10نومبر2015کوآئی ایس پی آر کی
طرف سے میڈیا کو جاری کردہ بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ۔کور کمانڈر
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی
کے خاتمے کے لیے جاری اپریشن کے نتائج حاصل کرنے اورملک میں قیام امن کے
لیے ضروری ہے حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔جنرل راحیل شریف نے کہا کہ
قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے اپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں ،فاٹا
اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیاد پر
منطقی انجام کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہاکہ اپریشن کی وجہ سے عارضی
طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی جلد اپنے علاقوں میں واپسی کو یقینی
بنایا جائے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو تیز کیا جائے۔
دیکھا جائے تو یہ ایک مبنی بر حقیقت اور اصولی بیان ہے ۔ اگر یہ بیان
اپوزیشن کے کسی لیڈر کی طرف سے دیا جاتا تو معمول کی ایک یا زیادہ سے زیادہ
دو کالمی خبر کی جگہ پالیتا۔اگر یہ بیان کسی عام سرکاری ادارے کی سربراہ کی
طرف سے دیا جاتا تو وہ اب تک ملازمت برخاست ہوچکاہوتا اور بات آئی گئی ہوتی
لیکن چونکہ یہ پاک فوج کے سربراہ کا بیان ہے نہ پاک فوج عام ادارہ ہے اورنہ
پاک فوج کے سربراہ کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔اس لیے قومی و بین الاقوامی
میڈیا نے اس بیا ن کو اپنا موضوع بنایا،علاوہ ازیں پارلیمنٹ کے دونوں
ایوانوں کے اندر اور باہر پوری شدو مد سے زیر بحث آیا۔اس بیان کو ایک ادارے
کی طرف سے بغاوت کے مترادف قرار دیا گیا۔حکومت اور فوج کے درمیان اس اختلاف
کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا۔آئین کی پاس داری کی بات بھی ہوئی ۔کھلے اور
ادھ کھلے لفظوں میں فوج کی مذمت بھی ہوئی اور حکومت کو بھی ہدف تنقید بنایا
گیا۔دوسرے دن حکومت کی طرف سے جوابی بیان میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان
پر عمل درآمد سب کی ذمہ داری تھی،نیز حکومت صرف عوام کو جواب دہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ فوج کے سربراہ کو آئی ایس پی آر کے ذریعے سے ایسے بیان جاری
کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس سوال کے جواب میں مختلف ذرائع سے جو باتیں
سامنے آئی ہیں وہ یہ ہیں:
اس تنبیہ کا اصل فوکس کراچی میں جاری اپریشن میں حائل رکاوٹوں سے تھا جس کا
سبب حکومت کی سیاسی مصلحتیں ہیں ۔ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کے لیے
ازالہ شکایت کمیٹی کا قیام،سینیٹ اور قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد ان کو
واپس لانا ۔اسی طرح کرپشن اور دہشت گردی کے باہمی تعلق اور سیاست دانوں کا
اس میں ملوث ہونا ۔ایان علی کیس کی دو درجن سے زائد سماعتوں کے باوجود کوئی
فیصلہ نہ ہونا اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کا
واویلا اور نواز حکومت کی ڈپلومیسی۔
کہا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں طے ہوا تھا کہ اپریشن ضرب عضب کے
دوران میں حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھر پور بحث کے بعدفاٹا ریفارمز
لائے گی ۔مگر عملا صورت حال یہ ہے کہ فاٹا ریفارمز پر ابھی کام شرو ع ہی
نہیں ہوا۔عسکری قیادت کی دباؤ پر جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں فاٹا کی سرے
سے نمائندگی ہی نہیں۔
دوسری ذمہ داری حکومت کی یہ تھی کہ وہ اپریشن کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کام کرے
گی ۔مگر اس سلسلے میں بھی کام تو کیا ابھی سروے کا آغاز بھی نہیں ہواجس کے
نتیجے میں متاثرین کی واپسی میں تاخیر ہورہی ہے جس کی ذمہ داری یعنی بدنامی
فوج پر ڈالی جارہی ہے۔
تیسرا معاملہ دفاع پاکستان ایکٹ کے تحت دہشت گردوں کے خلاف قانونی امور میں
عدم دل چسپی ہے اب تک تینوں صوبوں میں انسداد دہشت گردی فورس کا قیام عمل
میں نہیں لایا گیا۔
چوتھا معاملہ یہ کہ فوج کو مختلف جگہوں پر کام مکمل کرکے واپس جانے کے لیے
جس سول مد دکی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی فراہم نہیں کی جاتی۔افغان حکومت کا
تعاون حاصل کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن یہ کام بھی نہ ہوسکا۔
پانچواں معاملہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے اوباما کے ساتھ ملاقات کے
اعلامیے میں ایٹمی دہشت گردی کے امکان کا اعتراف پر بھی عسکری حلقوں کو
تشویش ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی بھارت کے ساتھ حد سے زیادہ نرم گوشہ بھی
ایک اہم مسئلہ ہے۔پاکستان کی اب تک یہ پالیسی رہی کہ افغانستان کے مسئلے
میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس پالیسی کی بنیاد پر پاکستان افغانستان
پر دباو ڈالتا رہا ہے لیکن اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے افغانستان پر
پریس کانفرنس میں نہ صرف بھارت کا کردار تسلیم کیا جارہاہے بلکہ اسے دعوت
بھی دی گئی ہے۔
اس وقت راحیل شریف امریکا کے دورے پر ہیں ان کے اس غیر معمولی دورے کواس
لیے بھی خاصی اہمیت دی جارہی ہے کہ یہ ان کا رواں سال میں دوسرا اور وزیر
اعظم کے دورے کے ایک مہینے بعد ہے۔اس دورے میں سینیر فوجی حکام کے ساتھ
ساتھ جان کیری اور امریکا کے وائس پریذیڈنٹ جوبائیڈن اور دیگر سینیر
رہنماؤں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ہوں گی۔ان ملاقاتوں میں ضرب عضب کی پیش رفت
،افغانستان بھارت کے ساتھ پاکستان کے مسائل اور خطے میں پاکستان کی اہمیت
کے حوالے سے دیگر معاملات زیر بحث آئیں گے۔
سیاست دانوں کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اداروں کو اپنے حد میں رہ کر اپنا
کام کرنا چاہیے۔یہ بات بھی درست ہے کہ آئین پاکستان کی رُو سے فوج شامل کسی
بھی سرکاری ادارے کو حکومت پر تنقید کا کوئی حق حاصل نہیں۔یہ بات بھی بجا
ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل سول حکومت کا کام ہے۔
لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری حکومت کے پاس کل وقتی وزیر خارجہ نہیں ہے
پتا نہیں کیوں؟بے سروسامان آئی ڈی پیزغیر یقینی کی سولی پر لٹکے ہوئے خوار
ہورہے ہیں۔جبکہ کراچی اور سندھ میں کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث سیاسی
جماعتوں کے مگرمچھوں ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا جارہا ہے۔معاشی استحکام کے صرف
بلند بانگ دعوے تو ہیں عوام کو گذشتہ ڈھائی برسوں میں کوئی ریلیف نہیں
ملا۔چھوٹے صوبوں میں محرومیاں پل اور بڑھ رہی ہیں جبکہ لاہورمیں میٹرو بس
اور اورینج ٹرین پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔وزرا آپس میں دست و گریباں
ہیں۔وزیر اعظم کے گورننس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کے اپنی جماعت کے ایک ایم
این اے کو صرف ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعفا دینا پڑتا ہے۔
ایسے میں ریاست کے سکوٹر پر وزیر اعظم نواز شریف اگر راحیل شریف کے پیچھے
بیٹھا نظر آئے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
فوج کا کہنا ہے کہ سیاست دان صحیح کام نہیں کررہے۔سیاست دانوں کو گلہ ہے کہ
سارے اختیارات فوج کے پاس ہیں۔یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں ۔لیکن اس
پیچیدہ صورت حال کاذمہ دار کون ہے؟سویلین نے پہلی دفعہ ایک باوردی جرنیل کو
وزیر دفاع بناکر فوج کو اقتدار میں شمولیت کی دعوت دی۔جب فوج اقتدار میں
آئی تو جاگیر داروں،وڈیروں اور سرتاپاکرپشن میں ڈوبے ساہوں کاروں کی چاندی
ہوگئی۔اس وقت سے لے کر اب تک فوج کبھی مارشل کی صورت میں کھل کر اورکبھی
درپردہ اقتدار پر قابض ہے سیاست کی نرسری میں حقیقی قیادت کبھی جگہ نہ
پاسکی۔موجودہ حکمران اسی نرسری کی ساختہ وپرداختہ ہیں۔آج ہمیں بتایا جاتا
ہے کہ فوج اور حکومت ایک صفحے(page)پر ہیں۔کسی نے خوب کہا کہ اس
صفحے(page) کی مالک فوج ہے۔اس پر حکمرانو ں کا رکھنا اور ہٹانا بھی ظاہر
ہے مالک کا کام ہے۔یہی ہمارا قومی المیہ ہے۔
سیاست دانوں کو ذاتی ،گروہی اورجماعتی مفادات سے بالا تر ہوکرکام کرنا
ہوگاتب کسی ادارے کو حد پھلانگنے کی نوبت نہیں آئے گی ترکی کی مثال ہمارے
سامنے ہے۔ |