حکومت کی سول اورملٹری گورنینس!

ام کی نظر میں اقتدار اور ملکی حاکمیت کے حوالے سے دونوں فریقوں کے دعوے کمزور نظر آتے ہیں۔فوج کی طرف سے اب بھی خود کو حکومت سے الگ کر کے دیکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتوں میں سیاسی طریقہ کار کی ترویج کے لئے کوئی کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ہماری سیاسی جماعتیں ،خاندانی،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ کردار کے ساتھ فوج سے اقتدار لینے کے دعوے میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔

ملک میں ایسے عناصر ایک بار پھرمتحرک ہو رہے ہیں جو سول حکومت اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔کور کمانڈر اجلاس کے بارے 'آئی ایس پی آر' کے بیان کے بعد پارلیمنٹ میں بھی اس معاملے میں بات کی گئی ۔'آئی ایس پی آر' کے بیان میںحکومتی گورنینس کی بہتری سے متعلق بات اور اس کے بعد سینٹ میں اس معاملے پر تذکرے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملکی اختیارات سے متعلق حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات اور کشمکش کی صورتحال پس پردہ اب بھی جاری ہے اورفوج کی ملکی حاکمیت میں پارلیمنٹ کے ساتھ شراکت داری کے مسائل بدستور درپیش ہیں۔ان حالات میں دہشت گردی ،انتہا پسندی اور جنونیت کے خلاف جنگ جیتنا تو ایک طرف ،اس صورتحال کے ہوتے ہوئے ملکی استحکام اور مضبوطی کے مقاصد بھی کمزور پڑ سکتے ہیں۔فوج کو بھی ایسے حمایتیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو سول حکومت اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کی خواہش کرتے ہوئے فوج ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے نادان دوست ثابت ہو رہے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈر کانفرنس میں ملک کی داخلی سکیورٹی اور آپریشن ضرب عضب پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔جنرل راحیل شریف نے کہا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے آپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں، فاٹا اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضروت ہے۔کہا جارہاہے کہ پاکستان کی فوج کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اعلی عدالتوں نے فوجی عدالتوں کے بعض فیصلے مسترد کئے ہیں۔ سینیٹ میں ارکان نے کہا ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور آئین کا تحفظ ہر شہری اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ کورکمانڈر کانفرنس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا ہے وہ آئین کی روح کے منافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بیان کے بارے میں سپریم کورٹ سے تشریح کروائی جائے۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس وقت ایک پیج پر ہوں گے جب آئین بالادست ہوگا۔۔محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ خطے میں جنگی ماحول ہے۔ عراق اور لیبیا ختم ہوگیا ہے جبکہ ادھر داعش کی باتیں ہو رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کسی بھی ایسی خارجہ پارلیسی کی حمایت نہیں کرے گی جو یہاں یعنی پارلیمنٹ میں نہ بنائی گئی ہو۔انھوں نے کہا کہ ان حالات میں پارلیمنٹ کا مشرکہ اجلاس بلا کر اعتماد میں لیا جائے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر سب سے زیادہ تنقید کرتے ہیں لیکن حزب اختلاف کے دوسرے ارکان کی طرح مشکل وقت میں ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔انھوں نے ایک بار پھر حکومت کو تجویز دی کہ وہ خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان سے متعلق امور پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا بند کمرے میں مشترکہ اجلاس یا سینیٹ کا اجلاس بلائے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیان کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی کارکردگی میں بہتری لانی چاہیے۔حکومت نے اپنی آدھی مدت گزار لی ہے لیکن انھوں نے ابھی تک پارلیمان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔انھوں نے کہا کہ بعض لوگ اس معاملے پر جان بوجھ کر بیان نہیں دینا چاہیے یا پھرہم نے بے ایمانی سے حلف اٹھایا ہے ۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے نے کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کیا گیا یہ بیان حکومت کی نااہلی کی طرف اشارہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت شدت پسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں ایوان کو آگاہ کرے اور اسے اعتماد میں لے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ فوجی اور سویلین عدالتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ورنہ شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اس کے منفی اثرات پیدا ہوں گے۔ حکومت کے ترجمان کے ایک بیان میں کہا گیا کہ حکومت عوامی کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دیگر اقدامات جاری رکھے گی۔

ملک میں سول حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش میں مصروف عناصر ایک بار پھر متحرک نظر آ رہے ہیں اور ان کی طرف سے اس معاملے کو سنگین ترین ظاہر کرتے ہوئے خوب اچھالا جا رہا ہے۔ایسے عناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب اور اب امریکہ کے دورے پر حکومت کوبعض اعتراضات ہیں۔دو سری طرف عالمی صورتحال یہ ہے کہ فرانس میں دہشت گرد تنظیم 'داعش' کے حملے کے بعد عدم استحکام کے شکار مسلم ملکوں میں 'داعش' کی موجودگی کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔بات اگر حکومت کی 'گورنینس' کی کی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی سول ہی نہیں ملٹری گورنینس بھی کمزور اور ناقص ہے۔عوام کی نظر میں سول حکومت اور فوج دونوں متفق و متحد ہو کر کام کرتے نظر نہیں آ رہے اور ملک میں عوام کے حق میں صورتحال کو بہتر بنانے پر کسی بھی حلقے کی کوئی توجہ نظر نہیں آ تی ہے۔عوام کی نظر میں اقتدار اور ملکی حاکمیت کے حوالے سے دونوں فریقوں کے دعوے کمزور نظر آتے ہیں۔فوج کی طرف سے اب بھی خود کو حکومت سے الگ کر کے دیکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتوں میں سیاسی طریقہ کار کی ترویج کے لئے کوئی کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ہماری سیاسی جماعتیں ،خاندانی،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ کردار کے ساتھ فوج سے اقتدار لینے کے دعوے میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید الجھانے کے لئے طالبان کے بعد اب داعش کے خطرات میں اضافے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں لیکن ملکی ادارے اب بھی اتفاق و اتحاد کی حقیقی فضا پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔یہ صورتحال کسی طور بھی ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔اچھی حکمرانی کے حوالے سے ہو سکتا ہے کہ فوج کے اپنے خدشات ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں ہر بااختیار حلقے کی طرف سے عوامی مفاد کو ترجیح دینا نظر نہیں آ رہا ۔عوام سے متعلق سرکاری محکموں ،اداروں کی کارکردگی اب بھی ناقص ہے اور ملک کا تمام معاشی دبائو عوام پر ڈالنے کا چلن اب بھی جاری ہے۔ملک میں آئین و قانون کی حقیقی حکمرانی کے بغیر ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کا خواب بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ملک میں اداروں ،شخصیات کی تقدیس میںاس آئین اور قانون کی پامالی ہو رہی ہے جو تمام ملکی نظام عوامی مفاد میں چلانے کی ضمانت دیتا ہے ۔ملک میں آئین و قانون کو تمام شخصیات اور اداروں پر حاوی کرنے سے ہی ملک کو بہتری کی راہ چلایا جا سکتا ہے۔ملکی مفاد کے نام پر آئین و قانون کو غیر ضروری قرار دینے کی سوچ کو کسی طور بھی ملک کے حق میں قرار نہیں دیا جا سکتا،اس سے عارضی بندوبست تو کئے جا سکتے ہیں لیکن سنگین ترین خطرات میں گھرے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700145 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More