بھاجپا : دیوالی پر دیوالہ
(Syed Mansoor Agha, India)
مودی کا جادو اتنی جلدی عوام کے
سر سے اترجائیگا، اس کا اندازہ شاید بھاجپا کے کچھ سینئر لیڈروں کو پہلے ہی
ہوگیا تھا، مگر مجبوراً خاموش رہے۔ خصوصاً سر ی لال کرشن آڈوانی جنہوں نے
مودی کی گجرات فساد کے بعد بڑی پیروی کی تھی اور ان کے بڑی سرپرست بنتے تھے۔
لیکن مودی نے پارٹی کے اس قدر سینئرلیڈر کو بھی ٹھنڈے بستے میں لگاکر
طوطاچشمی کا ثبوت دیا تھا۔ ابن انشاء نے کی مختصر سا مضمون لکھا تھاــ:’’
سکندراپنے باپ کے مرنے کے بعد تخت پر بیٹھا۔ وہ اگر باپ کی زندگی میں ہی
تخت نشین ہوجاتا کو باپ اس کا کیا بگاڑلیتا۔‘‘ ہندتواوادی تاریخ داں
اورنگزیب عالم گیر کا ذکر جب کرتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہیں وہ بہت بے رحم
تھا۔ اس نے اپنے باپ کو اقتدار سے بے دخل کرکے خود قابض ہوگیا تھا۔ سکندر
اوراورنگزیب کا دور تو شاہی تھا۔ اس میں تو یونہی چلتا تھا۔ لیکن جب مودی
کی گڈی آسمان پر چڑھی توانہوں نے سب سے پہلے پارٹی کے زندہ بچے واحد بانی
لیڈر اور پارٹی کا خاک سے عرش پر پہنچانے والے اپنے سیاسی کوچ آڈوانی، مرلی
منوہر جوشی ، جسونت سنگھ، یشونت سنہا اور سدھیندرکلکرنی سمیت نہ جانے پارٹی
کے چوٹی کے کتنے لوگوں کو ان کے ڈرائنگ روم تک محدود کردیا۔ مگربہار میں
شکست فاش ہوتے ہی ان سب لیڈروں کا سیاسی منظرنامے پر پنرجنم ہوگیا۔ چنانچہ
اس شکست پر آڈدانی، جوشی، یشونت سنہا اور شانتاکمار نے جو مشترکہ بیان جاری
کیا ہے اس نے مودی اوران کے ہم نواؤں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ یہ مشترکہ
بیان دراصل پارٹی میں مودی کے خلاف عرصہ سے جاری غم وغصہ کا اظہار ہے۔ اور
اس سے مودی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ان کے لئے پارٹی پر کنٹرول
برقراررکھنا دشوار ہوجائیگا۔ اسی کو کہتے ہیں ـ’ اس گھر کو آگ لگ گئی ، گھر
کے چراغ سے۔‘ اور یہ آگ عین دیوالی کے دن لگی۔ لیکن یہ توصرف ابتدا ہے۔ آگے
آگے دیکھیو ہوتا ہے کیا؟
بہار میں منھ کی کھانے کے بعد شکست تسلیم کرلینا مودی اوران کے حواریوں کی
مجبوری ہے۔ ہرلیڈر نے بڑی فراخدلی سے یہ تو کہا، ہم عوام کے فیصلے کو قبول
کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا کہ عوام نے اس فیصلے سے جو پیغام دیا ہے اس
کوبھی تسلیم کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امت شاہ پارٹی صدر سے
استعفادیتے اورمودی بھی استعفے کی پیش کش کرتے۔ مگر اتنی اخلاقی جرأت
کہاں؟اخلاقی جرأت اورسیاسی دانائی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ اس شکست فاش کے
لئے اپنی روش کی کجی کو تسلیم کرتے، اپنے نکمے پن کا اعتراف کرتے ، اصلاح
کا وعدہ کرتے ،اپنے دریدہ دہن لیڈروں کو سخت پیغام دیتے۔ غلطیوں کو تسلیم
نہ کرنا، غلط کاروں کی نشانزد نہ کرنا، اخلاقی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے
، حالانکہ پارٹی بلنداخلاقی کا دعوا کرتی ہے۔
پے درپے تجزیوں اورتبصروں میں لعنت ملامت کے باوجود مودی، امت شاہ اور
جیٹلی کی تکڑی اوراب ان کے ساتھ ونکیاہ نائیڈو کی بھی زبان سے یہ نہیں نکلا
کہ ہندستانی عوام کے مزاج کو سمجھنے میں ہم سے چوک ہوئی۔ہمارے لیڈروں نے ان
کی جو توہین کی ہے ہم اس کا ازالہ کریں گے۔ بڑی بات یہ ہوتی کہ مودی
خوداپنا منہ کھولتے، امت شاہ بولتے اور عوام سے معافی مانگتے۔
مسٹرمودی نے بہار کے رائے دہندگان کاووٹ ’پیکج‘ کا جھانسا دیکر خریدنا چاہا۔
عوام اس جھانسے میں نہیں آئے۔عوامی زندگی میں قائد کا کردار اس کے قول سے
نہیں عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگرمودی کو یہ خیال تھا کہ عوام کا حافظہ اس
قدر کمزور ہے کہ وہ ان سب جھانسوں کو بھول گئے ہونگے جو سوا سال پہلے دئے
گئے تھے، تو یہ ان کی بھول ہے۔پونے چارسال کا وقت اب بھی ہے، اس کو
سدھارلیں۔ہوا میں اڑنا بندکریں، زمین پر رہیں اورنرم خوئی اختیار کریں۔
مودی شکست کے عادی نہیں۔ اس لئے ان کو یہ شکست بڑی ہی شاق گزری ہوگی۔ دہلی
میں تو خیر صورتحال مختلف تھی۔ بہار میں سب چہرے جانے پہچانے تھے۔ رائے
دہندگان نے ان چہروں کو مسترد کردیا جن پر قول کو فعل میں نہ بدلنے کے داغ
دھبے صاف نظرآتے تھے۔ لیکن اس سے کسی کو یہ خوش گمانی نہیں ہونی چاہئے کہ
سنگھی شاطراس شکست کے بعد پسپا ہوجائیں گے۔ یوپی کا الیکشن اس سے زیادہ
حساس ہوگا۔ عوام خبردار رہیں کہ چناؤ کے قریب پھر مظفرنگر اوردادری کے
تجربوں کو دوہرایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے بجا کہا ۔ کنول کیچڑ میں
ہی کھلتا ہے۔ بہار میں پارٹی اتنی کیچڑ پیدا نہیں کرسکی جتنی مظفرنگر سے
پیدا ہوگئی تھی۔ اس لئے کنول مرجھا گیا۔
انتخابی نتائج پر پارٹی کے پارلیمانی بورڈ میں غور وخوض کے بعد ارن جیٹلی
نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ عظیم اتحاد کی طاقت نے
بھاجپا کے تخمینوں کو شکست دیدی۔ انہوں نے ایک پتہ کی بات یہ کہی کہ عظیم
اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ووٹ ایک دوسرے کو منتقل ہوگئے، جبکہ این ڈی اے
میں ایسا نہیں ہوا۔اہم سوال یہ ہے کہ این ڈی اے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟
دراصل بھاجپا نے یہ غلط سمجھ لیا تھا کہ مانجھی رام اورپاسوان کا بھی کوئی
اپنا ووٹ بنک ہے۔ ووٹ بنک صرف ذات کی بنیاد پر نہیں بنتا ۔ کام اورکردار سے
بنتا ہے۔ بھاجپا قائدین کو یہ شدید غلط فہمی تھی کہ بہار کے عوام اخلاقی
طور پر اس قدرپست ہوگئے ہیں کہ کسی موقع پرست، احسان ناشناس اوربدکلام کو
اپنا قائدتسلیم کرلیں گے۔ مانجھی رام کو اپنی کمر پرڈھونا بھاجپا کو مہنگا
پڑا۔ ان کا بہار کی خواتین کے بارے میں جوشرمناک تبصرہ کیا تھاکہ نوے فیصد
غیرمردوں سے معاشقہ کرتی ہیں، اس کی بھاجپا کی نظر میں چاہے کوئی چبھن نہ
ہو، عوام کی نظر میں تو ہے۔
پارلیمانی بورڈنے پارٹی کے غیرمحتاط لیڈروں کی بدکلامیوں کی بھی نظرکردیا۔
مسٹرجیٹلی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ لیڈروں کے ایک دوبیان سے الیکشن میں
ہار جیت نہیں ہوتی۔ بات صحیح ہے۔ لیکن اگر غیرمحتاط باتیں تسلسل کے ساتھ
ہوتی رہیں تو وہ ہوا میں تحلیل نہیں ہوجاتیں۔ ان سے پارٹی کا مزاج ظاہر
ہوتا ہے۔ بھاجپا پرتنقید کرنے والے ہر شخص کو پاکستان بھیج دینے کی دھمکی ،
بھاجپا کی شکست پر پاکستان میں جشن کا نعرہ لگانا اور آج مجھے کل اسے کتے
کا پلا کہنا آخرکیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ اب کیونکہ پارٹی نے اس طرح کی
گالیوں کو غیراہم قراردیدیا ہے ، تو بدزبانوں کا حوصلہ اوربڑھ رہا ہے۔
چنانچہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کیلاش وجے ورگیہ نے شترگھن سنہا کو ہی کتا
کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا جس طرح گاڑی کے نیچے چلتا ہوا کتا یہ سمجھتا ہے کہ
گاڑی وہی چلا رہا ہے، اسی طرح سنہا کا یہ خیال غلط ہے کہ بہار میں پارٹی کو
نقصان ان کو نظرانداز کرنے سے پہنچا ۔ یہ وہی وجے ورگیہ ہیں ،شاہ رخ پر جن
کے ریمارک سے وبال کھڑا ہوا تھا۔
بہر حال اس انتخابی نتیجہ پرہمارے بہت سے صحافی دوستوں کے تبصرے اورجائزے
آرہے ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری رہیگا۔بہت سے گوشے سامنے آئیں گے۔ لیکن اہم
بات یہ ہے کہ سنگھ پریوارایک چناؤ ہارا ہے ، حوصلہ نہیں ہارا ہے۔ مودی کے
لئے یقینا یہ وقتی صدمہ ہے۔ لیکن نہ ان کا ہدف بدلے گا اورنہ حکمت عملی۔ ان
کا ہدف ملک میں ایک مرتبہ پھر وہ برہمنی نظام قائم کرنا ہے جس میں دلتوں کی
جگہ ان کے قدموں میں ہے۔ توحیدی مذاہب کے حاملین سے ان کی ازلی دشمنی ہے
اوررہے گی۔ البتہ وقتی طور سے کچھ چال بدل سکتی ہے۔ 2014 کے چناؤ کے بعد’
گھرواپسی‘ اور’لوو جہاد‘ کا جو شوراٹھا تھا، وہ دب چکا ہے۔ گائے کی دم بھی
ہاتھوں سے پھسل گئی ہے۔ چنانچہ مغربی بنگال میں بھاجپا کی گؤ رکشاسمیتی نے
’بیف پارٹی ‘ کے طرز پر ’گائے کے’ دودھ کی پارٹی‘ کا جومنصوبہ بنایا تھا اس
کو پارٹی کے جنرل سیکریٹری سدھارت ناتھ سنگھ کی مداخلت پر روک دیا گیا ۔
دودھ پارٹی کے کنوینر نے کہا ساراانتظام ہوچکا ہے۔ اب ٹالا نہیں جاسکتا تو
مسٹرسنگھ نے کہدیا تو ٹھیک ہے، آپ پارٹی سے استعفادیدیجئے۔ ظاہر ہے اتنا
بڑا فیصلہ پارٹی سیکریٹری نے مرکزی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں کیا
ہوگا۔ لیکن آگاہ رہیں کہ قدیم حربہ ’فسادات کراؤ، چناؤ جیتو‘ ابھی کام
کرسکتا ہے۔
سیمانچل میں بہار کی ایک مسلم ہستی کی شہ پر جو کھیل کھیلا گیا تھا، اس کو
ناکام کرکے مسلم رائے دہندگان نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے مسلمانوں پر
فرقہ ورانہ سیاست کا اتہام لگانے والوں کو ضرور مایوسی ہوئی ہوگی۔ مایوسی
ان ریاستی مسلم لیڈران کو بھی ہوئی ہوگی جو پس پردہ ڈورہلارہے تھے۔ اس کھیل
میں ایک اہل لیڈر اخترالایمان کے پھنس جانے کاافسوس ہمیں بھی ہے۔ لوک سبھا
الیکشن میں ان کو جے ڈی یو نے کشن گنج سے مولانا اسرارالحق کے مقابلے میں
اتارا تھا۔ مگر وہ نامزدگی کے باوجود مقابلے سے ہٹ گئے تھے، جس سے ان کے
وقار میں اضافہ ہوا۔ اس بار عظیم اتحاد چاہتا تھا کہ وہ اس کے ٹکٹ پرچناؤ
لڑیں، لیکن خبر یہ ہے ایک نام نہاد مولوی کے ورغلائے میں آگئے اورمات کھا
گئے۔چنے جاتے تو وزارت کے مضبوط دعویدارہوتے۔
ہم کہہ یہ رہے تھے کہ سنگھ پریوار ایک چنا ؤ ہارا ہے، ہمت نہیں ہارا۔ اس
لئے خبرداررہنے کی ضرورت ہے۔بہار میں اتحاد کو جو کامیابی ملی ہے اس کی بڑی
وجہ یہ تھی کہ اتحاد میں شامل تینوں پارٹیوں نے کمال کا تال میل دکھایا۔کسی
نے دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔اس چناؤ میں کانگریس کی واپسی
کا راز یہ ہے کہ اس نے ریاستی صدر اشوک چودھری کو اہمیت دی اورمرکز سے کوئی
مداخلت نہیں ہوئی۔ چودھری نے سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا۔ پارٹی کوجو
41سیٹیں الاٹ ہوئی تھیں ان میں سے بھی انہوں نے تین ایسے امیدواروں کو ٹکٹ
دیا جن کی سفارش آرجے ڈی یاجے ڈی یو نے کی تھی۔ اس سے اعتماد کی فضا قائم
ہوئی۔ وہ تینوں توکانگریس کی ٹکٹ پر جیت ہی گئے ،لالو یادو اورنتیش کمار نے
بھی بھرپورساتھ دیا اوران دونوں کا ہم نوا ووٹ کانگریس کومنتقل ہو گیا۔
چنانچہ27سیٹوں پر اس کو ریکارڈکامیابی ملی۔جب کہ سابقہ اسمبلی میں اس کے
صرف چار ممبر تھے۔ آئندہ انتخابات میں یہ سوال اہم ہوگا کہ بھاجپا مخالف
ووٹ بہار کی طرح متحد رہ سکے گا ، یا سابق کی طرح منتشر ہوجائیگا؟
آخری بات: وزیراعظم مودی عنقریب برطانیہ ، ترکی ، انڈونیشیا ، ملائیشیا
اورسنگاپور جانے والے ہیں۔ آراضی بل پر کرکری اور بہار نتائج کے بعد ان کی
ـ’مضبوط لیڈر‘ کی امیج دھندلا گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ بیرونی
اورمقامی اخباروں میں، موڈی کے تجزیہ میں اور دیگربین اقوامی ایجنسیوں نے
ان کی سوا سال کی کارکردگی اورملک میں بڑھتے ہوئے ثقافتی جارحیت کے ماحول
پر جو تشویش ظاہر کی ہے اور تبصرے کئے ہیں، ان کا دفاع وہ کیسے کریں گے جب
کہ ان تبصروں پر بہار کے 6کروڑ رائے دہندگان کی مہر لگ گئی ہے۔ پارٹی کے
سابق مرکزی وزیر، صحافی اورتجزیہ نگار ارون شوری نے بھی ان کوسیاسی
قلابازیوں کے لئے آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔نیپال سے بھی مسلسل منفی تبصرے آرہے
ہیں۔ اب وہ کس کس کو جھٹلا سکیں گے؟ |
|