افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
پاکستان کا چین اور روس کی جانب حد سے بڑھا ہوا جھکاؤ امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہے‘ جس کے نتیجے میں پنٹاگان کے حکام میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ کہیں چین اور روس پاکستان کے ساتھ مل کر فعال عالمی بلاک نہ بنا بیٹھیں‘ جس کے نتیجے میں اس خطہ کی طاقت کا توازن کافی حد تک امریکی توقعات کے برعکس ہو سکتا ہے۔ |
|
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کا
کوئی رویہ اور فیصلہ اپنا نہیں‘ امریکہ ہی اس کا مائی باپ ہے اور وہ اسے
سوفیصد اپنے مقاصد و عزائم کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس حقیقت کا علم پاکستان
کے سیاسی و عسکری نباضوں کو بخوبی ہے کہ امریکہ چاہے تو افغانستان کے
تعلقات پاکستان سے بہتر اور اگر حالات و واقعات کا رخ امریکی مفادات کی
جانب نہ ہو تو یہ تعلقات ابتری کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔ اس تناظر میں
ہرکس و ناکس کو علم ہے کہ امریکہ بسااوقات اپنے بنیادی اہداف و مفادات کے
لئے وقتی طورپر اپنی ترجیحات کو بھی ثانوی بنا لیتا ہے۔ فی الوقت بھی یہی
صورت حالات درپیش ہے۔ پاکستان کا چین اور روس کی جانب حد سے بڑھا ہوا جھکاؤ
امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہے‘ جس کے نتیجے میں پنٹاگان کے حکام میں
کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ کہیں چین اور روس پاکستان کے
ساتھ مل کر فعال عالمی بلاک نہ بنا بیٹھیں‘ جس کے نتیجے میں اس خطہ کی طاقت
کا توازن کافی حد تک امریکی توقعات کے برعکس ہو سکتا ہے۔ اس وقت چین اور
روس تو امریکہ کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے ہی ہیں جبکہ شامت
پاکستان کی آگئی ہے۔ پاکستان کو ’’راہ راست‘‘ پر لانا فی الوقت سب سے بڑی
امریکی ترجیح ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر پینٹاگان والے اپنے پرانے حربے
بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دو ہمسائے ہمیشہ سے امریکی حاشیہ بردار
رہے ہیں‘ یہ بھارت اور افغانستان ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی ریشہ دوانیاں
سوفیصد امریکی شہ کی چغلی کھا رہی ہیں۔ انہی بھارتی کارستانیوں کے سبب اسے
جو فوائد حاصل ہوئے ہیں‘ وہ امریکی اشاروں پر ملنے والی عنایات ہیں۔
برطانیہ کے ساتھ حالیہ سول ایٹمی معاہدہ اور خطیر ڈالرز کے بیش بہا معاہدے
کیا ہیں؟ یہ سب پاکستان کے خلاف اقدامات کا منہ مانگا ’’انعام‘‘ ہے۔ دوسری
جانب افغانستان ہے جو بظاہر جمہوریت کی طرف گامزن ہے مگر درپردہ امریکی
حاشیہ بردار کا کردار ادا کر رہا ہے‘ مشکل ترین حالات میں امریکی شہ پر
پاکستان کو مزید مصائب میں مبتلا کرنا ہمیشہ سے اس کا وطیرہ رہا ہے۔ پاک
فوج کا ضرب عضب آپریشن افغانستان کے بھی مفاد میں ہے‘ لیکن بعض افغان
اقدامات کے تحت اسے ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان
کا کہنا ہے کہ ہم نے ضرب عضب آپریشن شروع کرتے ہوئے افغان انتظامیہ اور
اتحادی فوج کو بتا دیا تھا کہ بہت سے دہشت گرد اس سے بچنے کیلئے افغانستان
فرار ہو جائینگے‘ جن کو روکنے کیلئے سرحد پر سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ایسا کوئی اقدام عمل میں نہیں لایا گیا جس سے دہشت گردوں کا
داخلہ افغانستان میں روکا جا سکتا ہو۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے مقاصد
بھی یہی ہیں کہ افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے۔
واقفان حالات و واقعات کا کہنا ہے کہ اس کی بھی دو وجوہات ہیں۔ ایک امریکی
شہ اور ترجیحات اور دوسرا افغانستان میں پاکستان مخالف لابی۔ یہ حقیقت بھی
اپنی جگہ عیاں و بیاں ہے کہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے پاکستان کی
مخالفت کے گڑھ بنے ہوئے ہیں‘ جو ہمہ وقت وہ تمام اقدامات کرنے پر تلے رہتے
ہیں‘ جن سے پاکستان کی پالیسیوں اور ترجیحات کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ پاک فوج
اور سیکورٹی اداروں کی عمیق نگہی سے بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کی
کارروائیاں اب ماند پڑ گئی ہیں لیکن حقیقت میں اب بھی وہ افغانستان میں
بیٹھ کر پاکستان کی سالمیت اور بقاء کیخلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے
ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کے حالیہ دورہ امریکہ میں امریکہ نے نواز
شریف کی زبانی بھارت کے خلاف شکایات ان سنی کر دیں‘ تاہم یہ طے ہے کہ
امریکہ نے پاکستان بارے اپنی ترجیحات میں فوری تبدیلیاں ضرور کیں اور
پاکستان کو براہ راست سرزنش کرنے کے بجائے بھارت اور افغانستان کے ذریعے ٹف
ٹائم دینے کا تہیہ کر لیا۔ پاکستان نے امریکی حکام سے بات کرنے کا ہمیشہ
جمہوری رویہ ہی اپنایا‘ جس کا نتیجہ امریکہ کی جانب سے ہمیشہ یہ نکلا کہ اس
نے مذاکرات کے دروازے کبھی مقفل نہیں کئے۔ یہی پاکستان کی اخلاقی جیت بھی
ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کبھی بھی چین کے ساتھ اپنے
تعلقات پر لچک نہیں دکھائی اور یہ بھی کہ ایٹمی اثاثوں پر بھی اس کا موقف
اٹل رہا۔ اب جو آرمی چیف ضرب عضب آپریشن میں افغانستان کی سرد مہری اور عدم
توجہی کا مسئلہ لے کر امریکہ گئے ہیں‘ امید واثق ہے کہ وہ بھی امریکی حکام
سے مذاکرات کرتے ہوئے اپنی بنیادی اور قومی و ملی ترجیحات پر کوئی لچک نہیں
دکھائیں گے۔ انکے عزم اور حوصلے کی داد پاکستان کے بیس کروڑ عوام پوری
دیانتداری سے دیتے ہیں۔ اس وقت ضرب عضب آپریشن کی کامیابی ہی ان کا اولین
ہدف بنا ہوا ہے اور یقیناً یہ پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا سوال ہے۔ وہ
چاہتے ہیں اس گرینڈ آپریشن کو ہر حال میں توفیق ایزی کے ساتھ کامیابی سے
ہمکنار کیا جائے۔ اسی کی خاطر بارہا انہوں نے پاکستانی قوم سے تعاون مانگا
اور حکومت کے ارباب اختیار سے بھی ان کی یہی استدعا ہے۔ گڈ گورننس کی بات
انہوں نے ضرب عضب کے تناظر میں ہی کی‘ جسے بعض حلقوں نے کوئی اور رنگ دے
دیا۔ آرمی چیف کی بات کو قومی و ملی جذبے کے ساتھ لینا چاہئے تھا۔ حکومتی
امداد و تعاون کے بھی وہ معترف ہیں‘ تاہم گڈگورننس اسکی حتمی کامیابی کیلئے
ایک سنگ میل ہے‘ جسے حاصل کرنے کے وہ خواہاں نظر آتے ہیں۔ افغانستان سے بھی
ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کیلئے اقدامات انکی توقع ہے۔ اسی خاطر وہ امریکی
حکام سے بات چیت کرنے کیلئے گئے ہیں۔ خدا کرے کہ ان کی یہ منزل بھی کامیابی
سے ہمکنار ہو جائے۔ وہ یقینا پاکستان کی تاریخ کی ایک عظیم جنگ لڑ رہے ہیں‘
جس میں کامیاب ہونا از بس ضروری ہے۔ |
|