بہار کے انتخابات سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے

 کسی ملک اور معاشرے میں جب غالب اور مغلوب قومیں اپنی قدیم تہذیب اور سیاسی نظریئے اور عزائم کو فراموش کر دیں تو غالب کے لئے مغلوب کو اور مغلوب کے لئے غالب کو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے پھر دونوں طبقے ایک دوسرے کے باہم گریباں ہو جاتے ہیں ۔پھر معاشرے کا رشتہ عدم برداشت سے جڑ جاتا ہے ، عدم برداشت کے وجود سے عدم تشدد کی پیدائش ہوتی ہے ،دراصل دُنیا کی تمام ناحق اور باطل قوتوں کی بنیاد اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ غالب قوتوں کا سہارا لیتی ہیں کیونکہ وہ حق کے علمبرداروں سے خوفزدہ رہتی ہیں ۔

ہر سو بو پھیلی ہوئی تھی ،تعصب کی بو،فرقہ واریت کی بو،عدم رواداری کی بو،عدم برداشت کی بو فضاء آلودہ ہو چکی تھی خوف کا عالم تھا ،خاص طور پر مسلم کہلانا جرم ہو گیا تھا ،گائے کا ذبح کرنا تو دور کی بات تھی بیف کا کھانا اپنی جان کو دھکتی آگ میں جھوکنا تھا ۔یہ بو پھیلائی یہ فضاء پیدا کی مودی جیسی متعصبانہ ذہنیت نے ،بی جے پی کے رہنماوں نے مسلمانوں کے خلاف تحضیک وتحقیر آمیز تقاریر کے نئے ریکارڈ قائم کئے ،بی جے پی او ر آ ر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد کیا ،دنیا بھر سے مذمتی بیان آ رہے تھے لیکن مودی سرکار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا ۔اپنے تئیں وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ نئے ہندوستان کی تشکیل دے رہے ہیں اور غالب قوم اپنی ریاستی قوت کی گھمنڈ میں مغلوب قوم کو دھمکی دینے پر اُتر آئی تھی گھمنڈ میں مبتلا گری راج سنگھ نے انگلی لہراتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا"مودی جی کے ہندوستان میں جو رہنا نہیں چاہتے وہ ٹرین پکڑ کر پاکستان چلے جائیں"پھر ایک جانب سے یہ بیان بھی آیا کہ "جس نے گائے کا گوشت کھانا ہے وہ پاکستان چلے جائیں" غالب قوم کی دھمکیوں کا محور مسلمان اور پاکستان تھے مسلمانوں کے گھر پر جاکر دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ پاکستان چلے جاؤ اخلاق احمد کو گائے کا گوشت ر کھنے کے شک کی بنیاد پر بہیمانہ تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اُتارا گیا "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا"کہنے والے شرمسار تھے کہ اچھے ہندوستان کا چہرہ اتنا مسخ تو کبھی نہ تھا ۔ لیکن جوں جوں ا ن کی سر پرستی ہوتی رہی ان کی طاقت اور من مانیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا پھر ان کے تشدد کے نشانے پر دوسری قومیں بھی شامل ہوتی رہیں جس سے نچلی ذات کے ہندو اور سکھ بھی نہ بچ سکے ان کی دھمکیوں، بڑھتی زیادتی ، تلخ رویوں نے ظلم میں پسی ہوئی مغلوب قوموں کے ہلکان جسم میں روح پھونک دی اورایسا لگا کہ مغلوب قومیں درست وقت کا انتظار کر رہی ہیں کیوں کہ غالب قوم کا تعلق اکثریتی طبقے اور ریاستی طاقت سے تھا ۔طاقت کے نشے میں چور مودی تعصبی نظریے کو پہلے چیلنج کا سامنا ادیبوں، شاعروں، دانش وروں ،صحافیوں ،فنکاروں کی جانب سے کرنا پڑا جنہوں نے عدم رواداری، تشدد ، اشتعال انگیزی کے گہرے سائے کو ختم کرنے کا ارادہ کر ڈالایہاں قابل ذکر اور غور طلب بات یہ تھی کہ ارا دہ کرنے والوں کے ذہن میں مغلوب اور غالب طبقے کی سوچ رتی برابر نہیں تھی اور یہ ہی وہ سوچ تھی جس نے ان کے ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دیا اور ارادے کی پایہ تکمیل تک اس کو تقویت ملتی رہی منزل پانے والے دیوانوں میں شامل خواہ شبانہ اعظمیٰ تھی یا جواہر لال نہرو کی بھانجی تھی،بی جے پی کی جانب سے کتے کا خطاب ملنے والے شترو گھن سہنا تھے خواہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستان چلے جانے کا مشورہ ملنے والے شاہ رخ خان تھے ،خواہ وہ مشہور شاعر و ادیب اشوک باجپائی یا جارج فرنانڈس تھے سب ہی کے خیالات ایک جیسے تھے سیکولر ازم کا دفاع اور اپنے سماج پر غالب طاقتوں کی جانب سے مَلی گئی منہ کی کالک کو دھونا،
میں چلا تھا اکیلا منزل کی جانب ، لو گ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اور پھر باطل قوتوں کی بنیادوں کو ہم نے لرزتے ہوئے دیکھا ، حق کی آواز اور اس کے علمبردارں کے سامنے مودی نظریہ ریت کی دیوار ثابت ہوا ،بہارکے عوام نے حق کی آواز کاساتھ دیا اور دنیا کو دکھا دیا کہ مغلوب طبقہ جس وقت کا انتظار کر رہا تھا وہ یہ ہی وقت ہے اگر اس وقت حق کا ساتھ نہ دیا تو غالب قوتیں طاقت بن کر اُبھریں گی اور مغلوب طبقے کی زندگی تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی جائے قبل اس کے کہ باطل قوتیں ان پر حاوی ہو جائیں تو بہار کے ووٹروں نے ثابت کر دیا ہندوستان میں رہنے والے ہرطبقے کو جینے کا حق حاصل ہے۔ اُتر پردیش کے سینئر وزیر "ا عظم خاں"نے کہا کہ بہار اسمبلی کے انتخابات نے ملک کے مستقبل کا تعین کر دیا ہے۔ اجتماعی کوششوں نے ،اجتماعی سوچوں نے،باطل قوتوں کی طاقت کو زمین بوس کر کے دنیا کو باطل قوتوں کے خلاف اجتماعی جدوجہد کا درس دیا مودی بھول گیا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ انسان جب بھی گھمنڈ میں مبتلا ہوا،اپنی طاقت کو منوانے کے زعم میں ہمیشہ تنزلی کی جانب گامزن ہوا۔
غالب اور مغلوب کی اس جنگ کو دیکھتے ہوئے بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے کیا سیکھا ؟ ویسے ہماری تاریخ ہے کہ ہم سیکھنا نہیں چاہتے اگر ہم سیکھنا چاہتے تو ارد گرد کے حالات اور ماضی سے سیکھ کر اپنے قدم دنیا کے مہذب قوموں کے ساتھ جما چکے ہوتے آج فرش کے بجائے عرش پر ہوتے ، مغربی معاشرے کی جدید ایجادات اور دریافتوں کو تو ہم اپنا لیتے ہیں لیکن ان کی ترقیوں کاراز جان کر بھی اس سے نظریں چُرا لیتے ہیں کیوں کہ آزمائشوں سے بھرے رستو ں کا انتخاب کرنا ہمارے لئے دشوار ہوتا ہے ۔ فہم و فراست ہی وہ ہُنر ہے جو دانشوروں کا زیور ہے اور یہاں دانشوروں ،ادیبوں،فنکاروں ،لکھاریوں ،مصوروں،صحافیوں کی کوئی وقعت نہیں ان کے قلم کو باطل قوتوں نے کند کردیا ہے ۔ جبکہ ہندوستان میں موجودہ حالات میں اسی پڑھے لکھے طبقے نے سماج میں پھیلی تعصب کی بو کو پھیلنے نہیں دیا ،فرقہ ورایت اور عدم رواداری کے فروغ کو پھلنے پھولنے نہیں دیا ۔ تعصب ،فرقہ واریت ،عدم برداشت اور انفرادی مفاد ہمارے معا شرے کی پہچان بن گیا ہے پا کستان میں بھی باطل قوتوں نے غالب طبقے کا سہارا لے کر مغلوب طبقے کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے زندگی روزبروز تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی جارہی ہے لیکن مغلوب طبقہ اور حقوق انسانی کے علمبردار خواب غفلت میں محو ہیں اور یہ ارد گرد کے حالات اور ماضی سے نہ سیکھنے کا نتیجہ ہے ۔ یہ کتنا خوش کن ہے کہ بی جے پی کی مودی سرکار کی متعصبانہ شعلہ بیانی اور تنگ نظر ،تشدد سے بھر پور حکومت کو ہندوستان کی مغلوب عوام نے ایک جھٹکے میں بد ترین شکست سے دو چار کر کے باطل قوتوں کو سبق سکھایا ان کی منفی سوچوں کو یکدم رد کر دیا ہمیں مودی سرکار کی شکست پر صرف بغلیں بجانے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہندوستان جو ہمارا سب سے بڑا اور قریبی پڑوسی ہے اس سے آتی ہوئی خوشبو کی مہک کو بھی محسوس کرنا چاہیے۔
شیخ محمد ہاشم۔ کراچی
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91480 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More