پاکستانی یہودی لڑکیوں کی کارستانی

 تاریخ کے صفحات فلسطینی عوام کی مذاحمت کی ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے عبارت ہیں ، یونیورسٹی میں پڑھنے، پڑھانے والے علمی فکری اور بلوغت کے حوالے سے کم سن تو نہیں ہوتے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کو نہتے فلسطینیوں کے خون سے بار بار نہلانے والا اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے ، پاکستان کی ریاست اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے ، دنیا بھر کے مسلمان اس سے نفرت کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طالبات ، اساتذہ اور انتظامیہ کو اگر نہیں معلوم تو جان جائیے حکومت پاکستان نے مجھ سمیت اپنے لاکھوں شہریوں کو جو پاسپورٹ جاری کیے ہیں وہ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے سفر کے لیے کار آمد ہیں۔ پاکستان کے پاسپورٹ پر میں اسرائیل کا سفر کرنے کا ا ہل نہیں اس لیے کہ حکومت پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ برطانیہ ، امریکہ اور روس کی سازش کے نتیجے میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے ناجائز یہودی ریاست قائم کی گئی تھی۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں مشرق وسطی کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا تھا ستمبر 1918میں برطانیہ نے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ 55 ہزار یہودیوں کو دے دیا تھا۔فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کے لیے برطانیہ نے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ کئی ممالک سے یہودیوں نے فلسطین کا رخ کیا۔روس نے بھی 13 لاکھ یہودی بھیجے تھے ۔ 1947 کو دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر پاکستان قائم ہوا ۔ایک سال بعد1948 کو دنیا کی پہلی یہودی نظریاتی ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہوئی ۔ پاکستان نے یہودی نظریاتی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ یہ ریاست فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کے زریعے قائم کی گئی تھی۔پاکستان آج تک اس موقف پر قائم ہے تاہم جنرل ایوب خان نے پاکستان کے یہودیوں کو اسرائیل ضرور بھیجا تھا اردوبولنے والے یہودی آج بھی اسرائیل میں موجود ہیں ۔1918 کے 55 ہزار یہودی اب 61 لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں جبکہ 20 لاکھ افراد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کے خلاف جدوجہد جاری ہے اس جدوجہد میں ہزاروں فلسطینی مارے جاچکے ہیں ۔ نہتے فلسطینیوں سے اظہار تک جہتی کے لیے پاکستان اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہ رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہے ۔ تاہم 25 اکتوبر2014 کو اسلام آباد میں بین لاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیل کے ثقافتی سٹال نے پاکستان کے دیرینہ موقف کی نفی کردی تھی۔ اگرچہ اس اقدام میں حکومت کی ایماشامل نہیں تھی مگر، بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کے زرائع ابلاغ نے اس اقدام کو سرا ہا تھا جبکہ اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیا گیا تھا ۔یونیورسٹی کے طلبہ اور اسلامی تنظیموں کے شدید اعتراضات کے بعد یونیورسٹی کے عہدہ داروں نے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دے کر اس مسئلے کی جانچ پڑتال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کمیٹی بنانے کا فیصلہ دراصل معاملے کو دبانے کا اعلان ہی ہوتا ہے اور اسلامی یونیورسٹی میں بھی یہی ہوا تھا۔۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کی سربراہی سعودی عرب کے ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کے پاس ہے اور یہ نمائش بھی یونیورسٹی کی مسجد ملک فیصل میں لگائی گئی تھی۔اس نمائش میں یہودیوں کی نمایاں علامتیں، اعلی عہدہ داروں کی تصاویر اور صہیونیت کا پرچم نمائش کے طور پر لگایا گیا تھا جبکہ نمائش کے لیے مختص ہال میں سٹال پربینر کے نیچے یہ جملہ لکھا ہوا تھا: امن و سلامتی کی سرزمین پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سرائیل کا ثقافتی سٹال لگانا ناممکن ہے ۔ اس اقدام سے پاکستان کے بنیادی تشخص، کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں اور عوام کی اسلام سے دلی وابستگی پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ سعوی عرب کے موحوم شاہ فیصل سے منسوب فیصل مسجد کیمپس میں مینجمنٹ سائنسز کی طالبات کو معصوم اور انتظامیہ کو بے گناہ قرار دیا جاتا رہا ۔ جنرلوں اور بیوروکریٹس کی بیٹیاں یہودی خواتین کا لباس پہن کر جب اسرائیل کی نمائندگی کریں گی دیگر طالبات کو اسرائیل کے متعلق معلومات تو مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والوں کے جذبات تو مجروع ہوں گے ۔ سٹال پر اسرائیل کے کھانے، مصنوعات، لباس اور رہن سہن کی دیگر اشیا رکھی گئیں جبکہ سٹال پر بینر بھی لگائے گئے، جن پر صاف طور پر اسرائیل لکھا ہوا تھا اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی تصویریں بھی موجود تھیں۔ بینر پر اسرائیلی پرچم بھی تھا، بینر پر اسرائیل کو امن اور ترقی کی سرزمین لکھا گیا اور تین طالبات سٹال پر موجود تھیں، جو دیگر طالبات کو اسرائیل کے متعلق معلومات دیتی رہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے لیگل ایڈوائزر ڈاکٹر عزیز الرحمان کا کہنا تھا کہ فکلیٹی آف مینجمنٹ سائسنسز شعبہ خواتین کے تحت فیصل مسجد کے عین نیچے واقع ہال میں ماڈل یو این ڈیبیٹ کانٹسٹ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں اقوام متحدہ کے نمائندہ ممالک کے سٹال لگائے گئے تھے۔ طالبات نے بغیر اجازت اسرائیل کا سٹال بھی لگایا اور اس پر اسرائیلی ثقافتی اور مصنوعات کو سجایا گیا تھا۔ جیسے ہی انتظامیہ کو اس کا علم ہوا اسے بند کروا دیا گیا۔ ڈاکٹر عزیز الرحمن نے کمال معصومیت سے اس واقعہ کی ذمہ داری طالبات پر ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ 25 اکتوبر 2014 کو اسلام آباد میں اسرائیلی ثقافتی نمائش کے زریعے ناجائز یہودی ریاست سے یک جہتی کا اظہار کیا گیا جبکہ 13 اکتوبر2014 کو: برطا نیہ نے ریاست فلسطین کی حقیقت کا اعتراف کیا برطانوی پارلیمنٹ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے سے متعلق علامتی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی جبکہ قرارداد کے حق میں 274 اور مخالفت میں صرف 12 ووٹ ڈالے گئے۔ برطانیہ کا یہ اقدام اس لیے اہم ہے کہ یہودی ریاست کے قیام میں برطانیہ کا کلیدی ہاتھ تھاواضح رہے کہ دنیا بھر میں 100 کے قریب ملک پہلے ہی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔فلسطین کے صدر جناب محمود عباس نے 30 ستمبر2015 کو اقوام متحدہ کی ا یسی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا جس میں 193 خود مختیار ریاستوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کا پرچم بھی لہرا رہا تھا۔جنرل اسمبلی کے 119ارکان نے اس سے قبل قوام متحدہ ہیڈ کواٹر میں فلسطینی پرچم لہرانے کی حمایت کرکے حق خود ارادیت سے محروم فلسطینیوں کی جائز جدوجہد کا اعتراف کر لیا تھا۔کشمیر اور فلسطین قوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود دو دیرینہ تنازعات ہیں ۔فلسطین اور کشمیر دو ایسے علاقے ہیں جہاں کے عوام دو طاقتور استعماری ریاستوں سے نبرد ازما ہیں ۔دونوں قوموں نے اپنے حق خودارادیت کے لیے نصف صدی سے متحرک جدو جہد شروع کر رکھی ہے۔ اس جدو جہد کی پاداش میں انہیں ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طاقتور ریاستیں اسرائیل اور بھار ت فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے ، انہیں طاقت کے زور پر دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔کشمیر ی اور فلسطینی عوام اپنے مقصد کے حصول کیلئے متحرک جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں۔ ان کے معمولات زندگی کا لازمی عنصر روزانہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا بھارت اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگانا ہے ، مذاحمت کی ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی جدوجہد جاری ہے۔ اس جدوجہد کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی قوم آگے بڑھتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھی پہنچ گئی۔۔فلسطینیوں کے لیے یہ خوش آئند اقدام ہے جس سے ان کو الگ ریاست بنانے کی کوششوں کو نئی زندگی مل جائے گی۔ مگر اس نئی زندگی کو پاکستان کی طرف سے ایک زخم بھی لگ چکا ہے ۔ یہ زخم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی ثقافتی نمائش سے لگا تھا۔ یہ پاکستانی یہودی لڑکیوں کی کارستانی تھی جو تاریخ کے ماتھے پر نشان چھوڑ گئی ہے۔

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55889 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More