حسب توقع پنجاب و سندھ میں
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز
پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ کامیابیاں حاصل کرلیں۔لاہور میں پاکستان مسلم
لیگ ن کی کامیابی نے ان کا دعوی درست ثابت کردیاکہ لاہور مسلم لیگ ن کا
قلعہ ہے تحریک انصاف کوئی دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی جبکہ پاکستان
پیپلز پارٹی کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا ۔ پہلے مرحلے میں مجموعی طور
پاکستان مسلم لیگ نے 12اضلاع میں برتری قائم رکھی ۔دوسری جانب جہاں پنجاب
میں پاکستان پیپلز پارٹی روبہ زوال نظر آئی تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات
کے پہلے مرحلے کے دنگل میں اپنے مخالفین کا صفایا کرتی نظر آئی۔ چونکہ سندھ
میں فیوڈل ازم کی بنیادیں بہت گہری ہیں اس لئے یہاں عوام اظہار رائے کی
آزادی کا وہ تصور ناپید ہے جس حوالے سے ہم شہری آبادیوں سے توقع رکھتے
ہیں۔ابتدائی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔تحریک انصاف
اپنی عادت کے مطابق دھاندلی کا رونا روتی نظر آئی اور پنی شکست کے اسباب کو
جاننے کے باوجود اس سے کج روئی اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔پاکستان مسلم
لیگ ن کی تمام تر توجہ پنجاب میں رہنے کے سبب سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن
کی کامیابی گراف ابھی تک اٹھنے کے قابل نظر نہیں آتا۔سندھ میں کچھ اپ سیٹ
بہرحال نظر آئے کہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور آصف علی زرداری کی بہن فریال
تالپور کے حلقے سے پیپلز پارٹی کو بدترین شکست نصیب ہوئی حلقہ قمبر میں
ٹاؤن کونسل کی چار میں سے تین نشستوں پر مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوئی جبکہ
سکھر میں آزاد امیدوار نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے کزن
اور پی پی پی کے امیدوار نصر اﷲ بلوچ کو شکست دے کر سب کو حیران کردیا۔اسی
طرح سکھر میں پی پی پی کے جنرل سیکرٹری جاوید حسین شاہ بھی اپنی نشستیں ہار
گئے۔یہاں ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی نظر آئی کہ ایم کیو ایم کو اپنی کئی
روایتی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سیاسی پنڈت ایسے کراچی آپریشن کا
کاشاخانہ قرار دے رہے ہیں کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے جہاں متحدہ کی سیاسی
ساکھ کو نقصان پہنچا تو دوسری جانب متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے والے
ایسے عناصر بھی منظر سے غائب ہوئے جو اپنے مفاد کیلئے متحدہ کا جھنڈا
استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔سندھ میں قوم پرستی کی سیاست اس بار بھی ناکام
نظر آئی اور قوم پرست جماعتوں کو کامیابی نہیں مل سکی۔ایشوز کے بجائے
جذباتی سیاست کا انجام ہی یہی ہوتا ہے کہ عوام کے ایشوز کے بجائے اگر
لسانیت اور قوم پرستی کی بنیادوں پر سیاست کی جائے گی تو ایسے وقتی طور پر
تو فائدہ پہنچے گا لیکن پاکستان میں جس قسم کا نظام رائج ہے یہاں سے کسی
مثبت تبدیلی کی جلد توقع رکھنا ، مناسب نہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں
اپنے پارٹی منشور کے برخلاف چلنے کی بدولت دھڑے بازیاں اب ایک عام راوج بن
گیا ہے۔ پنجاب فیصل آباد میں وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی کے بڑے بھائی
عامر شیر علی کی ناکامی نے پاکستان مسلم لیگ ن میں دھڑے بازیوں کا انجام
دکھادیا جب دونوں نے گروپوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور رانا
ثنا ء اﷲ گروپ کے عاشق رحمانی کامیاب ہوئے۔پنجاب کے پہلے مرحلے میں دیکھا
جائے تو تحریک انصاف کو عمران خان کے گھر زمان پارک سے کوئی کامیابی نہیں
مل سکی تو منصورہ میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کے بیٹے
سلمان بلوچ کو بھی بدترین شکست ہوئی جو یقینی طور پر دونوں جماعتوں کے لئے
ایک لمحہ فکریہ ہے۔مجموعی طور پر بلدیاتی انتخابات کے اس مرحلے میں پاکستان
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے کارکنان جا بجا الجھتے نظر آئے تو ضیر پور
واقعے میں 12افراد کے قتل پر پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کیلئے
انتخابات پُر امن ماحول میں یقینی بنانے کیلئے چیلنجز مزید بڑھتے نظر آرہے
ہیں کہ انتخابات کے دوسرے اور سب سے زیادہ حساس تیسرے مرحلے میں کیا حکمت
عملی ہوگی۔تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ سندھ میں پی پی پی کو دوسرے مرحلے
میں مقابلے کا سامنا ہوگا ، کیونکہ دادو میں سابق وفاقی وزیر لیاقت جتوئی
تو ان کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کا خاندان سامنے
ہے۔سانگھڑ اور عمر کوٹ میں مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف ، تھرپارکر میں
ارباب غلان رحیم اور بدین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بلدیاتی انتخابات میں
اپنے پینل کھڑے کرکے مقابلہ سخت رہنے کا واضح پیغام دیا ہوا ہے۔ٹھٹہ اور
سجاول میں شیرازی خاندان پیپلز پارٹی کے امیدواران کا سامنا کر رہا ہے تو
صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں متحدہ مستحکم پوزیشن میں نظر آرہی ہے
اور سیاسی ایڈجسمنٹ کے بجائے متحدہ آزاد حیثیت سے مقابلہ کر رہی ہے۔پنجاب
حکومت دسرے مرحلے کے حوالے سے کچھ متفکر نظر آرہی ہے کیونکہ اس نے 19نومبر
کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات کیلئے پنجاب کے بارہ اضلاع میں فوج
اور رینجرز کی تعیناتی کا الیکشن کمیشن کو مراسلہ لکھ دیا۔سندھ حکومت کی
جانب سے دوسرے مرحلے کیلئے تاحال کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی لیکن
قیاس یہی ہے کہ کچھ اضلاع ، خاص طور پر حیدرآباد میں اضافی فورسز کی
تعیناتی ممکن لائی جاسکے۔تاہم عام انتخابات میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا
مرحلہ بہتر قرار دیا جارہا ہے۔
جماعت اسلامی نے پنجاب میں جو نئی انتخابی حکمت عملی اختیار کی تھی ایسے
ناکامی و تنقید کا سامنا کرناپڑا کہ بیک وقت پاکستان مسلم لیگ ن ، تحریک
انصاف ، مسلم لیگ ق آزاد امیدوارن حتی کہ پی پی پی کے نامزد امیدوارن کے
ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی جیسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جماعت اسلامی کے
کابرین نے بزعم خود الیکٹ ایبلز کے ساتھ جماعتی امیدواروں کو ایڈجسٹ کرکے
اپنے تئیں کامیابی کی راہ ہموارکرکے سستیُ اختیار اور اپنے جماعت کی کئی
عشروں پر محیط پالیسی ، اصولوں و ضوابط کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کے
بالکل برعکس راستہ اپنایا۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کو بدترین شکست کا
سامنا کرنا پڑا۔یقینی طور پر پہلے مرحلے کے نتائج دونوں جانب سے تمام سیاسی
جماعتوں کے لئے اثر انداز ہونگے اور جتنے والی جماعت اگر ریلکس نہیں ہوتی
تو وہ پہلے مرحلے کی کامیابی کو کیش کرانے کیلئے مزید راہ ہموار کرسکتی ہے
اور شکست خوردہ جماعتیں گو کہ اپنے سیاسی اتحاد کو تبدیل نہیں کرسکتی لیکن
عوام سے رابطوں کو فعال بناکر نتائج میں کچھ تبدیلی ضرور پیدا کرسکتی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے حوالے سے یہ توقع کی جاتی رہی ہے کہ شائد تحریک
انصاف کچھ ٹف ٹائم دے سکے گی لیکن روایتی سیاست کے نت نئے اندازوں سے
تبدیلی نہیں آیا کرتی۔عمران خان کی پالیسی خود ان کے نزدیک واضح نہیں ہے
۔ان کی جذباتی تقاریر اور الزامات کی سیاست سے عوام میں کچھ اچھا تاثر نہیں
چھوڑا ، جبکہ پنجاب کے پی کے اور سندھ میں بیک وقت دوہری پالیسیاں اختیار
کرنے کے اسباب نے بھی تحریک انصاف کو کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار تو کیا
نزدیک ترین بھی نہیں کیا شفقت محمود کا استعفی منظورکئے جانا بہرحال ایک
اچھی روایت قرار دیا جاسکتا ہے۔اگر تحریک انصاف ڈھائی سال کی سیاست میں
دھرنوں اور احتجاجی سیاست کے ساتھ ساتھ ایوانوں اور خیبر پختونخوا میں بھی
اپنا موثر کردار جاری رکھتی تو شہری علاقوں میں کسی تبدیلی کے آثار کو ضرور
محسوس کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا ان کے توقع کے برخلاف ہونا دراصل ان کی
اپنی پالیسیوں کی ناکامی ہے انھیں اپنے جیبوں سے کھوٹے سکے نکال دینے
چاہیں۔پیپلز پارٹی کی اندروانی چپقلش اور خانہ جنگیوں نے انھیں پنجاب میں
شرم ناک شکست سے دوچار کیا تو دوسرے مرحلے میں سخت مقابلے کیلئے سندھ میں
بھی پریشانی کا سبب پیدا کیا ہوا ہے۔پہلا مرحلہ تو فیوڈل ازم کی سیاست کی
بنا پر پی پی پی کے ہاتھ رہا ، لیکن دوسرے مرحلے میں ان کے مقابلے
جاگیردارنہ طبقوں کی موثر نمائندگی ہونے کے سبب مشکلات ضرور پیدا
ہونگی۔بلاول زرداری نے کراچی کے حلقے سے اپنے امیدواروں کے کھڑا کرنے کا
دعوی کیا تھا جو جاری کردہ حتمی فہرست کے بعد ناکام نظر آتا ہے کہ پی پی پی
نے ہر حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا
اانعقادپاکستان کے مڈل کلاس طبقے کیلئے ایک اہم سنگ میل اختیار رکھتا ہے اس
سلسلے کو بار بار روک دینا مناسب نہیں ہے اگر یہ ابتدائی نرسرسیاں چلتی
رہیں تو مڈل کلاس طبقوں کے مسائل کے حل کے ساتھ قومی جماعتوں کو مقامی
قیادت کے اہم کارکنان بھی میسر آتے رہیں گے جس کی اس وقت پاکستان کو اہم
ضرورت ہے۔گوکہ جمہوری نظام طرز حکومت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں
جاتا لیکن اس عبوری نظام میں اگر ہم وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی لاتے رہیں اور
عوام کو شراکت اقتدار کا موقع فراہم کرتے رہیں اور اس پر سچائی کے ساتھ
کاربند رہیں تو ناممکن نہیں کہ اداروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی ترقی کی راہ
کی مضبوطی پر گامزن ہوسکتی ہے۔ملک کو درپیش مسائل اور مشرقی ، مغربی سرحدوں
پر مزاحمت کاروں ، شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی
ایجنڈوں اور ملک دشمن قوتوں کے ساتھ پنجہ آرائی میں کامیابی عوام کے تعاون
کے بغیر ممکن نہیں اس لئے ضروری ہے کہ عوام بھی اپنا ووٹ درست انداز میں
خاندانی و مورثی سیاست دانوں کے مقابل مناسب شخصیت کو منتخب کریں جو ان کے
درمیان رہتا ہو اور ان کی طرح مقامی ہو۔ |