بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے ۔ جب
انسان بہت خوش ہو تو اسے کوئی وعدہ نہیں کرنا چاہئے۔ جب غصے میں ہو تو جواب
نہیں دینا چاہئے اور جب اداس ہو توکوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ انسان اس
نصیحت سے روگردانی کی قیمت زندگی کے ہر شعبے میں چکاتا ہے لیکن چونکہ
اخبارات سیاسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں اس لئے اس کی مثالیں بہ آسانی سیاسی
دنیا سے مل جاتی ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران جب سیاسی رہنما اپنی کامیابی
کی خوش گمانی میں مبتلاہو جاتےہیں تو خوشی کےمارے بے تکان وعدے کرنے لگتے
ہے ۔ اس بات کا خیال تک نہیں آتا کہ انہیں پورا بھی کرنا ہے اور وہ کیسے
ہوگا؟ حالانکہ مندرجہ بالا نصیحت کے مطابق وعدے وعید کیلئےوہ نامناسب وقت
ہے۔ جب سیاستدانوں کواپنی ہار کے آثار نظر آتے ہیں تو وہ غصے سے مغلوب
ہواپنے مخالفین تو درکنار رائے دہندگان اور کارکنان تک پر برس پڑتے ہیں
حالانکہ وہ چپ رہنے کا موقع ہوتا ہے ۔ انتخابی نتائج کے بعد ناکام ہونے
والوں کی حالت قبل دید ہوتی ہے ۔ چہرے مرجھا جاتے ہیں ۔کیمرے کے سامنےسے
لوگوں کو دھکا دے کر ہٹانے والے اپنامنہ چھپاتے پھرتے ہیں لیکن اسی حالت
میں وہ اہم فیصلے کرنے کیلئے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ فیصلے کی نہیں
سنبھلنے کی گھڑی ہوتی ہے۔
جمہوریت کا جنازہ بھی چونکہ اس کی بارات میں شریک ہونے والے عوام کے کندھوں
پر نکلتا ہے اس لئے شکست و فتح کےان قافلۂ سخت جاں میں عام لوگ بھی بصد
شوق یا بحالتِ مجبوری شامل ہوجاتے ہیں۔ خوشی دراصل کامیابی کا فطری نتیجہ
ہے اس لئے جس طرح پچھلے سال فسطائی عناصر خوشی سے جھوم رہے تھےاسی طرح اس
سال مسلمان جشن منارہے ہیں ۔ناکامی پر پہلی نظر توغصہ دلاتی ہے مگر بہت جلد
وہ مایوسی میں بدل جاتی ہے۔ مسلمانوں نے گزشتہ سال اول تو اپنے انتشارکا
ٹھیکرہ مذہبی و سیاسی رہنماوں پر پھوڑااور ان کی جی بھر کے ملامت کی
حالانکہ انہیں غصے کے عالم میں اپنی زبان پر لگام لگانی چاہئے تھی ۔ اس کے
بعد جب دیکھارہنماخود بھی ملول ہیں تو مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور شکست
خوردگی کے عالم میں حکمت عملی وضع کرنے لگے حالانکہ مایوسی کے عالم میں
منفی لائحہ عمل کی تشکیل کا قوی امکان ہوتا ہے۔ اب ہندو فسطائیوں کی وہی
کیفیت ہے۔ ارون شوری سے لے کرچندن متراتک کھلے عام تنقید کررہے ہںد۔ حکم
دیوسنگھ یادوسمیت ۶ ارکان پارلیما ن اور مارگ درشک کمیٹیمرکزی قیادت پر برس
رہی ہے جبکہ فی الحال صبرو ضبط مطلوب ہے۔ بھاگوت کو اداس دیکھ کر امیت شاہ
کا غصہ ہرن ہوگیااور مایوس ہوکر انہوں نے کہہ دیا گرودیو آپ کاکوئی قصور
نہیں ۔ کامیابی و ناکامی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتی ہے ۔ گوتم بدھ کی
دھرتی پر مایوسی کے گہرے سمندر سے شاہ جی کو یہ نروان کا قیمتی موتی ہاتھ
لگا ہے۔
بہار کی ہنگامہ خیز انتخابی مہم کےخاتمہ پر دھماکہ خیز نتائج کا موازنہ اگر
گزشتہ سال کے قومی انتخاب سے کیا جائے تو ان میں بے شمار مماثلت نظر آتی
ہے۔ مثلاً دونوں مرتبہ جہاں ہنگامہ غیر معمولی تھا وہیں نتائج بھی غیر
متوقع تھے یہی وجہ ہے کہ غیر عقلی اورغیر معروضی ردعمل دوہرایا جارہا ہے ۔
فرق صرف یہ ہے کہ کردار بدل گئے ہیں ۔ سماج کا جو طبقہ کل خوشی سے پھولا
نہیں سمارہا ہے وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے اورجواداس تھا
وہ بغلیں بجا رہاہے۔ سوشیل میڈیا میں ایک سال پرانے کارٹون پھر سےلوٹ
آئےہیں۔ اسی شراون کمار والی تصویر میں جہاں راہل ، سونیا اور منموہن کے
سر لگائے گئے تھے ان پر مودی، شاہ اور سشیل کا چہرہ چسپاں کردیا گیاہے۔کچھ
لوگوں نے دہلی انتخابات کے بعد والی ڈبلیو ڈبلیو ایف کی تصویر میں کیجریوال
کو لالو سے بدل دیا ہے۔ گویا آئینہ تو نہیں بدلا مگر چہرے بدل گئے ہیں۔
ان سطحی تبدیلیوں
پر جشن منانے کا جوش جیسے جیسے کم ہورہا ہےنتائج کے دوررس اثرات پر غورو
خوض کا آغاز ہوگیاہے ۔ اس مرحلے میں بھی جو باتیں سامنے آرہی ہیں اس کا
بڑا حصہ جذباتیت کا شکار ہے مثلاً رام جیٹھ ملانی کا بیان کہ وزیراعظم کو
خودکشی کرلینی چاہئے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ بیان اس قابل ہے کہ اسے کم
از کماردو اخبارات میں شاہ سرخی بناکرقارئین کو خوش کردیا جائے۔ یہ احمقانہ
اعلان جیٹھ ملانی صاحب کے پوری طرح سٹھیا جانے کا بین ثبوت ہے۔ان کیلئے بھی
منور رانا کی طرح (تاحیات)آمرن مون برت رکھ لینا بہتر ہے۔ رام جیٹھ ملانی
ہندوستانی سیاست کا وہ ناکام مہرہ ہے جس نے ایمرجنسی کے بعد وزیر قانون ایچ
آر گوکھلے کو شکست دے کر ایوان پارلیمان میں قدم رکھا۔ جیٹھ ملانی کو یقین
تھا قانونی مہارت و ذہانت کے سبب انہیں وزیرقانون بننے سے کوئی نہیں روک
سکتا لیکن بدقسمتی سے راج نرائن کی پیروی کرکے اندراگاندھی کا انتخاب
کالعدم کرانے والے شانتی بھوش بھی انتخاب جیت چکے تھے اس لئےانہوں نے بازی
مارلی ۔
دوسری مرتبہ اڈوانی جی کی سفارش پر اٹل جی نے انہیں وزیر قانون بنایا مگر
سالیسیٹر جنرل کے ساتھ تنازع کے سبب انہیں ہٹانا پڑا ۔ جب پہلی بار نریندر
مودی کا نام وزیراعظم کے طور پر سامنے آیا تو جیٹھ ملانی نے اپنے محسن
اڈوانی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کرمودی پر جوا کھیلا ۔ ابتداء سے مودی جی کی
حمایت میں پیش پیش رہےلیکن مودی جی نے وزیراعظم بننے کے بعد انہیں نظر
انداز کردیا ۔ ایک سال تک وہ مایوس نہیں ہوئے لیکن جب حکومت نے عدالت عالیہ
میں کالے دھن کی بابت معذوری پیش کی تو جیٹھ ملانی نے کھلا خط لکھ کر کہہ
دیا کہ اب ان کے دل سے وزیراعظم کا احترام پوری طرح ختم ہو چکا ہے ۔انہوں
نے بہار میں جاکر بی جے پی کی مخالفت کا اعلان کیا لیکن یہ صرف ذرائع ابلاغ
کی حدتک مؤثر تھا ۔ جس ریاست کی عوام اپنے باہری ہونے کے سبب وزیراعظم کی
بات پر کان نہیں دھرتے کہ وہ بھلا سندھ کے رہنے والے جیٹھ ملانی کی کیا
سنتے جبکہ وہ وزیراعظم بھی نہیں ہے۔
اس انتخاب میں بہار کے سیاسی افق پر دو نئے ستارے چمکے ایک جتن رام مانجھی
اور دوسرا اسدالدین اویسی۔ نتیش کمار نے جب مانجھی کو وزیر بنایا توپہلی
مرتبہ ان کا نام سننے میں آیا ۔ نتیش اس زمانے میں او بی سی کے اندر سے ای
بی سی کو الگ کرکے اپنا ہمنوا بنانے کی فکر میں تھے اور مانجھی ان کا
نمائندہ تھا لیکن بہت جلد مانجھی رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے ۔ چارہ گھوٹالے
کے خلاف انتخاب جیتنے والے نتیش کیلئے ان کا بچاؤ ناممکن ہوگیا ۔ اس لئے
وہ وزارت سے محروم کردئیے گئے لیکن ۶ ماہ کے اندر انہیں الزام سے بری کروا
کر دوبارہ وزیر بنا دیا گیا۔ پارلیمانی انتخاب میں زبردست ناکامی کے بعدجب
نتیش نےاستعفیٰ کا پانسہ پھینکا تو مانجھی کو اپنی ڈوبتی کشتی کا پتوار
تھمادی لیکن مانجھی نے بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کردیں اور جب
انہیں ہٹانا ناگزیر ہوگیا تو وہ با وت پر اتر آئے اور مخالف خیمے میں داخل
ہوگئے۔ ۲۰ نشستوں میں سے دوپر خود مقابلہ کیا اوراس میں سے بھی ایک میں
شکست فاش سے دوچار ہوئے۔اس طرح نتائج کے دن ان کی وزیراعلیٰ بننے کی تیار
ہی بیکار ہوگئی ۔اس لئے کہ ان کی جماعت کے باقی سارے امیدوار ہار گئے تھے۔
بہار کی سیاست میں اسدالدین اویسی کے بجائے ان کے مانجھی اختر الایمانزیادہ
توجہ کے مستحقہیں ۔ اختروہ سیاسی گھوڑا ہے جو تیزی سے دوڑتاتو ہے مگر اسی
سرعت کے ساتھ اپنے سوار بھی بدلتا ہے۔ وہ دومرتبہ آر جے ڈی کے ٹکٹ پر
کامیاب ہو کر ایوان اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں مگر گزشتہ پارلیمانی انتخاب
میں پالا بدل کر نتیش ساتھ آگئے اور مولانا اسرارلحق قاسمی کے خلاف ٹکٹ
بھی پاگئے ۔ عین وقت پر نتیش سے غداری کرکے وہ کانگریس کے حق میں بیٹھ گئے
۔ اخترالایمان کی ملت میں خوب پذیرائی ہوئی ۔ انہیں یقین تھا کہ آئندہ
صوبائی انتخاب میں کانگریس کا ٹکٹ پکا ّ ہے لیکن اس بار کانگریس نے آر جے
ڈی اور جے ڈی یو سے الحاق کرلیا اور اپنے حلیفوں کی خوشنودی کیلئے اس نے
اختر الایمان کو دروازہ دکھا دیا۔
اویسی صاحب نے ایسےمیں اخترالایمان کو اپنی صوبائی یونٹ کا سربراہ بنا دیا۔
اخترالایمان کو اس بار بھی ۳۶ ہزار ووٹ ملے ، بی جے پی امیدوار کو ۴۶ ہزار
اور کانگریسی امیدوار ۵۶ ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوگیا ۔ اگر
اخترالایمان کو ۱۰ ہزار مزید ووٹ ملتے تو تینوں امیدوار برابر ہوجاتے ایسے
میں ممکن ہے پہلی ہی مرتبہ میں بہارکے اندر ایم آئی ایم کا پرچم لہرا
جاتا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں اس ابن الوقت کی کامیابی سے مسلمانوں کون
سا بڑا فائدہ ہوجاتا؟ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ بی جے پی کی امیدوار معمولی سے
فرق سے جیت جاتی ۔ ایم آئی ایم کے باقی ۵امیدواروں کو کل ۲۵ ہزار ووٹ ملے
اور ضمانت ضبط ہوگئی۔ ان نتائج نے بی جے پی کو یہ پیغام دیا ہے ہندو رائے
دہندگان کو احمق بنانا جس قدر آسان ہے مسلمانوں کو نہیں ہے ۔ویسے سیاست کے
کھیل میں اویسی اور مانجھی کی حیثیت بارہویں اور تیرہویں کھلاڑیکی سی ہے جو
ٹیم میں شامل تو ہوتے ہیں لیکن صرف چائے کے وقفہ میں انہیں میدان کے اندر
آنے کا موقع ملتا ہے۔ کسی کھلاڑی کے زخمی ہونے پر وہ فیلڈنگ بھی کرسکتے
ہیں لیکن بولنگ یا بیٹنگ نہیں کرسکتے ۔
ہمارے سیاسی نظام میں کھلاڑیوں سے بڑا مسئلہ کھیل کے اصول و ضوابط کا ہے۔
یہاں پر رائے دہندگان کی نمائندگی ان کی حمایت کے مجموعی تناسب کی بنیاد پر
نہیں بلکہ ہرحلقہ انتخاب میں اکثریت پر ہوتی ہے یعنی پہلے نمبر آنے والے
کو کامیاب قرار دیا جاتا۔ اس طرح ہر حلقہ میں ۵۱ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی
جماعت کو۱۰۰ فیصد کامیابی اور ۴۹ فیصد لوگوں کی حمایت والی جماعت صفر ہو کر
رہ جاتی ہے۔ دو سے زیادہ جماعتیں انتخاب لڑ رہی ہوں تو ۵۱ کی شرط بھی ختم
ہوجاتی ہے۔ اس بار بہار میں بی جے پی محاذ کے رائے دہندگان کا تناسب ۶ء۳۵
فیصد ہے مگرارکان صرف ۶۰ جبکہ اسے ۹۰ہونا چاہئے تھا لیکن اگر یہ اصول مرکز
میں لاگو کیا جائے تو اس کے نمائندگان کی تعداد نصف ہو جائیگی۔ اس لئے کوئی
بھی برسرِ اقتدار گروہ اپنے مفاد کی خاطریہ اصلاح نہیں کرتا ۔ ۲۰۱۰کے
اسمبلی انتخاب میں کانگریس اور آر جے ڈی الگ تھے اور جے ڈی یو بی جے پی کے
ساتھ تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس ۴ اور آر جے ڈی ۲۲ تک محدود ہو گئی ۔
بی جے پی اور جے ڈی یو نے ۹۱ اور ۱۰۵ نشستیں جیتیں ۔ جبکہ ان جماعتوں کے
ووٹ تناسب وہی تھا ۔
پارلیمانی انتخاب میں کانگریس اور آر جے ڈی ساتھ ہوئے مگر جے ڈی یو الگ
تھی تب بھی بات نہیں بنی اور بی جے پی نے میدان مار لیا ۔گزشتہ سال آر جے
ڈی اور کانگریس اتحاد کو۴ء۲۶ فیصد ووٹ ملے تھے اور بی جے پی اتحاد کو ۸ء۳۸
فیصد اگر اس سال جے ڈی یو ان کے ساتھ نہیں آتی اور ووٹوں کا تناسب وہی
رہتا تو کانگریس آر جے ڈی اتحاد کو کل ۴۶ نشستیں ملتیں اور ۱۷۲ پر بی جے
پی اتحاد کامیاب ہوجاتا ۔ لیکن اس باراتحاد میں جے ڈی یو کی شمولیت سےبازی
پلٹ گئی ۔ عظیم اتحاد کا ۲ فیصد اور بی جے پی کاوووٹ ۳ فیصد کم ہوا لیکن
نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی اتحاد کو ۶۰ پر ڈھکیل کر عظیم اتحاد۱۷۸ پر پہنچ
گیا۔ آرجے ڈی کے ۲۲ سے ۸۱ اور کانگریس ۴ کے ۲۷ ارکان اسمبلی ہوگئے جن میں
سے ۱۹ نے بی جے پی کو شکست دی ۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اب بھی بی جے پی کے ساتھ رائے دہندگان کی ایک بڑی
تعداد موجودہے اور یہی دباو عظیم اتحاد کے فریقوں کو متحد رکھے ہوئےہے۔
کانگریس نے اس سے قبل جنتا پریوار کی حکومت سازی میں باہر سےحمایت تو کی
تھی مگر وہ کبھی اس میں شامل نہیں ہوئی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کانگریس ایک
جونئیر پارٹنر کے طور پر جنتا پریوار میں شامل ہوئی ہے۔ پارلیمانی انتخاب
کے بعد کانگریس کی حالت کوما میں مبتلا مریض کی سی ہو گئی تھی۔ ایسا مریض
یا تو مر کھپ جاتا ہے یا اس کی حالت میں بہتری آتی ہے ۔ بی جے پی والے
کانگریس کے انتم سنسکار کی تیاری کررہے تھے مگر اب اسکی سانس درست ہونے لگی
ہےپھر بھی طویل سنبھلنے میں طویل عرصہ درکار ہے ۔ پہلے تو یہ لازم ہے کہ
تیسرا محاذ بی جے پی کو شکست دے کر اقتدار میں آئے پھر داخلی اختلاف کے
سبب بکھر جائے۔ اس وقت اگر بی جے پی کی طاقت کانگریس سے کم ہوگی تبھی اسے
حکومت سازی کا موقع ملے گا ۔تب تک ممکن ہے راہل گاندھی کی عمر نریندر مودی
کے برابر ہوجائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں منموہن کی عمر تک انتظار
کرنا پڑے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
بہار کے بعد کئی ریاستوں میں صوبائی انتخابات ہیں لیکن بنگال، تمل ناڈو
اورکیرالہ میں بی جے پی کوئی بڑا کمال نہیں دکھا سکتی ۔ پنجاب میں بہار
جیسی ناکامی اس کا مقدر بن سکتی ہے لیکن چونکہ وہ شکست کانگریس کے ہاتھوں
ہوگی اس لئے اس کے اثرات قومی سیاست پر پڑیں گے۔بی جے پی کیلئےسب سے بڑا
امتحان اتر پردیش میں ہے۔ اگر یوپی میں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی
اور کانگریس ایک ساتھ ہوجاتے ہیں تو بی جے پی کیلئے اترپردیش میں بھی بہار
جیسی مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ بہت سارے لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ بہار سے
عبرت حاصل کر کےمودی جی اور امیت شاہ اپنا طور طریقہ بدلیں گےلیکن امکان کم
ہے اس لئے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس حقیقت کے اعتراف بی جے پی
کے بڑے رہنما پٹاخے چھوڑ رہے ہیں۔
پہلی پھلجڑی تو خیر باہر والے مانجھی نے چھوڑی اس کے بعد پاکستان کے بجائے
بی جے پی بہار کے اندر پٹاخے چھوٹنے لگے ۔حکم دیو نرائن، بھولا سنگھ ،شکونی
چوبے ،آر کے سنگھ اور شتروگھن سنہا نے خوب دل کھول کے دیوالی منائی ۔ ان
ارکان پارلیمان میں بی جے پی کے حامی چاروں طبقات( ٹھاکر ، بھومہار، براہمن
اور لالہ )کی نمائندگی ہے۔ جو تھوڑے بہت یادو بھول بھٹک کرلالو کے بغض
معاویہ میں بی جے پی کے ساتھ آگئے تھے ان کا ترجمان بھی موجود ہے ۔ ان سب
نے شاہ کی آڑ میں مودی جی پر بھی نشانہ سادھا ہے بلکہ بھولا نے تو اسے
پارٹی کی خودکشی قرار دیا ہے۔ بہار کی پٹاخے بازی ابھی تھمی بھی نہیں تھی
کہ دہلی میں بڑا دھماکہ ہوگیا ۔ بی جے پی مارگ درشک کمیٹی کےاڈوانی اور
جوشی نے دیگر دو بڑے رہنما یشونت سنہا اور شانتا کمار کی دستخط سے ایک بیان
عین دیوالی کی صبح جاری کرکے شاہ صاحب کا دیوالیہ پیٹ دیا۔ اس میں اجتماعی
ذمہ داری کی دلیل کو اپنا تحفظ گردانہ گیا اور ایسے غیر جانبدار لوگوں کی
مدد سے شکست کی وجوہات کا پتہ لگانے کا مطالبہ کیا گیا جو مہم میں شامل
نہیں تھے ۔ اس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ پارٹی کے اندر باہمی صلاح و
مشورہ کا مزاج ختم ہو چکا ہے اور پارٹی اس وقت جن کے ہاتھوں کا کھلونا بنی
ہوئی ہے انہوں نے دہلی کی شکست سے کوئی سبق نہیں لیا۔
پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہلی سے سبق نہ لینے والے بہار سے عبرت پکڑ
کر اتر پردیش میں اپنا رویہ بدلیں گے ۔ اس معاملے میںمودی اور شاہ کیلئے
صبر کرنے کی راہ میں سنگین مشکلات ہیں ۔ اتر پردیش میں اگر شاہ صاحب آگے
نہیں آتے تو پارٹی کی کمان مودی جی کے اولین حریف راجناتھ سنگھ اور سب سے
بڑے ناقد مرلی منوہر جوشی کے ہاتھ میں چلی جائیگی جسے یہ دونوں کسی صورت
برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات بھی ہیں مثلاًاتر پردیش ہی کے
بل بوتے پر امیت شاہ کو پارٹی کا صدر بنایا گیا ہے اور وہ اپنے آپ کو وہاں
کا چانکیہ سمجھتے ہیں۔ مودی جی کا حلقۂ انتخاب اتر پردیش میں واقع ہے ایسے
میں اتر پردیش میں وہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا ئے بنا نہیں رہ سکتے۔
تاریخ گواہ ہے کہ وزیراعظم جہاں بھی زور لگاتے ہیں پارٹی کا دم نکل جاتا
ہے۔ ہریانہ تو انہوں نے ہنستے کھیلتے جیت لیا۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں
مرتے پڑتے گریس مارکس سے کامیاب ہوئے۔ جموں کشمیر میں اے ٹی کے ٹی ہوگیا ۔
اور دہلی و بہار میں بری طرح فیل ہو گئے ۔ دہلی کے کیجریوال سےمودی اس لئے
ناراض تھے کہ انہوں نے وارانسی میں جاکر ان سے دوبدو جنگ کی تھی اور بہار
کے نتیش کمار نے ان کی سب سے پہلے مخالفت کی تھی ۔ مودی جی ان دونوں کے
مقابلے تو چاروں شانے چت ہوگئےاب دیکھنا یہ ہے کہ ملائم اور مایا کے آگے
کیا ہوتا ہے؟ ایک بات طے ہے کہ ۲۰۱۷ کے اندر یوپی میں جوہوگا بہت ممکن ہے
۲۰۱۹ میں وہی کہانی قومی سطح پر دوہرائی جائے۔ بہار کے نتائج تو اس بات کے
شاہد ہیں کہ اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی اور ناکامی کا سارا دارومدار
ان کے مخالفین کے اتحاد یا انتشار پر منحصر ہے۔ اس لئے اس کی حکمت عملی یہ
ہوگی کہ کسی صورت ہاتھی اور سائیکل کا ساتھ نہ ہو ۔ اب بی جے پی کی اس کوشش
میں ملائم اور مایا کس حد تک معاون و مددگار ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے
گا۔بقول شاعر؎
ایک ہو جائیں توبن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
|