گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے
میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ کے ضلع بدین میں کچھ یو ہوا کہ’ اس
گھر کو آ گ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘۔ شعر کا پہلا مصرع یہ ہے ’دل کے پھپولے
جل اٹھے سینے کے داغ سے۔ اس گھر کو آ گ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘۔ذوالفقار
مرزا نے جیالا ہوکر جیالوں کو شکست دے دی، پی پی میں مرزا کی حیثیت گھر کے
بھیدی والی ہے۔یہ کل تک سابق صدر آصف علی زرداری کا بہ اعتماد ساتھی ، دوست
تھا آج سینہ تان کر اسے للکار رہا ہے۔ سیاست اسی کو کہتے ہیں۔ملک میں
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی بخیر آفیت کسی بڑی خرابی کے بغیر
اختتام کو پہنچا۔ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے مختلف نتائج سامنے نہیں لا
سکا۔ پنجاب میں نون لیگ نے برتری حاصل کی ، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی
کو برتری حاصل ہوئی۔ گویا بلدیاتی انتخابات میں حکمرانی طاقت بلے بلے رہتی
ہے۔ پنجاب بدستور آگے جب کہ عمران خان کی تحریک انصاف کا گراف نیچے کی جانب
رواں دواں ہے۔ اس کی وجہ خان کی بعض پالیسیاں، حکمت عملی، بیانات اور کچھ
انہیں پہنچنے والے صدمے بھی ہیں جس سے ان کے حامی کچھ بد دل اور پیچھے ہٹتے
جارہے ہیں۔ بلد یاتی انتخابات میں پنجاب کی کل 2399نشستوں میں سے تحریک
انصاف صرف 291 نشستیں حاصل کرسکی۔ نون لیگ نے 893اور آزاد امیدواروں کو
718سیٹوں پر برتری حاصل رہی۔پاکستان پیپلز پارٹی 12، ق لیگ9 سیٹو ں پر
کامیاب ہوئی۔ یہ بات بھی سب ہی کو معلوم ہے کہ آزاد گھوڑے آزاد رہنا پسند
نہیں کرتے بلکہ چمک دھمک، ریل پیل، اختیارات، عہدہ کی چمک انہیں اپنی جانب
متوجہ کرتی ہے اور وہ بہتے دریا میں تختے پر سوار ہونے کے بجائے سرکاری
جہاز میں سوار ہونے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ تنہا پرواز کرنا آزاد امیدواروں
کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتی ہے۔ ماضی میں تو یہی ہوتا رہا ہے کہ
آزاد جیت کرآنے والے آزاد زندگی نہیں گزارتے بلکہ وہ اچھا کھانے پینے والوں
کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اب اگر پنجاب کے آزاد نمائندے نون لیگ میں
شامل ہوجاتے ہیں تو نون لیگ کے بلدیاتی امیدواروں کی تعداد1611ہوجائے گی۔
اس طرح تحریک انصاف کے لیے بلدیاتی ماحول میں نون لیگ کو ٹف ٹائم دینا مشکل
ہوگا۔
صوبہ سندھ کی صورت حال پنجاب سے مختلف ہے۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی
حکمرانی ہے ۔پہلے مرحلے میں پی پی نے واضح برتری حاصل کی دوسرے مرحلے میں
پی پی کو اپنوں نے ہی مشکل میں ڈال دیا۔ یہاں کل سیٹوں کی تعداد 1833تھی اس
میں سے پی پی نے 821نشستیں حاصل کیں، 113آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، متحدہ
قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) 118، مسلم لیگ (ن) 82اور مسلم لیگ فنگشنل نے
22سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ سندھ میں تاحال تحریک انصاف کا وجود نہیں۔
اندرون سندھ ہونے والا اتحاد بھی اتحادیوں کو کوئی ایک سیٹ بھی نہیں دلا
سکا۔ سندھ کی سیاست واضح طور پر شہری اور دیہی میں منقسم ہے۔ ماضی میں بھی
شہروں میں ایم کیو ایم اور دیہی علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو برتری
حاصل ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری آپریشن کے پیش نظر قیاس آرئیاں
ہورہی تھیں کہ شاید بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوں ایم کا گراف نیچے کی
جانب چلا جائے اور اس کا فائدہ تحریک انصاف ، پاکستان پیپلز پارٹی یا
فنگشنل لیگ کو پہنچے لیکن تمام تر قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں، ایم کیو ایم
کا ووٹر جوں کا توں اپنی سیاسی قیادت کے ساتھ دکھا ئی دیا۔ اس جماعت کو
حیدر آباد میں واضح برتری حاصل ہوئی ۔اس نے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی
70سیٹیں حاصل کرلیں، جب کہ میرپور خاص کے 33وارڈز میں بھی ایم کیو ایم جیت
گئی۔ ایم کیوایم کے لیے نیک شگون جب کہ مخالفین کے لیے جھٹکا ہے۔یہ جھٹکا
بہت شدید نہیں برداشت ہوجائے گا اس لیے کہ ماضی میں بھی ایسے جھٹکے لگتے
رہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ایک دلچسپ بات سندھ کے ضلع بدین میں
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیرداخلہ، آصف علی زرداری کے قریبی دوست، جن
کی اہلیہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی پہلے خاتون اسپیکر بھی رہیں یعنی
ذوالفقار مرزا نے اپنی ہی پارٹی کا مرکزتصور ہونے والے ضلع بدین میں
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کردیا، مرز گروپ نے
ضلعی ہیڈ کواٹرز کے تمام 14وارڈز پر فتح حاصل کر لی۔ مرزا کی اس سیاسی فتح
کو سیاسی حلقے پاکستان پیپلز پارٹی کی اس کے اپنے ہی گھر میں شکست تصور
کررہے ہیں۔ میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اندرون سندھ مرزا نے فتح
حاصل کر لی ہو ایسا ہر گز نہیں ہے مرزا گروپ کو بدین کے 14وارڈز میں
کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان نشستوں پر مرزا کی کامیابی کے
بعد مرزا کے حامیوں نے خوشی میں جو نعرے لگائے وہ بڑے ہی دلچسپ اور مرزا کی
سیاسی حکمت عملی کا اظہار تھے۔ یعنی مرزا کی واہ واہ تو ہونی ہی تھی، ان کے
حق میں تو خوب خوب نعرے لگے ، ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے لگائے
گئے جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ مرزا نے مختلف
چینل کو جذباتی انداز میں انٹر ویوز دیے ان میں اپنے آپ کو پاکستان پیپلز
پارٹی سے منسلک لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے لٹیروں سے اعلان جنگ کی بات
کی۔ اس سے مراد سابق صدر پاکستان، ان کے سابق دوست ہیں، بہت ممکن وہ ان کے
مستقبل کے دوست بھی ہوں، اس لیے کہ سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا
ہے ۔ مرزا کی باتوں سے ، حکمت عملی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا نے یہ
انتخاب پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی لڑا، وہ بلاول اور بے نظیر
کو استعمال کرتے رہے لیکن آصف علی زرداری سے اپنی پرخاش نکالتے رہے۔ مرزا
کے بیٹے، مرزا کی بیگم صاحبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوچکے
ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی یقینا اس پر کوئی قدم اٹھائے گی۔ مزا تو تب ہوتا
کہ مرزا پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنی وفاداری ختم کردیتے ، منتخب ایوانوں
سے استعفے دے یتے پھر کسی بھی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیتے۔ یہ بات صاف
ظاہر ہے کہ بدین میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹر مرزا کے ہاتھوں استعمال
ہوا، اگر اسے یہ معلوم ہوجاتا کہ مرزا کا پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق
نہیں تو مرزا کی کامیابی کی یہ صورت ہر گز نہ ہوتی۔ بیگم مرزا کا فرمانا ہے
کہ پی پی کارکنوں نے قیادت کے خلاف بھر پور یو ٹرن آؤٹ دیدیا۔یہاں بیگم
صاحبہ کی قیادت سے کیا مراد ہے ، بلاول بھٹو زرداری یا آصف علی زرداری۔
قیادت اس وقت دونوں کے ہاتھو ں میں ہے۔ بلاول چیرٔ مین اور زرداری شریک
چیرٔ مین ہیں۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ان دونوں کو مسترد
کردیا ہے تو بیگم صاحبہ کو بھی قیادت کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر قومی
اسمبلی کی سیٹ سے ڈی سیٹ ہوجانا چاہیے۔ انصاف اور قانون کا تقاضہ تو یہی
ہے۔ یا پھر آپ پاکستان پیپلز پارٹی کی سی ای سی کی میٹنگ بلا کر پارٹی کی
قیادت کو ڈی سیٹ قرار دلوادیں۔ بات سیدھی سادھی سی ہے کہ اب دونوں میں سے
کوئی ایک ڈی سیٹ ہوگا۔ اس کے بغیر گاڑی نہیں چلے گی۔ ڈی سیٹ ہونے کا عمل
تیسرے مرحلے کے بعد ہوگا یا اس سے قبل ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ مرزا کی بدین میں اپنا گروپ بناکر کامیابی حاصل کر لینا پی
پی کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔ کہنا چاہیے کہ مرزا نے آصف علی زرداری کی
نیندیں اڑادی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمہ داران کو نئی حکمت عملی
اپنانے پر مجبور کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
زمیںِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرٔ مین آصف علی زرداری کا فرمانا ہے کہ’
لگتا ہے الیکشن کمیشن کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ڈوری غیر
متعلقہ حلقوں کی جانب سے ہلائی جارہی ہیں‘۔ اس کی وجہ بہ بیان کی کہ سندھ
کے81بلدیاتی حلقوں میں انتخابات سے ایک روز قبل پولنگ ملتوی کر دی گئی تھی۔
مرزا کی فتح پر زرداری صاحب تاحال خاموش ہیں، لگتا ہے کہ تانے بانے بن رہیں
ہیں ، سوچ بچار جاری ہے، کونسا ترپ کا پتہ پھینکا جائے کہ جو مرزا کو مات
دے دے۔ ان کی سوچ کا دھارا یقینا بدین میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست کے
گرد گھوم رہا ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی شکست تسلیم نہیں کر
رہی اور شکست ہے بھی نہیں ایک ضلع میں مرزا جی کیا کر سکیں گے لیکن پی پی
میں شگاف ڈال دیا گیا ہے اور یہ شگاف کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے
چھیتے مرزا نے ڈالا ہے جسے انہوں نے سندھ کی اہم وزارت سونپی تھی۔ بلاول
بھی بدین پہنچے تھے، ان کے لیے بھی بدین میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست
ایک بڑا سیٹ بیک ہے۔ پنجاب کے بعد اب سندھ میں بھی پی پی کا گراف گرتا ہوا
نظر آرہا ہے۔ اب مرزاجی نے کراچی کا رخ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دیکھنا یہ
ہے کہ وہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں یا اپنی اصل
حلیف ایم کیو ایم کے حلقوں میں بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ ایم کیوں ایم کو پہلے ہی
دو جماعتی اتحاد سے مقابلہ ہے ۔ کہیں مرزا جی بھی اس اتحاد کے تیسرے کھلاڑی
نہ بن جائیں اور پی پی کے بجائے ایم کیو ایم پر وقت ڈال دیں۔ کپتان مرزا
کوتھپکی دے چکے ہیں، یعنی انتخابات میں جیت کے فوری بعد عمران خان مرزا جی
کو مبارک باد دے چکے ہیں۔مرزاجی کہاں جاتے ہیں انہیں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
اس طرح کی جیت کے بعد حوصلہ بلند ہوجاتے ہیں اور ہرا ہی ہرا نظر آنے لگتا
ہے۔ قومی لیڈر بننے کی امنگیں انگڑالیاں بھی لینے لگتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی
ممکن ہے کہ ڈاکٹر مرزا اپنی ہی کوئی سیاسی پارٹی دے ڈالیں یا پھر پاکستان
پیپلز پارٹی (مرزا) تو بن ہی جائے گی۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے یہ آنے
والا وقت ہی بتائے گا۔
پہلے اور دوسرے دور کے بعد بلدیاتی انتخابات کا تیسرا بازار دسمبر میں سجے
گا۔ حیدر آباد ، میرپور خاص میں آٹھ جماعتی اتحاد کے خلاف میدان مارنے کے
بعد متحدہ میں جوش و جذبہ پیدا ہوچکا ہے۔ ان کے لیڈران کراچی میں اپنی
شاندار کامیابی کی نوید دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے دوسرے مرحلے کے لیے
کوئی خاص تیاری نہیں کی تھی اسی لیے نتیجہ بھی ویسا ہی سامنے آیا۔ لیکن
کراچی میں ایسی صورت حال نہیں یہاں تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت اسلامی
کے ساتھ مل کر حلیم کی دیگ پکانے کا سامان جمع کررہی ہے۔ کراچی میں کامیابی
کے لیے جماعت اسلامی بھی پر امید ہے۔ دوجماعتی اتحاد کو ایم کیو ایم ، اے
این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ نتیجہ کیا ہوگا یہ
وقت بتائے گا۔ خدا کرے جس طرح بلدیاتی انتخابات کے پہلے دو مرحلے کسی بڑے
خون خرابے کے بغیر گزر گئے تیسرا مرحلہ بھی امن و سکون سے پائے تکمیل کو
پہنچے۔ اس کے لیے تمام جماعتوں کو صبر، برداشت اور درگزرسے کام لینا ہوگا۔
ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ ہمارا ملک سلامت رہے
ہمارا شہر محفوظ رہے۔ |
|