حکمرانوں کے جھوٹ

سب اس حیرت میں ہیں کہ پاکستان کیسے چل رہا ہے ……؟جب سے یہ وجود میں آیا اسے حکمرانوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے،دنیا میں کوئی بھی ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں ،ان کی کامیابی میں ایک بنیادی وجہ ان کے حکمران کاکرپشن میں ملوث نہ ہونا ہے۔عوام یا اپوزیشن ان کی چھوٹی سی غلطی بھی برداشت نہیں کرتی اور انہیں باہر پھینک دیتی ہے ،اسی وجہ سے وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں اس سے بلکل الٹ ہے، حکمرانوں نے حکمرانی کو کاروبار سمجھ لیا ہے، کسی کا کاروبار اسی وقت چمکتا ہے جب وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا ہے اور یہ تمام کرپشن کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔عام زندگی میں سائیکل نصیب نہیں ہوتی مگر اقتدار میں آتے ہی جانے کون سا جادو استعمال ہوتا ہے ان میں انتہا کی عقل آ جاتی ہے اور وہ دنوں میں ملک کے امیر ترین اشخاص میں شامل ہو جاتے ہیں ۔

ہمارے موجودہ حکمران چاہے کچھ کر لیں ،عوام ان کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں ،ان کی غلطیاں سامنے آنے کے باوجود ان کی چاپلوسی کرتے ہیں،انہیں اپنے وطن عزیز سے محبت نام کی نہیں لگتی،حکمران خود تو ذاتی مفادات کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہے ہی، مگرانہوں نے عوام کو بھی اسی جانب لگا دیا ہے ،ایک بریانی کی پلیٹ کھا کر ووٹ دے دیتے ہیں،یہ معیار رہ گیا ہے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا ۔

ہماری سوچ وبچار کو کون سی دیمک نے کھا لیا ہے ،کہاں ہم سے دوسرے ممالک ترقی کے گُر سیکھتے تھے ،آج ہمیں ان سے سیکھنا پڑ رہا ہے، ہر مسئلے پر اپنے دشمن ملک کی مثال دینا پڑ رہی ہے، اس سے بڑھ کر افسوس کا المیہ کیا ہو گا؟ہمیں مسائل کی چکی میں ایسے پیسا گیا ہے کہ ہم سوچنے سمجھنے کی قوت کھو بیٹھے ہیں ۔ذاتی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دینے پر مجبور کر دیا گیا ہے، ہمیں ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے ہیں، ہر وقت خوش رہنے والی قوم خوشگوار ماحول کو ترس کر رہ گئے ہے،پیسے سے بڑھ کر کسی چیز کی اہمیت نہیں رہی ،وطن پرستی نا پید ہو کر رہ گئی ہے،ہماری معاشی ،سماجی ، معاشرتی اور مذہبی اقدار کو مسخ کر دیا گیا ہے لیکن اب تک عوام بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے ۔اگر جمہوریت عوامی طاقت کا نام ہے تو یہ طاقت تو عوام کے پاس ہونی چاہئے،حکمرانوں کو عوام سے ڈرنا چاہئے……؟ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔

موجودہ دور میں ماضی کے مقابلے میں تعلیم بہت زیادہ ہو گئی ہے ، شعور بڑھ گیا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔معاشی حالات کو دیکھ لیں ،انتہائی ناقص ہو چکے ہیں، اسی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو چکا ہے ،مگر ہر دوسرا فرد ماہر معاشریات ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں سمجھ رہا کہ حکمران ہمیں اعدادوشمار کے چکر میں ڈال کر بیوقوف بنا رہے ہیں،کیا قرض در قرض لے کر بھی آپ اپنی معاشی حالات کو بدل سکتے ہیں……؟ کرپشن کی بنیاد پر ملک کبھی بھی معاشی استحکام حاصل کر سکتا ہے……؟جھوٹ کی بنیاد پر کوئی بھی کام تکمیل پر پہنچ سکتا ہے……؟ہر گز نہیں ۔ہمارے ہاں عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ہم سے جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا رہا ہے اور بولا جا رہا ہے۔اپنے مفادات کے لئے جان بوجھ کر غلط فیصلے کئے جاتے ہیں۔اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ، ریلوے میں ترقی کرنے کے دعویداروں نے قرض پر قرض لے کر انجن چائنہ سے لئے ہیں ،جس میں انتہائی کرپشن ہے ،ایک تو کمیشن کی وجہ سے یہ انجن حاصل کئے گئے ،یہ کمپیوٹرائز انجن ہیں ،ان کی مینٹینس تمام تر چائنیز کے سپرد ہے ، ان کو چلانے والا بھی کوئی موجود نہیں،ماہرین کے مطابق انجنوں کی کارکردگی سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ دوسال تک بمشکل چلیں گے، ماضی میں امریکہ اور کینڈین انجن تھے جو کہ سالوں چلے اور آج بھی کام دے رہے ہیں۔حکومت کو چاہئے تھا کہ انجن خریدنے کے بجائے اس کی ٹیکنالوجی حاصل کرتیاور خود انجن تیار کرتے،ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک انجینئر موجود ہے ، جو بے روزگار ہے ،لیکن انہیں تو غرض ہے کمیشن سے اور چائنا کا وطیرہ ہے کہ ہم سے چیز لو چاہئے اس کے لئے کتنی ہی کمیشن کیوں نہ دینی پڑے ،وہ اتنی ہی چیز کی کوا لٹی کو کم کر دیتے ہیں۔پاکستان میں کورین نے موٹر وے بنائی ،پاکستان سے تمام لیبر کو لیا گیا ،پاکستانیوں نے ان سے ٹیکنیک حاصل کر لی ،آج ہم پورے پاکستان میں خود روڈز بنا سکتے ہیں۔اسی طرح مختلف پروجیکٹ میں جہاں حکمرانوں کو ذاتی مفاد حاصل ہوا ،انہوں نے بے دریغ قرضے لئے ،ہر فرد کو مقروض کر کے رکھ دیا ہے ،مگر عوام ہے کہ چوں بھی نہیں کرتی ،انہیں اندازہ بھی نہیں کہ یہ حکمران ان کو کس دلدل میں ڈال کر چلے جائیں گے ،کیونکہ وہ یہاں سے تمام تر کمائی ہوئی رقم تو دوسرے ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں ۔کس کو معلوم نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر اثاثہ جات دوسرے ممالک میں ہیں ،انہیں ذرا سی بھی پریشانی نہیں ،ملک یا عوام تباہ و برباد ہوں، وہ بے دھڑک دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رہے ہیں،پریشانی آنے پر وہ ملک سے آرام سے رفو چکر ہو جاتے ہیں،ماضی میں ایسا کئی دفعہ ہوا ہے ،ہمارے لوگوں کی یاد داشت بہت کمزور ہو چکی ہے۔

اسی موقع پر عمران خان نے اچھا قدم اٹھایا، کم از کم ان کے سامنے کسی نے کلمہ حق تو کہا ،گو کے ان کے ساتھی بھی انہیں کے درباریوں کی طرح ہیں، مگر وہ ذاتی طور پر ظالم اور تعریف پسند حکمرانوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گئے ہیں ،انہوں نے ہر اس ظالم اور جابر کو للکارا ،جو ملک اور عوام کے حق میں خطرناک تھا ۔گو کہ انہیں استعمال خوب کیا جا رہا ہے، مگر انہیں ذاتی طور پر غلط کوئی نہیں کہہ سکتا ۔ان کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ محبّ وطن اور عوام دوست ہیں،وہ غلط کو غلط کہتےٍ ہیں ،کیا یہ لوگوں کو خریدنے والے حکمران عمران خان کو خریدنے کی کوشش نہیں کرتے ؟کرتے ہیں،لیکن وہ سیاست دان نہیں ہیں،صاف شفاف انسان کی قدر ہمارے ملک میں کبھی بھی نہیں رہی ،اسی لئے ملک اور عوام اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔

خدارا اب ہر فرد کو اپنی آنکھیں اور دماغ کھول لینے کی ضرورت ہے۔کسی بھی حکمران کے ایک جھوٹ کو بھی برداشت مت کریں ۔اب وہ وقت آ چکا ہے جب ہمیں اپنے وطن کا خود دفاع کرنا ہے ،ہمارا جینا مرنا اسی مٹی میں ہیں ۔آج اس کی حفاظت کرنا اتنی ضروری ہے جتنی کبھی پہلے نہیں تھی۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.