نتیش سرکا ر ،مسائل و امکانات
(Shams Tabrez Qasmi, India)
بہار کی سرزمین میں دوماہ سے
مسلسل جاری شور شرابہ اور انتخابی ہنگامہ اب ختم ہوگیا ہے،الیکشن کے دوران
نافذ مختلف قوانین کے نتیجے میں در پیش پریشانیوں سے عوام کو نجات مل گئی
ہے،الیکشن کا نتیجہ بھی سب کے سامنے آگیا ہے ،کسی کی دیوالی دیوالیہ میں
تبدیل ہوگئی ہے تو کوئی دیوالی سے پہلے ہی دیوالی کا جشن منانے میں مصروف
ہے، مارکیٹ میں نتیش اور لالو کے نام کے پٹاخے کی دھوم دھام ہے ،مودی کے
نام سے جو پٹاخا سال گذشتہ چلا تھا اس کانام ’’مودی پھس پھس‘‘ میں تبدیل
ہوگیا ہے ۔
بہار اسمبلی انتخابات 2015 میں چار پارٹیوں پر مشتمل سب سے بڑی اتحادی بی
جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی شکست فاش اور سیکولر اتحاد کی تاریخ ساز
جیت پر تجزیہ اور تبصرہ مہینوں جاری رہے گا، مختلف تجزیہ نگار اپنے اعتبار
سے تجزیہ کرتے رہیں گے ،شکست و فتح کے اسباب کا پتہ لگاتے رہیں گے ،تاہم
مجموعی طور پر جو تبصرہ سبھی لوگ کررہے ہیں وہ یہی کہ یہ فرقہ پرستی کی ہار
ہے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ کی شکست ہے ،مودی اینڈ کمپنی کی شکست
ہے۔یہ ہندوستان کی جیت ہے،سیکولزم کی فتح ہے ،اتحاد کی طاقت کا نتیجہ ہے،
بہار نے ملک کو غلط راستے سے ہٹاکر صحیح سمت پرگامزن کردیاہے، فرقہ پرستی
اور ہندتو کے بجائے ہندوستان کو ترقیاتی ایجنڈے پر چلنے کا پیغام دیا ہے
اور ایک مرتبہ پھربہار یہ ثابت کردیا ہے کہ و ہ حقیقی معنوں میں سیاست کی
جنم بھومی ہے ، ملک جب بھی راہ راست سے بھٹکا ہے بہار نے اصلاح کا فریضہ
انجام دیا ہے ۔
اس الیکشن میں ہندوستان سمیت دنیا بھر کے انصاف پسند طبقہ کو مودی کے شکست
کی فکر تھی،ان کی تمام تر کوششوں کا محور بی جے پی کو اقتدارسے دور
رکھناتھا،مسلمان اس حوالے سے سب سے زیادہ فکرمندتھے، بھاجپا کو اقتدار سے
دور رکھنے کے لئے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھاتھا،ان کا مشن
صرف اور صرف بی جے پی کو اقتدار سے دوررکھنا تھا،بی جے پی کی ڈیڑھ سالہ
حکومت نے بہار کے تمام مسلمانوں کو خود متحد کردیا،نہ کسی اپیل کی ضروت پڑی
اور نہ کسی مسلم قائد کے بیان کی، شہروں سے لے کر دیہات تک تعلیم یافتہ
طلقہ سے لیکر ناخواندہ تک ایک ہی بات کہ رہے تھے،ہر ایک کا یہ مزاج بن چکا
تھا کہ بی جے پی کوروکناہے ،آنکھ بند کرکے عظیم اتحاد کووٹ دیناہے، نمائندہ
کون ہے ، کیسا ہے ،کس مذہب اور برادری سے تعلق رکھتا ہے یہ کسی نے نہیں
دیکھا، جس کسی نے مذہب کے نام پر ہمدردی جتاکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی
انہیں مسلمانوں نے میر جعفر کہ کر واپس کردیا ،جنہوں نے مسلمانوں کی
مسیحائی کا دعوی کیا انہیں بھی بہار نے خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کردیا،
مسلمانوں کے اس اتحادنے تاریخ رقم کی اور تقریبا 98 فی صد ووٹ عظیم اتحاد
کے کھاتے میں گیا، جس کے سبب سیکولر اتحاد کو 243 میں سے 178 پر تاریخ ساز
فتح ملی تو این ڈے اے صرف 58 پر سمٹ کر رہ گئی ،مسلمانوں نے اس مقصد میں
کامیابی حاصل کرنے کے لئے نتیش ،لالو اور سونیا کی قیادت میں سب کچھ خاموشی
کے ساتھ گوارہ کرلیا نہ تو ٹکٹ کی تقسیم پر کوئی سوال قائم کیا، نہ ہی کسی
اور معاملہ پر لب کشائی اور نہ ہی اب وہ مہاگٹھ بندھن سے کچھ چاہتے ہیں
کیوں کہ مسلمانوں نے جس مقصد کے لئے مہا گٹھ بندھن کا ساتھ دیا تھا وہ مل
گیا ہے ،اب اگر مزید کچھ ان کی طرف سے مل جاتا ہے تو یہ ان کا بڑاپن اور
احسان ہوگا!۔
نتیش کمار ایک مرتبہ پھر بہار کے وزیر اعلی بننے جارہے ہیں ،20نومبر کو وہ
پانچویں مرتبہ وزیر اعلی کاحلف لیں گے،اگر وہ آئندہ پانچ سال کی مدت پوری
کرلیتے ہیں تو بہار میں دوسرے سب سے طویل المدت وزیر اعلی بن جائیں گے۔نتیش
کمار کا شمار ایک کامیاب ترین وزیر اعلی میں ہوتاہے ،ان کے مخالفین بھی ان
کے کاموں کااعتراف کرتے ہیں ،جن لوگوں نے این ڈی اے کوووٹ دیاہے انہیں بھی
اعتراف تھاکہ نتیش سے بہترکوئی کام نہیں کرسکتاہے؛ لیکن مذہبی جنون اور
ہندتو کا غلبہ ان کی راہ میں حائل رہا،نتیش کمارنے گذشتہ دس سالوں میں بہار
کونئی شناخت دی ہے پسماندہ بہار اب ترقی یافتہ کہلانے لگاہے ۔سڑک اور بجلی
کی صورت حال میں ناقابل یقین تبدیلی آئی ہے،ہر علاقے میں نیشنل ہائی کی
تعمیر کاکام جاری ہے،دوردراز گاؤں تک بحلی پہونچ چکی ہے ،تعلیم میں بہت
بیداری آئی ہے اب امیروں کے ساتھ ہر غریب کا بچہ اسکول جارہاہے۔ملازمت اور
روزگار کافی تعداد میں فراہم کرائی گئی ہیں۔مختلف طرح کے لوگو ں کو وظیفہ
دینے کے عمل جاری ہے، لاء اینڈ آڈر پر قابو پایا گیا اور بھی بہت سے کام
زمینی سطح پر انجام دیئے گئے ہیں جس نے دس سالوں میں عوام کو اقتدارمخالف
بنانے کے بحائے مزید موافق بنادیا اور اکثر نے ترقی کے نام پر نتیش کی
قیادت میں قائم سیکولر اتحاد کو اپنا ووٹ دیا ۔
لیکن ان سب کے باوجود اب بھی بہار میں بہت کچھ باقی ہے ، بہت سے ایسے امور
ہیں جس پر حکومت نے اب تک کوئی توجہ نہیں دی ہے ، ذیل میں ہم کچھ چیزوں کا
تذکرہ کررہے ہیں ۔بہار میں بس ٹرانسپورٹ کا انتظام کافی ناقص بلکہ نا کہ
برابر ہے ، اکثر مقامات میں سرکاری بس سروس نہیں ہے ،جہاں ہے وہاں دن بھر
میں صرف دو ہے ،مزیدبرآں یہ کہ اکثر لوگوں کوپتہ نہیں کہ بہار میں سرکاری
بسیں بھی چلتی ہیں ، گورنمٹ بس ٹرانسپورٹ نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ
پرائیوٹ بس والے من مانی کرایہ وصول کرتے ہیں ، سرکاری ریٹ کے مطابق جہاں
کا کرایہ بیس روپے ہے پرائیوٹ بس اس مسافت کا کرایہ پچا س روپے وصول کرتی
ہے ، ڈیزل کی قیمت میں کچھ پیسے کا اضافہ ہوتاہے تو ان بسوں میں کم ازکم دس
روپے کا کرایہ بڑھ جاتا ہے ،تعلمی بیداری کے بعد اسکولوں میں جگہ کی قلت کا
سخت شکوہ ہے، پورے بلاک میں صرف ایک ہائی اسکول ہونے کی وجہ سے نویں اور
دسویں کے طلبہ کو پریشانیوں کا سامنا ہے ، اکثر ہائی اسکول کی حالت یہ ہے
کہ وہاں دو سو طلبہ کے بیٹھنے کی جگہ ہے لیکن داخلہ پندرہ سو / دوہزا ر کا
ہے ۔ایسے میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہر بلاک کے بجائے اب ہر پنچایت میں کم
ازکم ایک ہائی اسکول ہو اور ہر وارڈ میں پرائمری اسکول ۔ کرپشن کا ماحول
ابھی بھی برقرار ہے، معمولی کام بھی کرپشن کے بغیر مشکل ہوگیا ہے ، پنچایت
سطح پر سرگرم لیڈر اس میں سب سے زیادہ ملوث ہیں ،ضلع پریشد ، مکھیا اور
پنچایت سمتی کے عہدہ پر فائز لوگ اکثر اسکمیوں کو استعمال کرنے اور آئی رقم
کو مصرف میں لگانے کے بجائے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر رکھ لیتے ہیں ۔کچھ
گاؤں ابھی بھی بہت پسماندہ ہیں ، وہاں نہ بجلی پہونچ سکی ہے اور نہ سڑکوں
میں کوئی تبدیلی آئی ہے ، سپول کے ایک گاؤں میں لوگوں نے مجھے بتایاکہ جب
سے ہماری عقل ہے یہ روڈ جوں کا توں برقرار ہے ، گذشتہ سال یہ روڈ پاس بھی
ہوگیا تھا لیکن یہاں کے ایم ایل اے نے اس اسکیم کو کسی ہندو علاقے میں
منتقل کردیا ، پنچایت سطح کے لیڈروں میں نفرت اور مذہبی تعصب بہت زیادہ
پایا جاتا ہے ، اکثر علاقوں کا کا حال یہ ہے کہ ہندو محلہ کی سڑکیں پختہ
ہوچکی ہیں اور مسلمان محلہ کی سڑکیں کچی ہیں ،اسکولوں میں بحالی کا نظام
بہت زیادہ کرپٹ ہے ، پیسہ اور رشوت کی بنیاد پر نااہل لوگوں کو ٹیچر کے نام
پر بحال کردیا گیا ہے جس سے طلبہ کا مستقبل روشن ہونے کے بجائے تاریک ہورہا
ہے ،گذشتہ کچھ دنوں کچھ ایسی بھی رپوٹیں آئی تھیں جس میں اسکولوں میں
پڑھانے والے ٹیچروں کو نہ انگریزی میں دنوں کے نام کی اسپلینگ کا پتہ تھا
اور نہ ہی جنر ل نالج کی ذرہ برابر معلومات تھی، ان کے علاوہ بھی بنیادی
مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس پر حکومت کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ،
اور یہی توقع ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں نتیش کمار ان امور پر خصوصی
توجہ دیں گے۔ |
|