سازش یا مخلصانہ مشورہ
(Saeed Ullah Saeed, Sawabi)
مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف
ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے تو ہمارے سیاسی قائدین نے سکون کا سانس لیا کہ
اب وہ کسی غاصب کے ہتھے نہیں چڑھیں گے۔ وہ اس لیے کہ اس وقت کے چیف آف ارمی
سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے عادات و اطوار سے کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ
وہ ملکی سیاست میں کسی بھی قسم کی دل چسپی لے رہے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی
کہ جنرل موصوف نے دوران سروس یہ ثابت کردکھایا کہ اسے اس میدان میں کودنے
کا کوئی شوق نہیں۔جنرل کیانی کے سبکدوش ہونے کے بعد جب موجودہ آرمی چیف نے
عہدہ سنبھالا تو حسب روایت معاشرے کے مختلف طبقات نے اس پر تبصرے کیں۔ ان
تجزیوں اور تبصروں میں جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ زیادہ تر لوگ پر امید تھے
کہ جنرل راحیل شریف وطن عزیز کو مشکل حالات سے نکالنے کا سبب بنیں گے۔
اب جنرل صاحب سے لوگوں نے جو امیدیں وابستہ کرلی تھی وہ کس قدر بار آور
ثابت ہوئی ۔ تو اس کا اندازہ ہم اندرون ملک امن و امان کی صورت حال دیکھ کر
لگا سکتے ہیں۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں کہ جب وطن عزیز میں قتل و غارت گری
عروج پر تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حالات ماضی قریب میں
بہتر ہوسکیں گے۔ لیکن موجودہ عسکری قیادت نے جس انداز سے بلاتفریق ملک کے
کونے کونے کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم کیا بٖفضلہ تعٰالیٰ وہ اس میں
کامیاب بھی رہے۔ یہ اسی عزم مصمم کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف اہل خیبر سکون کا
سانس لے رہے ہیں تو دوسری طرف وطن عزیز کا معاشی شہ رگ پھر سے روشنیوں اور
خوشیوں کی جانب لوٹ رہا ہے اور بلوچ بھی اب قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف بھی اپنے پیشرو کی
طرح سیاسی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا قائل نہیں اور یہ بات اس نے پاکستان
تحریک انصاف کے طویل دھرنے کے دورا ن اپنے عمل سے ثابت کردکھایا۔ کیونکہ اس
وقت کئی حلقوں کا یہ خیال تھا کہ جس تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی جانب
خان صاحب اشارہ کررہے ہے وہ راحیل شریف ہی ہوسکتے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان
تمام حقائق کے باوجود بعض سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین جنرل کے اس بیان
کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس میں انہوں اشارہ دیاتھا کہ حکمران اپنا
طرز حکمرانی بہتر بنانے کی کوشش کریں۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملک میں اس وقت
جس بیڈ گورننس کا دور دورا ہے اس سے ہر شخص پریشان اور مایوس دکھائی دے رہا
ہے۔ ایسے میں راحیل شریف کے اس بیان کو اہل وطن اپنے دل کی آواز سمجھ کر
بڑے پیمانے پر اس کی تائیدکررہے ہیں۔ عام آدمی کے علاوہ جمیعت علماء اسلام
کے امیر جناب مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس بیان
کی تائید کی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں مولانا صاحب
ہر وقت حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہے، ان کی جانب سے اس بیان کی تائید
ظاہر کرتاہے کہ ان کے اتحادی یعنی نواز حکومت کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ داریوں
سے غافل ضرور ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ذمہ داران سیخ پا
ہونے کے بجائے ان کمزوریوں پر توجہ دیں ، جس کی جانب آرمی چیف نے توجہ
دلائی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عوامی حمایت،حکومتی مرضی اور
سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت ملک میں امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی
صورتحال بہت جلد دیر پا امن میں تبدیل ہوجائیگی۔ لیکن اگر حکومت نے اس
پیغام پر کان نہ دھرے اور محمودخان اچکزئی جیسے خوشامدیوں کو ہمدرد اور
غمگسار تصور کرتے رہے تو مجھے ڈر ہے کہ جس اندھیرے سے نکلنے کی ہم تگ و دو
کررہے ، کہیں اس اندھیرے میں ہم مکمل طور پر غرقاب نہ ہوجائے۔ کیونکہ یہ سچ
ہے کہ جو حکومت خوشامدیوں میں گر جائے اور مصلحتوں کا شکار ہوجائے انکے لیے
طرزحکمرانی کو بہتر کرنا دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔ |
|