احتساب کا خوف

آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر گلے پھاڑکر چیخنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اورغور کر نا چاہیئے کہ اس بیان کی نوبت کیوں آئی ‘حیران کن بات یہ ہے کہ اس پریس ریلیز پر تنقید کر نے والے اس کی روح سے تو اتفاق کرتے ہیں لیکن انکے بقول آئی ایس پی آر کو یہ بیان جاری کر نے کا حق حاصل نہیں مگر کیوں ․․․؟کیاملکی دفاع کا مطلب صرف یہ ہے کہ بیرونی دشمنوں سے لڑا جائے اور ان عناصر کو آزاد چھوڑ دیا جائے جودیمک کی طرح اس ملک کو چاٹ رہے ہیں۔ ایک مدت سے یہ اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے جمہوریت کی علمبردار دو بڑی جماعتیں ہمیشہ سے اس حقیقت کو تسلیم کرتی آئی ہیں کہ وطن عزیز میں کرپشن کی گئی دونوں جماعتوں کو اقتداربھی ملا لیکن کوئی ایک جماعت بھی کرپشن کر نے والوں پر ہاتھ نہ ڈال سکی دونو ں جماعتوں نے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا اور ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی ن لیگ پیپلز پارٹی کے بچاؤ کیلئے سر گرداں ہے ۔ان دو جماعتوں نے اس نظام کو اس قدر غریب کش بنا دیا کہ عام آدمی کیلئے آگے بڑھنے کاکوئی راستہ ہی باقی نہ بچا‘اور اگر کوئی اس نظام کے بنانے والوں کو للکارے تو اسے جمہوریت دشمن قرار دیا جاتا ہے یا غدار جب کہ دوسری طرف حوسِ اقتدار ان کے خون میں اسطرح رس چکی ہے کہ یہ کرسی کی خاطر سب کچھ قربان کر نے پر تیار ہیں ایک واضح مثال حال ہی میں ہونیوالے این اے 122 کے ضمنی الیکشن ہیں ‘پولنگ سے ایک روز قبل وزیراعظم صاحب نے حلقے کا دورہ کیا یہ دورہ انتخابی قوانین کو سرعام للکارنے کے مترادف تھا لیکن اس نظام میں اتنی سکت بھی نہ رہی کہ وزیراعظم صاحب کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک نوٹس ہی جاری کر سکے پھر الیکشن میں کامیابی کیلئے جس طرح قومی اداروں کو استعمال کیا گیا اگر کسی حقیقی جمہوری ملک میں ایسا کیا جاتا تو شاید پوری حکومت برطرف ہو چکی ہوتی ‘مبینہ طور پر21ہزار ووٹوں کی دوسرے حلقوں سے این اے 122میں منتقلی‘کوئی یہ غور نہیں کر رہا کہ ان 21ہزار لوگوں کو کیا پڑی کہ وہ دوسرے حلقوں سے اس حلقے میں ووٹ منتقل کرائیں اور یہ سب نادرا کی ملی بھگت سے کیا گیا وہ ادارہ جس کے پاس 18کروڑ لوگوں کا ریکارڈ ہے کو ن کیا ہے اور کہاں رہتا ہے اگر ایسا ادارہ بھی درباری سازشوں کا حصہ بن جائے تو اس ملک کا مستقبل کیا ہوگیا اس کا اندازہ قارئین بہتر طور پر لگا سکتے ہیں ‘ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی لودھراں میں کسان پیکیج کا اعلان اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی رشوت ہے لیکن ماسوائے تحریک انصاف کے کسی کو تو فیق نہیں کہ قومی خزانے سے انتخابی مہم چلانے والوں کے خلاف آواز بلند کرے‘عمران خان اگراس منافقانہ طرز سیاست اور دھاندلی کیخلاف آواز بلند کرتا ہے تو نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ کچھ ایسے دانشور بھی اسکے خلاف زہر اگلتے ہیں جن کے مفادات کی جڑیں اس نظام میں پیوست ہیں ‘عمران خان کے طرزسیاست سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جب اسکے مخالفین کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو ایک لمحہ کیلئے یوں لگتا ہے کہ ان کی مخا لفت حق بجانب ہے کیونکہ بادشاہت اور مفاد پرستی کی سیاست کا خاتمہ عمران خان کی منزل ہے اور عمران مخالف ٹولے کیلئے یہ زہر قاتل ہے ‘مخالفینِ عمران میں سب سے پہلا نام جس جماعت کا آتا ہے وہ ہے مسلم لیگ ن جس کی قیادت نے اس ملک میں تھانہ اور پٹواری کلچر کو فروغ دیا اور پولیس میں سیاسی مقاصد کی بنیاد رکھی اس کی قیادت نے ہمیشہ بادشاہی طرز ِ حکمرانی کو ترجیح دی ‘آجکل یہ خبریں زبان زد عام ہیں کہ قیادت میں جانشینی کی جنگ چل رہی ہے وزیر اعظم صاحب اپنی صاحبزادی کو جانشین بنانا چاہتے ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنے صاحبزادے کو۔اسکے بعد باری آتی ہے پیپلز پارٹی کی جس کی قیادت آج تک بھٹو کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے سندھ میں وڈیروں کے مظالم کو تحفظ دینے میں پیش پیش رہنے والی جماعت نے بیڈ گوررننس کا جو ریکارڈ قائم کیا شاہد ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ اب یہ جماعت اپنی بقاء کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ‘صوبہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان کے مخالفین میں سب سے آگے جناب فضل الرحمان صاحب ہیں جنہوں نے آج تک بانی پاکستان کوقائد اعظم کے طور پر تسلیم نہیں کیا پھر انہوں اسلام کے نام پر سیاست کر کے جسطرح پاکستان کے امیج کو خراب کیا یہ ایک الگ قصہ ہے باقی رہی اے این پی یعنی اسفند یار ولی گروپ تو وہ باچا خان کے پیروکار ہیں اس باچا خان کے جس کی عمر قائد اعظم کے مخالفت میں گزری اور اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت ان کی وصیت تھی کہ ’’مجھے قائد اعظم کے پاکستان میں دفن مت کرنا‘‘اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون ہے جو عمران خان کی مخالفت نہ کرے ان کی مخا لفت حق بجانب ہے بشر طیکہ کہ یہ واضح طور پر کہہ دیں کہ عمران خان جمہوریت نہیں ہمارے مفادات کے خلاف ہے اس ساری تہمید کا مقصد یہ ہے کہ وہ حکمران جن کے ذاتی مقاصد ہوں ان سے گڈ گورننس کی امید رکھنا خواب خر گوش کے سوا کچھ نہیں ‘معیشت آج بھی وہاں ہی ہے جہاں اڑھائی برس قبل تھی قرضے بڑھ گئے ویسے تو سیکنڈلز کی بھر مار ہے لیکن نندی پور برو جیکٹ میں قومی خزانہ کو جو ٹیکا لگایا گیا اور پاکستان پوسٹ میں 20کروڑ کے گھپلے کاجو سکینڈل سامنے آیا ہے یہ ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونا چاہیئے ‘فوج کی طرف سے جاری ضرب عضب کیساتھ ساتھ کرپشن کیخلاف شروع آپریشن بھی اختتام تک پہنچنا چاہئے سندھ سے کئی گناہ بڑے مگر مچھ پنجاب میں بیٹھے ہیں احتساب کا خوف جن کی نیندیں حرام کئے ہیں لیکن ہمیں اب یہ جان لینا چاہیئے کہ بے رحم احتساب ہی پاکستان کے بہترمستقبل کی ضمانت ہے ۔
Zulqarnain Bashir
About the Author: Zulqarnain Bashir Read More Articles by Zulqarnain Bashir: 16 Articles with 10609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.