بلدیاتی انتخابات ․․․․ دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے

بلدیاتی نظام ایک مہذب اورترقی یافتہ معاشرے میں قومی و علاقائی ترقی کی جانب ایک اہم سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے اسی نظام کی بدولت علاقائی سطح پر منتخب نمائندے پہلے سے طے شدہ قوانین اور حکمت عملی کی بنیاد پر تعمیری وترقی کاموں کے ذریعے آگے چل کر عوامی مسائل کو احسن طریقے سے حل کر دیتے ہیں -

پاکستان میں سابق تین جرنیلوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے جنہوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی نظام متعارف کراکر نچلی سطح پر عوامی قیادت کو ابھرنے کے علاوہ علاقائی ترقیاتی کاموں کو پروان چڑھنے دیاجمہوری حکومتوں میں بلدیاتی نظام کی مخالفت کی بڑی وجہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی بلدیاتی نمائندوں کے معاملے پر جنگ مشاہدے میں آئی ہے

مرکزی الیکشن سے پہلے عمران خان نے مختلف جلسوں میں نوے دن کے اندر بلدیاتی الیکشن کے دعوے کیے تھے لیکن دعووں کے باوجود سال 2015میں پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے 30مئی کو بلدیاتی انتخابات منعقد کر کے ایک اچھی مثال جہاں قائم کی وہاں انتخابات کے انعقاد سے قبل منتخب نمائندوں کے اختیارات ومراعات کے حوالے سے صوبائی حکومت نے دعووں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس قسم کے ہیجان امیز بیانات نے سیاست سے نا بلد لوگوں کو بھی گرما دیا اور بڑی تعداد میں امیدواروں نے سامنے آکر خیبر پختونخوا کے سیاستدانوں میں جوش و خروش کی بے مثال فضا قائم کی مد مقابل امیدواروں اور انکے حامیوں نے گروپوں میں بٹ کر اختلاف کو جنم دیا قتل و غارت کے کئی واقعات پیش آئے -

جب انتخابات ختم ہوئے تو ایک ماہ سے زائد عرصہ کے تک حلف برادری کی تقریبات منعقد نہیں ہوئی اور جب حلف برادری کے پروگرام کو شیڈول جاری کیا گیا تو خفیہ رائے شماری کے روایتی طریقہ کار کو دوبارہ اپنانے کے احکامات جاری ہوتے نظر آئے ضلع اور تحصیل ناظمین ،نائب ناظمین کے انتخابی عمل کو ڈیرہ اسماعیل خان سمیت صوبے کے بعض مقامات میں ووٹوں کی خریداری سے سبوتاژکر کے سیاسی وفاداری کی تبدیلی کو تقویت ملی ضلع ناظم سے تقرریوں ،تبادلوں اور ضلعی حکام کے اختیارات واپس کیے گئے یوں اس نظام کو مکمل طور پر مفلوج بنا دیا گیا اور آج کونسلر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں
صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن حکومت نے بلدیاتی نظام کو اتنا مفلوج کر دیا کہ کونسلر سمیت چیئرمین دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہے اور چھ ماہ سے زائد عرصہ میں بھی ان کو دفاتر کیلئے جگہ تک فراہم نہیں کئی گئی -

ناظمین و کونسلر سمیت چیئرمینوں نے صوبائی حکومت کے دعووں میں آکر امیر بننے کے کئی سہانے خواب دیکھے -

عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ مجھے بہت کم نظر آئے ایسے عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ جو اپنے آپ کو عوام کا حقیقی نمائندہ منوائیں ،کون حقیقی نمائندہ ْ؟؟؟ جو ایوان بالا میں اپنی عوام کے مسائل کو اٹھائیں اور اس کی نظر عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر ہوں اور وہ ان کو حل کرنے میں سنجیدگی رکھتے ہوں لیکن جیسی عوام ہے ویسے ہی حکمران ہے -

کونسلر صاحبان صوبائی حکومت کے مفلوج شدہ بلدیاتی نظام سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک کونسلر صاحب کی پوسٹ دیکھنے کو ملی پوسٹ دیکھ کر مجھے حیرانگی بھی ہوئی اور کونسلر صاحبان پر افسوس بھی ،انھی کے الفاظ آپ کی آنکھوں کے نذرانے کرتا ہوں -

(خیبر پختونخوا کی سٹے باز حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے ،ممگر منتخب ناظمین کونسلر اب تک بہ اختیارات ہے عوام کام مانگتی ہے مگر ان کو کیا پتہ دھرنے خان کا شو فلاپ ہو چکا ہے انکی صوبائی حکومت بھی فلاپ اور پی ٹی آئی کے سرداروں وڈیروں نی بلدیاتی نظام کو ناکام بنا دیا ہے پاکستان کے دیگر صوبوں میں رہنے والوں خیال کرنا پاگل خان کے پاس کوئی عوامی ترقیاتی پروگرام نہیں اس کو صرف رونا آتا ہے اس دھوکے باز کوکین خان سے بچ کے رہنا کے پی کے کی عوام کی طرح پچتھاؤ گے)-

ہم نے لمبی آہ لی اور سوچنے لگ گئے کہ کونسلر اتنے تنگ آگئے ہے کیا پی ٹی آئی سے ؟؟؟

ان کا کہنا بھی ٹھیک اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن کونسلروں کو ساتھ واقعی زیادتی ہو رہی ہے چھ ماہ سے زائد کے عرصہ کے بعد بھی بلدیاتی نمائندے بے اختیار ہے کوئی فنڈنگ وغیرہ جاری نہیں ہوئی فی الحال ان کی ویلیو صفر کے برابر ہے عوام اپنے ووٹ کے بدلے کام مانگتی ہے اور یہاں سب کھو کھاتے ہے سرداروں اور وڈیروں کی آپس کی دشمنیوں نے بلدیاتی نظام کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا ہے میں نے ان کی ساری باتوں کی تا ئید کی اور آخری بات کے دو رخ نکلے کہ کونسلر صاحب نے دوسرے صوبوں کی عوام کو محتاط رہنے کا کہا اور یہ نہیں بتایا کہ عوام بلدیاتی انتخاباخیال رکھے یا کوکین خان کاــ․․․․

بہرحال دیگر صوبوں کے مقابلے میں کے پی کے ،کے کو نسلروں کے ساتھ زیادتیاں کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہے کہ کونسلر صاحبان نے گزشتہ دنوں چارسدہ کے ٹی ایم اے ہا ل میں ایک کنونشن منعقد کیا جس میں ضلعی ،تحصیل،ویلج اور نیبر ہڈ کونسلوں سے تعلق رکھنے والے کونسلروں نے سیکنڑوں کی تعداد میں شرکت کی اس موقع پر مختلف کونسلروں نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے بلدیاتی نظام کے خامیوں پر سخت تنقید کی انہوں نے اختیارات کا تعین کرنے ،کونسلروں کو اعزازیہ دینا اور دفاتر کیلئے جگہ فراہم کرنا کے مطالبات پیش کیے اور احتجاجی جلوس و دھرنے کی بھی دھمکی دی ،

یہ ایک بین حقیقت ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی کونسلروں کو دفاتر نہیں ملے اور نہ ہی کرائے کی جگہ کے حصول کے لئے ٹیرف جاری کیے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اختیارات تو درکنار نچلی سطح کی کونسلوں کے منتخب نمائندوں کی توجہ مسائل سے ہٹ کر سر چھپانے کیلئے جگہ کے حصول پہ مرکوز ہے حکومت کو چاہیے کہ اہم معاملات پر توجہ دے کے بلدیاتی نظام کی افادیت کو عملی جامہ پہنائے ۔ (زندگی باقی ملاقات باقی )
 
Muhammad Muaaz
About the Author: Muhammad Muaaz Read More Articles by Muhammad Muaaz: 19 Articles with 15402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.