام کا تجربہ ابھی تک کامیاب ہے جواصول یورپین نے طے کیئے اس کے مطابق عمل بھی کر رہے ہیں۔اس جمہوری نظام کو مغربی استعمار مسلم ممالک میں اپنے مفاد میں لبرل افراد کو اس نظام کے ذریعے منتخب کرانے کے حربے کے طورپراستعمال کرتا ہے اور پھر پورے طریقے سے اسلامی تشخص کو پامال کرنے کی سازش میں کامیاب ہوتا ہے۔ حالانکہ کوئی نظام بھی بجائے خود غلط نہیں ہوتا بلکہ اس کا استعمال صحیح یا غلط نتائج دیتاہے۔جمہوریت کے کچھ اصول طے کیے گئے تھے ان کے مطابق ہر بالغ مرد و خواتین اپنی آزادانہ مرضی سے اپنے نمائندے کا انتخاب کر سکیں گے جو ان کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد اور ان کے حقوق کی حفاظت کا اہل ہو۔ یورپ میں تو اس پر عمل ہوتا ہے لیکن مسلم ممالک میں ․ ․ (۳) اس نظام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور اپنے مہروں کو انتخاب کی شکل میں چنا جارہا ہے جہاں بھی اسی مغرب زدہ نظام جمہوریت کے ذریعے کسی بھی مسلم ملک میں لوگ اپنی مرضی سے کسی سیاسی اسلامی جماعت کو اقتدار میں لاتے ہیں اور وہ یہود و ہنود کی چاہت سے نہ منتخب ہوئے ہوں اور انگریزوں کے مفادات کو ا ن کے نظریے کے مطابق نقصان کا خطرہ ہوتو خود اسی ملک کی فوج یا ناٹو فورسز کے ذریعے منتخب حکومتوں کو کچل کر فوجی حکومتیں قائم کردی جاتی ہیں اور وہاں جمہوری فارمولہ مسترد ہو جاتا ہے ایسی مثالیں کوسووو، فلسطین، مصر ،لبیا اورافغانستان اور اب ایران کو بھی ڈسٹرب کیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مسلم دنیا کے خلاف اقوام متحدہ کے نام پرقائم ادارہ یہود و نصاریٰ کے مفادات کے تحفظ دینے اور مسلمانوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ اسلامی دنیا میں اس یک طرفہ جمہوری کلچر کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہو چکی ہے اور یہ نظام بھی ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے اس لئے کہ اس نظام کو بھی سیکولر از م سے لبرل ازم کی طرف دوبارہ موڑا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں کی اسلامی سوچ جو دنیا بھر میں اسلامی تحاریک کے اثر سے مسلسل پھیل رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ لبرل ازم کے معرض وجود میں آنے سے چرچ کو سیاست سے الگ کر دیا گیا تھا لیکن اسلام اﷲ کا دیا ہوا نظام ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا نہ ہوگا انشاء اﷲ البتہ سازش کا شکار ضرور ہوتا ہے جودیر پا نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی حفاظت اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے ہم یہود و نصاریٰ کو مشورہ دیتے کہ وہ اپنی تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں اور غور کریں کہ جب بھی انہونے اﷲ کے دین کے خلاف بغاوت یا سازش کی ان کاحشر رہتی دنیا تک نشانِ عبرت بن گیا۔جمہوریت کا یہ مثبت پہلو ہے اگرلوگوں کو اپنی مرضی سے آزادانہ حقِ رائے دہی استعمال کا موقع دیا جائے اور ان کے فیصلے کو قبول کیا جائے اور ہر ملک اپنے آئین کے مطا بق اپنی آزاد اورخدمختار حیثیت سے نہ کہ مغربی استعمار کی خواہش کی تکمیل کے لئے دھونس دھاندلی لالچ ادردھمکیوں کے ذریعے کوئی بھی اپنے حق میں نتائج بنائے اس کو جمہوری انتخاب نہیں کہاجا سکتا بلکہ یہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔چونکہ یہ جمہوریت مغربی استعمار کے لئے فائدہ مند ہے اس لئے ڈوبتی نیا کو بچانے اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے مغربی استعمار اس وقت پروپگنڈہ کے لئے لبرل ازم اور سیکولر جمہوریت کی خوبیاں اس انداز سے پیش کر رہا جیسے یہ نظام انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام اور اسلامی سوچ اور یورپ میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کا راستہ روکنے کے لئے مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو انتہا پسند مذھب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تاکہ عوام کو گمراہ کیا جا ئے۔ مغربی دہشت گرد استعمار نے موصاد، سی آئی اے بلیک واٹر تنظیم ،را ، اورایم آئی سیکس کے ذریعے بڑے پیمانے پر لبرلز سیکولرز مذھب بیزار صحافیوں کو خریدا جاتا ہے ہر مسلم ملک میں وہاں کے حالات کے مطابق قرقہ واریت کو تر تیب دیا جاتا ہے ترکی کی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جس کا بنیادی ہتھیار فرقہ واریت کا پھیلا نا تھا اور پہلی دفعہ برطانیہ کے انڈر سیکریٹری ہمفرے نے آلِ سعود کی حکومت سعودی عرب میں وہابی حکومت قرار دی اور لفظ وہابیت کو مسلمانو ں میں گالی کے طور پر متعارف کرایا گیا جو آج تک نفرت کی علامت کے طور پراستعمال ہورہا ہے۔ اسی طرح ارض القرآن میں سنی شیعہ فسادات کی بنیاد بھی عراق شام وغیرہ میں ہمفرے ہی نے رکھی جس کا اعترافی بیان یہ ہے کہ مسلمانوں کے آ پس کے تعلقات اخلاقیات سے متاثر ہونے کے باوجودان کے درمیان نفرتیں پھیلانا اپنے ملک کے نمائندہ کی حیثیت ․ (۴) سے میرے فرائض منصبی میں شامل تھا اس لئے ضمیر کی رکاوٹ کے باوجود مجھے وہی کرنا پڑا جس کی ذمہ داری میرے ملک نے مجھے دی ۔ (جملہ معترضہ) بدقسمتی سے بحیثیت مسلمان بھی ہم ہمفرے کے فامولے کے مطابق ایک دوسرے کو کافر تک کہنے سے بھی نہیں چونکتے اور ہمارے نبی ﷺ کے فرمان کو ( المسلم من سلم المسلمون من السانہٖ ویدہٖ ) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ لیکن ہم ہیں ہمفرے کے پیرو کار بنے ہوئے ہیں اور اس کو مذھبی فریضہ سمجھتے ہیں (اگر حضور ﷺ نے حوض کوثر اور شفاعت کے موقع پر یہ فرما دیا کہ جاؤ ہمفرے کے پاس کہو کہ وہ آپ کی پیاس بجھائے اور اﷲ کے پاس سفارش کرے میرے ساتھ آپ کوئی تعلق نہیں خدا نہ خواستہ) توپھر ہمارے پاس کی جواب ہوگا ۔ الحمد ﷲ ہم اﷲ کے فضل سے اپنا دین رکھتے ہے ہمارے نبی ﷺ سید الانبیآء ہیں ہمارے پاس اﷲ کاقرآن ہے ہمارے پاس قبلہ ہے امت مسلمہ میں صدیق ہیں، شہداء ہیں ، ہمارے پاس ابرار و صالحین ہیں ( وحسن اؤلآئک رفیقاً) یہ نعمت کسی بھی مذھب کے پیروکاروں کے پاس نہیں اور انشاء اﷲ دین اسلام غالب ہوکر رہے گا کیونکہ یہ غالب ہونے کے لئے ہی آیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ جمہوری طریقہ جس کو پاکستان کا آئین تحفظ دیتا ہے اور آئین میں کافی حد تک اسلامی دفعات موجود ہیں کو بروئے کار لاتے ہوئے اور خامیوں کو ترمیات کے ذریعے اسلام کے عادلانہ نظام کی تنفیذ کی جدو جہد جاری رکھنی چاہئے اگر مغربی استعمار جمہوریت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے تو ہم اپنے مقاصد کیوں حاصل نہیں کر سکتے امت مسلمہ کے اتحاد اور اقوام متحدہ کے مقابلے میں او آئی سی کو مضبوط بنانے اور اس کے مثبت اور امت کے مفاد اور اس کی حفاظت کے لئے اختیارات خود مختاری کے اقدامات کی ضرورت ہے مالی وسائل سے اﷲ نے امت مسلمہ کو نوازا ہے اسلامی مما لک اپنے تیل کی صنعت کو بطور تجارت استعمال کریں اور اس کی سر پرستی او آئی سی کرے تو پورے اسلامی ممالک دفاع میں بھی مظبوط اور معیشت میں بھی کفیل ہو سکتے ہیں مدینہ کی اسلامی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے حکمران اگر جمہوری نظام کوہی اپنانا چاہتے ہیں اس کے طے شدہ اصولوں پر عمل پیرا ہو تے ہوئے سادگی اختیار کریں غیر ملکی سودی قرضے نہ لیں ملکی وسائل پر انحصار کریں سب سے بڑھ کر انصاف اور تقویٰ اختیار کریں پھر اﷲ کی مدد اور رحمت کا نزول دیکھیں اور اپنے مرکز اور اسلام ی نظریے سے مظبوط رشتہ استوار رکھیں ( پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) اﷲ توفیق ِعمل نصیب فرمائے اصل مالک تو وہی ہے۔
Syed Muzzafar Hussain Bukhari
About the Author: Syed Muzzafar Hussain Bukhari Read More Articles by Syed Muzzafar Hussain Bukhari: 23 Articles with 33436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.