مستقبل کی نوجوان سیاسی قیادت؟؟؟؟

پاکستان کی سیاست میں سرگرم پوری سیاسی قیادت اپنی اپنی انگز کھیل چکی ہے، آنے والے دور میں ملک کی عنان اقتدار نوجوان سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی نئی نسل کریگی، اور یہ نئی قیادت ہماری موجودہ قیادت میں سے ابھارنے کا آغاز بھی ہوچکا ہے ، آنے والے برسوں میں ہماری سیاسی قیادت کا تعلق آسمانی مخلوق سے نہیں ہو گا بلکہ نئی قیادت موجودہ سیاسی قیادت کا ہی تسلسل ہوگی ، زرداری ،بھٹو اور شریف خاندانوں کے چشم و چراغ اور نور نظر ہی ملک و ملت کے مقدر کے ستارے ہوں گے ، ہماری قسمت کے فیصلے بھی یہیں کریں گے…… ہم ان سطور میں متوقع نوجوان سیاسی قیادت کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔

آصف علی زرداری، غنوی بھٹو، نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے ابھی سے ہی اپنے لائق فائق بیٹے ،بیٹیوں کی سیاسی تربیت شروع کر رکھی ہے۔ مریم نواز شریف کو اسلام آباد کی انتہائی طاقتور خاتون سمجھا جا رہا ہے کیونکہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں اہم ذمہ داریاں تعویض کی گئیں ہیں، اس حوالے اسلام آباد کے صحافتی ،سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بہت ساری کہانیاں گردش کر رہی ہیں،کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے تمام اہم نوعیت کے فیصلوں کے پس پردہ مریم بی بی کا ہی کردار ہوتا ہے جس کے باعث وفاقی اور صوبائی بیوروکریٹس ان کی خوشنودی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف بیوروکریٹس کے مقابلے میں اپنی ذہین دختر نیک اختر کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔مریم نواز کے دورہ امریکہ اور مشعل اوباما کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں انکے اعزاز میں تقریب کا انعقاد اور انکے لیے تعریفی کلمات کی ادائیگی بھی انہیں ملکی سیاست میں اہم کردار دینے کے لیے امریکی اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ نواز کے برابرکے حصے دار بھائی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے درمیان مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی سیاسی ذمہ داریوں کے حوالے سے معاملات طے پا چکے ہیں جس کے مطابق مریم نواز شریف وفاقی سطح پر سیاست کریں گی جبکہ حمزہ شہباز شریف پنجاب کی صوبائی سیاست کی کمان سنبھال لیں گے جو کہ دونوں (مریم نوازشریف اور حمزہ شہباز شریف) پہلے سے ہی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں،حمزہ شہباز شریف کو پنجاب کا ڈی فیکٹیو وزیر اعلی بھی قرار دیا جا رہا ہے-

سنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پوتی فاطمہ بھٹو کو بھی میدان سیاست کے کارزار میں لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ،فاطمہ بھٹو کو پیپلز پارٹی کے تبوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض حلقے فاطمہ بھٹو کو سیاست میں لانے کے فیصلے اور خبروں کے پیچھے پاکستان کی سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کا ذہن قرار دیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ، فاطمہ بھٹو انتہائی ذہین فطین ہیں ان میں اپنے نانا جان اور پھوپھی بے نظیر بھٹو والی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ فاطمہ بھٹو عالمی افق پر ایک صحافی،رائٹر اور دانشور کی حثیت سے بام عروج پر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے درینہ کارکن مرتضہ بھٹو کی بیٹی اور ذوالفقار علی بھتو شہید کی قابل پوتی کے سیاست میں آنے کی خبروں نے نیا ولولہ اور روح پھونک دی ہے مگر بلاول بھٹو زرداری اور فاطمہ بھٹو کے ایک دوسرے کے مدمقابل ہونے کی وجہ سے غمزدہ بھی ہیں۔

اس ملی جلی صورتحال کا شکاراورپیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ سے پریشان کارکنو ں کی تجویز ہے کہ اگر زرداری خاندان اور بھٹو کاندان کی نوجوان نسل باہم رشتہ داری سے منسلک کردیاجائے تو پھر پیپلز پارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو والی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے-

یہ تجویز پیپلز پارٹی کے ایک بزرگ اور درینہ کارکن نوازش علی بسرا کی جانب سے پیش کی گئی ہے میں نے اس کی مذید تشریح کرنے کو کہا تو انہوں نے بتایا کہ اگر زرداری صاحب اور بلاول بھٹو صاحب سنجیدگی سے یہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان اپنا کھویا ہوا مقام و مرتبہ دوبارہ حاصل کریں تو اس کے لیے زرداری صاحب اور بلاول صاحب کو قربانی دینی ہوگی، کیونکہ پہلے کارکن اور عوام بھٹو خاندان اور پارٹی کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں اب باری قیادت کی ہے۔

میرے اصرار پر کہ نوازش علی بسراء صاحب ٓاپ کھل کر بات کریں اشاروں کنایوں میں کیوں الجھا رہے ہیں تو وہ گویا ہوئے کہ میری تجویز یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری صاحب فاطمہ بھٹو سے شادی کرلیں اور ذوالفقار علی ؓبھٹو جونیئر کی شادی آصفہ یا بختاور بھٹو سے کردی جائے تو بھٹو خاندان اپنا کھویا ہوا عروج دوبارہ حاصل کرنے سے دنیا کی کوئی قوت نہیں روک سکتی ماسوائے کسی انہونی کے……!!!!

ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ایام اسیری میں ہی بھٹو خاندان کو پیپلز پارٹی سے الگ کرنے کی مہم شروع کردی گئی تھی اس کے لیے بے سوا اور زرد صحافت کے علمبرداروں نے ایسی ایسی شرمناک من گھڑت کہانیاں تراشیں کہ اگر ایسی بیہودہ اوربے بنیاد کہانیاں ان کی صاحبزادیوں اور بیگمات کے بارے میں شائع کی جاتی تو یقیننا یہ اسلام زادے پھانسی کے پھندوں سے لٹک کر حرام کی موت مرنے کو ترجیح دیتے لیکن بیگم نصرت بھٹو مرحومہ اور بے نظیر بھٹو شہید نے ان الزامات کے باوجود ان کے سرپرست آمر ضیاء الحق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ،غلام مصطفی جتوئی مرحوم،ملک غلام مصطفی کھر،حفیظ پیرزادہ مرحوم ،مولانا کوثر نیازی مرحوم، ملک معراج خالد مرحوم، بھٹو شہید کے کزن ممتاز بھٹو سمیت نہ جانے کس کس نے اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی مہم چلائی لیکن منہ کی کھائی اور خود گمنامی کے سمندر میں جاگرے…… ہماری مستقبل کی نوجوان قیادت سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان اور عوام کے ساتھ مخلص ہونے کا حلف اٹھائیں اور اپنے ذاتی کاروبار کو توسیع دینے اور اپنی تجوریاں نہ بھرنے کا عہد عوام کو دیں تو یہ بہت عمدہ کام ہوگا-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144509 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.