میانمار انتخابات میں آنگ سانگ سوچی دو تہائی اکثریت کی جانب گامزن

میانمار انتخابات میں آنگ سانگ سوچی دو تہائی اکثریت کی جانب گامزن: روہنگیا مسلمان حق رائے دہی سے محروم

۸ نومبر کو میانمار میں 25 سال بعد ہونے والے آزادانہ عام انتخابات کے نتائج آنے شروع ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں رائے دہندگان میں جوش وخروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔

پولنگ کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا اور پولنگ سٹیشنوں سے لوگوں کو مسکراتے ہوئے نکلتے دیکھا گیا ہے۔آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے آج ہونے والے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے، اگرچہ برما کے آئین کے تحت آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں۔

میانمار میں کئی دہائیوں تک فوج کی حکومت رہی اور اس سے قبل تمام انتخابات فوج ہی کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں۔میانمار میں سنہ 2011 سے حکومت کرنے والی جماعت یونین سولیڈیریٹی ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) جسے فوج کی حمایت حاصل ہے ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

ادھر میانمار کے موجودہ صدر تھین سین نے کہا ہے کہ حکام آج اتوار کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا لحاظ کریں گے۔

انھوں نے جمعے کو کہا: ’میں انتخابی نتائج کے تحت قائم ہونے والی نیی حکومت کو تسلیم کر لوں گا۔‘ادھر آنگ سانگ سوچی کے اس بیان نے سب کو وطیرہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہجیت گئی تو میری حیثیت ’صدر سے بالا تر ہو گی ۔ایک اندازے کے مطابق میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں تین کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

میانمار کی پارلیمان 664 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں 90 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 6,000 سے زائد امید وار حصہ لے رہے ہیں۔

ان انتخابات کے لیے پارلیمان کی 25 فیصد نشستیں فوج کے نمائندوں کے لیے مختص ہوں گی۔

نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی سوچی، اپنی پارٹی این ایل ڈی کے کامیاب ہونے کے باوجود بھی ملک کی صدر نہیں بن سکیں گی، کیونکہ برما کے آئین کے مطابق کوئی بھی ایسا برمی مرد یا عورت ملک کا صدر بننے کا اہل نہیں ہے جس نے کسی غیر ملکی شہری سے شادی شدہ ہو یا اس کے بچے غیر ملکی ہوں۔
آنگ سان سوچی کے دو بیٹے برطانوی شہری ہیں اور ان کے برطانوی شوہر وفات پا چکے ہیں۔

جمعرات کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سوچی نے کہا کہ اگر ان کی جماعت جیت گئی تو وہ ’صدر سے بالاتر‘ ہوں گی۔

سوچی کی جماعت این ایل ڈی کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے تمام انتخابی نشستوں میں سے 67 فیصد جیتنا لازمی ہوں گی۔

رنگون میں موجود بی بی سی کے نمائندے جونا فشر کا کہنا ہے کہ ابھی تک میانمار میں کوئی قابل اعتبار سروے نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ لوگوں کا ووٹ کس طرف جائے گا۔

میانمار میں ووٹنگ سے پہلے سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں اور 40,000 سے زائد پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

سوچی پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی اور بے ترتیبی کا خدشہ ظاہر کر چکی ہیں۔

سنہ 1990 کے انتخابات میں بھی این ایل ڈی نے ا کثریت حاصل کر لی تھی لیکن فوج نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔انتخابی نتائج بہت سست رفتار سے ظاہر کیے جا رہے ہیں تا دم تحریر صرف ۸۸ حلقوں کے نتائج کا ہی اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ اندازہ یہ کیا جا رہا ہے کہ سوچی کی پارٹی بہ آسانی ۷۰ فیصد نشستیں حاصل کر لیں کہ اپنے صدارتی امیدوار کو کامیاب کرانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گی اور بعد ازاں برمائی دستور میں ترمیم کی بھی مجاز ہوں گی جس کے ذریعے وہ قانون میں تبدیلی کر کے اپنی صدارت کا راستہ بھی صاف کر لیں گی۔ دریں اثناء واضح رہے کہ برمال کے ان حالیہ انتخابات میں تقریباُ تیرہ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ روھنگیا میں مسلمان اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر مظالم کئی عشروں سے جاری ہیں۔برما میں مسلمان آبادی پر بدھ مت دہشت گردوں اور مقامی حکومت کے وحشیانہ مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ اور امتیازی سلوک کے سنگین نتائج پر خبردار کرتے ہوئے برما کی حکومت سے مسلمانوں کو ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے دو سینئر عہدیداروں نے میانمار میں اتوار 8 نومبرکو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے دوران مسلمان آبادی کو ہر ممکن تحفظ دینے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ میانمار میں جہاں انتخابی عمل کا پرامن ہونا ضروری ہے وہیں روھنیگیائی مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت اور اشتعال انگیز مہم پر بھی لازمی پابندی لگائی جانی چاہیے۔

یو این جنرل سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مندوب برائے انسداد نسل پرستی اداما ڈینگ اور منظم مذہبی سیاسی اور نسل پرستی کے خلاف سرگرم کمیٹی کے سربراہ جنیفر ویلز نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیاز پر مبنی ظالمانہ سلوک بدستور جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار میں مسلمان اقلیت کے خلاف جاری منظم نسل پرستانہ مذہبی اور نسلی تفریق سنہ 2008ء کے مرتب کردہ دستور کی دفعہ 364 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یو این مندوبین کا کہنا ہے کہ ہم بار بار خطرے سے متنبہ کر رہے ہیں کیونکہ میانمار سے آنے والی رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں پر مسلمان اقلیت کے خلاف نفرت انگیز مہم ایک بار پھر زوروں پر ہے۔ بالخصوص میانمار کے مذہبی گروہ اور مختلف سیاسی جماعتوں کے مسلح جتھے مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ مکروہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارے کے عہدیداروں نے خبردار کیا کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت انگیز مہمات کے خود برما کے لیے سنگین نتائج مرتب کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف جاری مہمات تشدد کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ حکومت کو دستورکے تحت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جاری مہمات کو بند کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے کہ میانمار میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں مسلمان اقلیت کے گرد مزید گھیرا تنگ کرنے کی راہ ہموار ہو گی اور روھنیگیا کے مسلمانوں کے حقوق سلب کیے جائیں گے۔

یو این عہدیداروں نے کہا کہ روھنگیا میں مسلمان اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر مظالم نئے نہیں بلکہ عشروں سے جاری ہیں۔ روھینگیا کی حکومتیں ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمان اقلیت کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے لیے سخت ترین قوانین کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ بدقسمتی سے برما میں تمام طبقات کی نمائندہ حکومت کے قیام کے بجائے بدھ مذہب کے انتہا پسندوں کی نمائندہ قوتیں اقتدار میں آکر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم ڈھاتی رہی ہیں۔ان تمام مظالم کے خلاگ سوچی نے کوئی آواز بلند نہ کر کے برما کے سخت گیر بودھ بھکشووئں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ وہ محض انتخاب میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے کر رہی ہیں لیکں یہ بھی واضح رے کہ انہوں نے ابھی تک کسی بھی فورم پہ یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اپنی جیت کے بعد وہ کس قسم کی دستوری اصلاحات کریں گی وہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے شہری حقوق دلانے کے لئے قانون میں کوئی ترمیم کریں گی یا ان بے یار و مددگار مظلوموں کے خلاف ہونے والے تشدد کو روکنے کے اقدامات کریں گی۔ بہ ظاہر ان کے لئے ایسا کرنا اس لئے مشکل نظر آتا ہے کہ جن طاقتوں کو ساتھ لے کر وہ انتخابات میں آگے آئی ہیں وہی تو دراصل مسلم دشمن ہیں تو کیا وہ ان کو مسلمانوں کی دادرسی کی اجازت دیں گے۔

دریں اثناء امیریکہ نے ان انتخابات پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے ایک محتاط رد عمل میں کیا ہے کہ حالانکہ انتخابی عمل زیادہ تر پر امن اور شفاف رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نصف صدی کے بعد برما میں ایک حقیقی جمہوری حکومت کے قیام کا راستہ صاف ہو گیا ہے لیکن اس امر کا شبہ بھی برقرار ہے کہ کیا برما کی فوجی حکومت اتنے بڑے عوامی فیصلے کو اپنے اعلان کے مطابق آسانی سے قبول کر لے گی کیونکہ یہ اگلا مرحلہ ہی سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہے اور امریکی حکومت اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کے نائب خارجہ سیکریٹری دانیال رسل نے کہا ہے کہ امریکہ برما کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات استوار کرنے کا خواہشمند ہے لیکن برما میں جاری حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر متفکر بھی ہے۔ برمال کی حالیہ فوجی حکومت چین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے اور جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ میں خاصی معاون بھی ہے۔ یہی دراصل امریکہ اور دیگت یوروپی یونین ممالک کی اصل تشویش بھی ہے۔ یوروپی ممالک یہ امید رکھتے ہیں کہ سوچی کی سربراہی والے برما مین یوروپی مفادات زیادہ محفوظ ہوں گے اور خطے میں چین کے سیاسی اور اقتصادی اثرات کو کم کرنے مین معاون ہوں گے نیز جنوبی چین کے سمندروں میں امریکی بحری بیڑے کے نگیباں ہو گی۔ لیکن اس سب کے درمیان کیا یہ طاقتور حکومتیں سوچی حکومت کو مجبور کر سکیں گی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے یہ آنے والا وقت بہت جلد واضح کر دے گا۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 27696 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More