بلدیاتی انتخابات2015ء…………عوام اور منتخب نمائندے خود سے انصاف کریں

پرویز مشرف کے دور حکومت کے گزرنے کے بعد ایک لمبے عرصے تک عوام یوں مارے مارے پھرتے رہے کہ جیسے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والا وہ بد نصیب(یتیم) جسکے والدین بچپن میں ہی اس سے بچھڑ گئے ہوں اور پھر اسکے گرد و بیش میں اسکے عزیز و اقرباء کی جانب سے اسکے لئے اتنی تنگ نظری ہو گئی ہو کہ وہ اسکی شکل و صورت دیکھنے کو بھی اپنے لئے ایک بھاری بھر بوجھ سمجھتے ہوں اور یوں وہ بیچارہ یتیم بچہ اپنی کمسنی میں ہی زمانے کی ٹھوکروں کی نذر ہو کر ایک بے رحم وقت کے ہاتھ میں یو ں کھلونا بن جائے کہ اسکی طلوع آفتاب سے لیکرغروب آفتاب تک کی تمام گھڑیاں ایک بے رحم زمانے کے بے رحم لمحوں کی نظر ہو جائیں اور پھر وہ کسی کو یہ بھی نہ بتا سکے کہ وہ عبرت کا نشان ہے ۔

قارئین……!! کچھ ایسا ہی میرے دیس کے عوام کے ساتھ بھی ہوا کہ پرویز مشرف کے دور کے خاتمے کے بعد عوام کو تو نہیں البتہ چند اہم سپورٹرز کو وہ منتخب نمائندے ضرور نظر آئے جنہیں انہوں نے ووٹ کی طاقت سے منتخب کروایا تھا مگر اسکے علاوہ تمام ووٹرز کا ان تک پہنچنا ایک اچنبے سے بڑھ کر نہ تھا اور یو ں اس ملک کی 18کروڑ عوام کی کثیر تعداد جب ان منتخب نمائندوں کو ڈھونڈنے کیلئے نکلتی تو کبھی وہ ایوان بالا تو کبھی ایوان زیریں اور کبھی تھری فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہی نظر آتی اور یا پھر کسی سیمینار یا پھر کسی بڑے میگا ایونٹ پر ہی انکی یاترا ممکن ہو سکتی تھی مگر اسکے باوجود عوام اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوں سے ہاتھ ملانا تو در کنار اپنے اندر کی حسرتوں کو بلند آواز پہنچنے سے بھی قاصر ہی رہی ایک صبر آزما وقت تھا جو اس دیس کے عوام نے انتہائی ہمت سے کاٹا اور پھر ایک وقت آیا کہ اس مجبور و محکوم عوام کی اﷲ نے سن لی اور وقت کے حکمرانوں کو احساس ہوا یا پھر انہیں احساس کروایا گیا کہ اس دیس کے عوام کو انکے اصل نمائندوں تک رسائی دی جائی اور موجودہ منتخب نمائندے انکے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں ۔حکومت وقت کو مجبوراً بلدیاتی انتخابات کا بغل بجانا پڑا اور یوں بلدیاتی اکھاڑا سج گیا ابھی تک بہت سارے بلدیاتی اکھاڑوں کے پہلوان اپنا کھیل پیش کر چکے ہیں اور کئی نے اس اکھاڑے میں اپنے مخالف کو چت کر کے بازی جیت لی ہے اور کئی اکھاڑوں میں ابھی یہ کھیل جاری ہے تاہم یہ بات حتمی ہے کہ اب بلدیاتی انتخابات ہو کر رہیں گے ۔

قارئین اور یوں اس دیس کے18کروڑ عوام کو بالآخر ان نمائندوں تک پہنچنے کا موقع ملنے والا ہے کہ جن کو یہ اپنے مسائل حل کروانے کیلئے پکڑ سکتے ہیں اور ان تک رسائی رکھ سکتے ہیں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بلدیاتی نمائندے کس حد تک عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ابھی تک تو بیچارے عوام اپنے شناختی کارڈ کے فارم،ب فارم اور دیگر قیمتی دستاویزات کی تصدیق کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا ایک جانب نادرا سنٹرز میں لمبی لائنیں تو دوسری جانب فارموں کی تصدیق کا مشکل مرحلہ وطن عزیز کے بے شمار باسیوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ شناختی کارڈ بنوانے کے اذیت ناک مرحلے سے گزرنے کی بجائے خاموشی ہی اختیار کر لیں آج بھی اگر سروے کیا جائے تو بے شمار شہری اس وجہ سے نادرا سنٹرز کا رخ نہیں کرتے کہ وہاں لمبی لمبی لائنیں لگی نظر آتی ہیں اور پھر وہاں ایک بار نہیں کم از کم دو بار ضرور جانا پڑتا ہے اور پھر اس مرحلے کے درمیان میں ایک بار پھر تصدیق کے مرحلے کا سوچ کر بیچارے شہری خاموش نہ ہوں تو کیا کریں تاہم اب یہ نوید ہو گئی ہے کہ تصدیق کا مرحلہ اب آسان ہو گا اور ہر یونین کونسل کے اندر تصدیقی مرحلے کو انجام دینے کیلئے متعدد شخصیات موجود ہیں اور یوں شہریوں کو مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوگایوں بلدیاتی انتخابات کے باعث عوام کو ایک اہم سہولت میسر ہونے جا رہی ہے ۔

بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو چاہے کہ جس طرح انکے ساتھ عوام نے محبت کا اظہار کیا ہے وہ اسی طرح اس اظہار محبت کا اخلاص کے ساتھ جواب بھی دیں کیونکہ جس منصب پر عوام نے انہیں بٹھایا ہے یہ مختصر عرصے کیلئے ہے اور اگر مذکورہ نمائندوں نے اس منصب کے ساتھ انصاف نہ کیا تو پھر مکافات عمل ہے کہ وقت تو گزر ہی جائے گااور عوام کو وہ ایک بار پھر دھوکہ دے ہی دیں گے مگر وقت کا بے رحم گھوڑا جب احتساب کریگا تو پھر اس احتساب سے بچنا نہ صرف دشوار بلکہ نا ممکن بھی ہوگا اسلئے منتخب نمائندوں کو چاہئے کہ اپنے ساتھ اور اس منصب کے ساتھ ضرور انصاف کریں جس منصب پر انہیں عوام نے فائز کیا ہے ۔اسلام کی تاریخ ساری نہ سہی مختصر ہی یہ منتخب نمائندے پڑھ لیں تو مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں اور اگر اتنا وقت انکے پاس نہیں تو صرف اس بات کو ہی دیکھ لیں کہ اگر ایک باپ کے چار بچے ہیں اور وہ ان بچوں میں کوئی فرق یا کوئی تمیز رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنے بچوں سے انصاف کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں اسے خود ہی اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ حلقے کے عوام بھی اسکے لئے اسکے خاندان کی طرح ہیں اوران سے ریا کاری کرنا انکی امانتوں میں خیانت کرنا انکے مسائل کو کم کرنے کی بجائے بڑھانا اور انصاف پسندی نہ کرنے کا مطلب ہے مذکورہ منتخب نمائندے نے عوام کے دیئے ہوئے ووٹ (اعتماد) کی قدر نہیں کی۔

حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو شخص عامل مقرر ہوتاتھا اس کو ایک فرمان عطا ہوتا تھا ،جس میں اس کی تقرری اور اختیارات اورفرائض کا ذکر ہوتا تھا اس کے ساتھ بہت سے مہاجرین اور انصار کی گواہی ثبت ہوتی تھی عامل جس مقام پر جاتا تھا ،تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس کے اختیا رات اور فرائض سے واقف ہو جا تے تھے جب وہ ان اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھتا تھا تو لوگوں کو اس پر گر فت کا موقع ملتا تھا ۔آپٍٍٍـؓنے ایک خطبہ میں عاملوں کو مخاطب کر کے یہ الفاظ فر مائے'' یاد رکھو میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا ہے بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ ہماری تقلید کریں آپؓ جب کسی کو سرکاری عہدوں پر فائز کرتے تھے تو ان کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپؓ اس کاسخت احتساب کرتے تھے۔ آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے کبھی ترکی گھوڑے پر نہ سوار ہونا،چھنا ہوا آٹانہ کھانا۔ آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں ،سرکاری عہدیداروں اور والیوں کیلئے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ۔آپؓ نے نا انصافی کرنے والوں کو سزادینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کااحتساب شروع فرمایا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں ۔

آپ ؓ کا فرمان تھاـــــــقوم کا سردار قوم کاسچا خادم ہوتا ہے آپؓ کی مہر پر لکھا تھا عمر! نصیحت کیلئے تو موت ہی کافی ہے امیر سے امیر بننے کی خواہش رشوت ستانی کی اہم وجہ ہے جب تک یہ ختم نہیں ہوگی رشوت کا لین دین جاری و ساری رہے گا ۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی اس جھلک کے بعد مزید کچھ کہنے کی جگہ نہیں رہی تاہم عوام کو بھی چاہئے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں تک اپنی رسائی رکھیں اور انکو جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان ذمہ داریوں سے انکو آگاہ کرتے رہیں اور اگر یہ مطلوبہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے تو پھر انکا احتساب کریں کیونکہ اگر وہ اس بار بھی اگلے بلدیاتی انتخابات تک موجود منتخب نمائندوں کو موقع دیں گے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں اسلئے عوام کو چاہئے کہ اپنے مسائل اپنے منتخب نمائندوں کے پاس لے کر جائیں اگر ان نمائندوں کی جانب سے جدوجہد کی جا رہی ہے اور آگے انکی شنوائی نہیں ہو رہی تو پھر انکے ہاتھ مضبوط کریں کیونکہ یہ واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے عوام انصاف کو باآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔امید کی جا سکتی ہے کہ بلدیاتی نمائندے اور عوام ایک دوسرے سے انصاف کریں گے اور ماضی کی روایا ت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کریں گے یقینا یہی صحیح راستہ ہے جس پر چل کر دونوں سرخرو رہ سکتے ہیں ۔
Sardar Asghar Ali Abbasi
About the Author: Sardar Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Sardar Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 21229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.