پاکستان کو دباؤ میں لینے کے امریکی حربے بذریعہ افغانستان

شاہین اختر

انگور اڈا افغانستان سے پاکستان پر راکٹ حملے کیے گئے جس کا پاک فوج نے موثر جواب دیا تاہم یہ سب کچھ امریکی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے افغان سرزمین سے اس طرح کی وارداتیں کراتا رہتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے تحت پاک فوج نے 90فیصدشورش زدہ قبائلی علاقے خالی کرا لئے ہیں۔ اب مزاحمت صرف ان عناصر کی جانب سے ہے جو افغانستان میں پناہ لے کر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے یہ وہ گروہ ہیں جنہوں نے افغان صوبوں پکتیا اور پکتیکا میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ انہیں وہاں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں یہاں تک کہ پاکستان کے خلاف انہیں بھاری رقوم اور اسلحہ بھی دیا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقے شوال میں آپریشن کے دوران جو دہشت گرد زخمی ہوتے ہیں پکتیا اور پکتیکا کے سرکاری ہسپتالوں میں ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ ضرب عضب کی کامیابی کے لئے کابل حکومت کو ہی نہیں افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کو بھی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اس پس منظر کے باوجود امن کے مفاد میں لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ماضی میں کیا کچھ غلط ہوا اس پر بحث کی بجائے ہمیں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف جو اس وقت امریکی فوجی قیادت کی دعوت پر واشنگٹن کا دورہ کررہے ہیں۔ امریکہ کی سول اور عسکری قیادت سے دوسرے معاملات کے علاوہ علاقائی سکیورٹی کے تناظر میں پاک افغان مسئلہ پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب سے سرحد کی دونوں جانب فائدہ ہوا۔ اگر دوسری جانب سے سرحد کو سیل کردیا جاتا اور نگرانی سخت کردی جاتی تو فائدہ اور زیادہ ہوتا۔ پاکستان کے باقی ماندہ قبائلی علاقے بھی خالی ہو چکے ہوتے اور افغانستان میں بھی پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا چکی ہوتی مگر کابل حکومت کے منفی رویے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غفلت کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ افغان حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کی رعایا پر جب بھی برا وقت آیا، انہوں نے ہمیشہ پناہ کے لئے پاکستان ہی کا رخ کیا اور پاکستانیوں نے ہی ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ اس وقت بھی تقریباً تیس لاکھ افغان پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد بہت سارے افغان مہاجرین افغانستان واپس چلے گئے تھے مگر اب وہ دوبارہ پاکستان آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانیوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر افغانیوں کی میزبانی اور دیکھ بھال کی ہے۔ مگر افغانیوں کی احسان فراموشی کے پاکستانی شاکی ہیں۔ خود حامد کرزئی پاکستان میں بطور مہاجر پناہ گزین رہا مگر اپنے دور اقتدار میں بھارت کی زبان بولتے ہوئے احسان فراموشی اور پاکستان دشمنی کی تمام حدیں پار کرتا رہا۔ افغانستان سے بلوچستان دہشت گردی کی کارروائیوں کی نگرانی بھارتی فوج کا ایک میجر جنرل کررہا ہے جو کہ ’’را‘‘ کی پاکستان میں دہشت گردی براستہ افغانستان کافی عرصے سے جاری ہے۔ یقینا امریکہ سے افغانستان میں بھارتی کردار اور پاکستان دشمنی ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے افغان سرزمین سے گولہ باری اور بذریعہ بھارتی ’’را‘‘ دہشت گردی ترک کردے ورنہ پاکستانی ہر سطح پر اس بات کا یقین بھی کر لیں گے اور ادراک بھی رکھتے ہیں ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو؟‘‘

دوسری طرف افغانستان ہمارا ہمسایہ ہی نہیں، مسلم مملکت ہونے کے ناطے ہمارا دینی بھائی بھی ہے۔ اس کے حکمرانوں کو بھی پاکستان کے دشمنوں کے بہکاوے میں آ کر باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ مل کر اپنے اور خطے کے امن کے لئے کام کرنا چاہئے اور دوستی اور تعاون کے رشتے مضبوط بنانے چاہئیں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی چاہئے کہ پیرس حملوں سے سبق سیکھتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی کوششیں دو چند کردے۔ دنیا کے امن کے لئے ان حملوں کے بعد ایسی کوشش کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
 
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.