سیاسی الٹ پھیر کے ماہر

سیاسی الٹ پھیر کے ماہر اورمعاملہ فہم سیاستدان مولانا فضل الرحمان پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ اس حیثیت میں وہ کشمیریوں کے ترجمان بھی ہیں ۔ ان میں صلاحیت ہے کہ وہ کسی محفل میں جاری بحث کا رخ اپنی مرضی کی سمت موڑ سکتے ہیں ، کوئی اینکر یا رپورٹر مولانا سے مرضی کی بات یا تبصرہ اگلوا نہیں سکتا۔ اسلام آباد میں ایک کانفرنس کے دوران آزاد کشمیر کے سیاستدان یک زبان ہو کر بولے مولانا صاحب گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے روکیں ،یہ خطرناک عمل ہے ۔ مولانا فضل الرحمان اس معاملے کو ایک بے کار بحث سمجھتے ہیں چنانچے مولانا بولے ، مسلہ کشمیر کے سلسلے میں کشمیری قیادت کی تجاویز پر غور کے لیے کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلارہے ہیں ۔ صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب اور وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید ان دنوں روائتی بیان بازی میں یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں حالانہ اس معاملے کی ابھی شروعات ہوئی ہیں اور نہ کسی نے انہیں شراکت دار تسلیم کیا ہے ۔وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے گلگت بلتستان میں اصلاحات کے لیے کمیٹی کا اعلان اپریل2015 کو ہوا تھا۔ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن اکتوبر میں ہوا اور کمیٹی کا پہلا اجلاس نومبر کے پہلے ہفتے اسلام آباد میں ہوا۔ مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز، وزیراعلی گلگت بلتستان حفیظ الرحمن،سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد،سیکرٹری وزارت امور کشمیر و جی بی عابد سعید اور دوسرے حکام نے شرکت کی ۔ معائدہ کراچی کے تحت اگرچہ گلگت بلتستان کے معاملے میں آزاد کشمیر بھی سٹیک ہولدر ہے تاہم آزاد کشمیر کے وزیر ا عظم یا دوسری کسی اہم شخصیت کو کمیٹی کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔ ادھر گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر فدا محمد ناشاد نے سرتاج عزیز کو جی بی اسمبلی کی قرارداد کی کاپی بھیج دی ہے جس میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے ۔ یہ قرارداد اگست 2015 کومنظور کی گئی ۔گلگت بلتستان کے معاملے میں آزاد کشمیر کی طرف سے روائتی بیان بازی کے بجائے حق شراکت داری کے حصول کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے پانچویں صوبے کے شہری کہلوانے کے لیے بے تاب ہیں ۔ سرتاج عزیز کی قیادت میں گلگت بلتستان آہنی اصلاحات کمیٹی کے قیام سے گلگت بلتستان کے سنجیدہ طبقے کو یہ امید ہو چلی ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ جمہوری اصولوں کے عین مطابق اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دیا جائے گا،گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر فدا محمد ناشاد نے کمیٹی کے نام یاداشت میں گلگت بلتستان اسمبلی کی طرف سے جی بی کو صوبہ بنانے کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوے اس خطے کو پاکستان کا پانچوں صوبہ بنانے کی تجویز دی ہے۔فدا محمد ناشاد کا خیال ہے کہ اس نظریہ کو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ان کے جمہوری حقوق کو بھر پور پذیرائی ملے گی۔ ان کی توقع بے جا بھی نہیں۔گلگت بلتستان سے متعلق مختلف فورمز پر پیش کی گئی تجاویز ہمارے سامنے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے تجویز دی تھی کہ ریفرندم کے زریعے گلگت بلتستان کے عوام کی رائے معلوم کی جائے کہ وہ صوبے کے حق میں ہیں یا کوئی اور رائے رکھتے ہیں ۔گلگت بلتستان کے عوام کی رائے معلوم کرنا بری بات نہیں جب ہم اپنے لیے جمہوری حق مانگتے ہیں تو گلگت بلتستان کے عوام کو یہ حق دینے سے کیسے محروم کر سکتے ہیں ۔ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 جی بی کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ احساسِ محرومی نظم و نسق کے قیام اور تیز تر ترقی کے حصول میں شدید رکاوٹ بنتا ہے ۔ چند دن قبل جی بی ہاوس اسلام آباد میں وزیراعلی گلگت بلتستان حفیظ الرحمن، کے ساتھ تفصیلی نشست ہوئی ۔ خطے کی پسمانگی کا ذکر کرتے ہوے کہنے لگے پورے جی بی میں ایک بھی ایم آر آئی مشین نہیں ہے ، اب حکومت پنجاب نے ایک مشین عطیہ کی ہے ۔ حیرت کی بات ہے اتنے بڑے علاقے میں ٹریفک پولیس کے پاس غلط پارک کی گئی گاڑیاں اٹھانے کے لیے ایک بھی لفٹر نہیں ہے ۔ حفیظ الرحمن نے اس طرح کی بے شمار مثالیں دیں اور یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں رکاوٹیں ہیں ۔۔ ارباب اقتدار نے ماضی میںگلگت بلتستان کے حوالے سے کسی سنجیدہ کردار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سابقہ حکومتوں نے گلگت بلتستان کو صرف سٹریٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اخلاص اور ایثار کے جذبے سے سرشار عوام کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ انہیں مستقبل کے خواب سے محروم رکھا گیا جب بھی عوام کی طرف سے حقوق کا مطالبہ سامنے آیا ، قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے لوگ بے چین ہوئے انہیں فرقہ وارنہ آگ میں جھونک کر ان کی خواہشات کا گلہ گھونٹا گیا ۔ ا س پالیسی سے خطے میں مسائل جنم لے چکے ہیں۔اب بھی اندیشہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہونے کے موقع پر کہیں روایتی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے جو تجاویز سامنے آ رہی ہیں وہ اس طرح ہیں ۔1۔گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بنے، سینٹ اورقومی اسمبلی میں نمائندگی ہو۔2-گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پہلے کی طرح ایک انتظامی یونٹ بنا دیا جائے ۔3-موجودہ صورت برقرار رہے تاہم مذید اختیارات اور وفاقی اداروں میں نمائندگی دی جائے ۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچوان صوبہ بنانے کا سلسلہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا، پانچوان صوبہ بنانے کی تجویز کے مخالفیں کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے، گلگت بلتستان آئینی لحاظ سے پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا اگر اس خطے کو صوبہ بنایا گیا تو کشمیر بارے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ یاد رہے اگست 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے نام سے سیاسی اصلاحات متعارف کرا ئی تھیں۔گلگت بلتستان کو صوبائی طرز کا نظام دیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت گذشتہ پانچ سالوں سے گلگت بلتستان کا نظام چلایا جاتا رہاہے۔ اس نظام کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ ایک انتظامی حکم نامہ ہے۔ پاکستان کے ائین کے ارٹیکل 257 کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ علاقے ہیں چنانچے اگر جی بی کو صوبہ بنایا جانا ہے تو ائین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم منظور کرانی ہوگی ۔ ۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے گلگت بلتستان سے شروع ہوتے ہیں تاہم وہاں کی حکومت ان منصوبوں میں شراکت دار نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت نجاب،سندھ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کو بعض منصوبوں میں شراکت دار بنا دیا گیا ہے۔ میری زاتی رائے یہ ہے کہ مسلہ کشمیر کے نام پر کسی خطے کو نصف وصف صدی تک حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا ۔ جی بی کے عوام کے لیے آزادکشمیر کی طرز پر مکمل اختیارات اور حقوق وقت کی ضرورت ہے۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50585 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More