ذوالفقار مرزا کی کامیابی ’’ بھٹو ووٹ بینک ‘‘کیلئے چیلنج نہیں

سندھ میں ذوالفقار مرزا کی سیاست اور شخصیت عجیب و غریب رنگ بو اختیار کر چکی ہے۔ ان کی گفتگو اور انداز سیاست سے یہ اندزاہ لگانا مشکل ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہیں یا مخالف۔تاہم یہ تاثر ضرور بھرتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر ہی ذوالفقار مرزا گروپ کے نام سے ایک نیا گروپ بنانا چاہتے ہیں اور پارٹی میں آصف علی زرداری کے مخالفین ڈھونڈ رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں ان کے گروپ کو بدین شہر میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن انھوں نے جئے بھٹو اور جئے بے نظیر شہید بھٹو کے نعروں سے اب بھی کنارہ کشی کا اعلان نہیں کیا ہے اور بدین میں کامیابی کے جشن میں ان کی حامیوں نے جئے شہید بے نظیر بھٹو اور جئے بھٹو کے نعرے لگائے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ذوالفقار مرزا پیپلز پارٹی کے مخالف ہیں یا اب تک اس کے حامی ہیں۔ ظاہر کہ یہ سب کچھ دیکھ کر یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی کی سندھ کی سیاست میں کوئی ڈینٹ ڈالا ہے ہاں البتہ تمام تر الیکشن مہم کے دوران اور جیتے نے بعد بھی ان کی گفتگو سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے حامیوں کو شکست دی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انتخابات سے تقریباً پندرہ روز قبل ذوالفقار مرزانے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی ۔ پریس کانفرنس کے دوران جب میں نے ذوالفقار مرزا سے یہ سوال کیا کہ اندرون سندھ خاص طور پر دہی علاقوں میں آ ج بھی یا تو ’’بھٹو‘‘ کا ووٹ ہے یا ’’اینٹی بھٹو ووٹ ‘‘ہے آپ کس کے ساتھ ہیں ؟ ذوالفقار مرزا نے جواب دیا ’’میں انیٹی زرداری ہوں‘‘ پھر میں نے جب یہ پوچھا کہ بھٹو کو آپ کہاں کھڑا کریں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ’’بھٹو میرے دل میں کھڑا ہے‘‘۔ اسی پریس کانفرنس میں جب میرے ایک ساتھی صحافی جاوید قریشی نے سوال کیا کہ اگر آپ موجودہ پیپلزپارٹی کے مخالف ہیں تو آپ کے بیٹے حسنین مرزا سندھ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی کیوں نہیں ہوتے اور فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کیوں نہیں دیتیں؟ تو ذوالفقار مرزا نے سخت لہجے اوربلند آواز سے کہاــ’’یہ کسی کے باپ کی سیٹں نہیں ہیں ــ یہ ہماری سیٹیں ہیں، ہم نے بدین میں کام کیا ہے اس لئے لوگ ہمیں ووٹ دیتے ہیں‘‘ جاوید قریشی نے جب یہ پوچھا کہ آپ اسی پریس کلب میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کے دوران یہ کہہ کہ گئے ہیں کہ میرے تو کپڑے بھی آصف علی زرداری کے دئیے ہوئے ہیں اب ایسا آپ کا آصف علی زرداری سے کیا ہو گیا تو ذوالفقار مرزا اس سوال کا جواب گول کر گئے۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر جب میں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اس لئے آپ اتنے بڑے بڑے دعوے اور باتیں کرتے ہیں ؟ تو ذوالفقار مرزا سوال کا جواب دینے کے بجائے اپنی سیٹ سے اٹھ کر میری طرف بڑھے اورمیرا ہاتھ پکڑ کر انھوں نے غصے سے کہا’’مجھے معلوم ہے کہ تم یہ سوال کہاں سے لے کر آئے ہو‘‘ میں نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیجئے یہ کیا طریقہ ہے کہ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے سوال کے جواب میں میراتعلق آصف علی زرداری یا پیپلز پارٹی سے جوڑ رہے ہیں ؟ تو ذوالفقار مرزا نے کہا ’’ جواب سننا ہے تو سنو میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہوں لیکن آصف علی زرداری اور الطاف حسین را((RAW کے ایجنٹ ہیں‘‘ مذکورہ پریس کانفرنس کا احوال تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید میں قارئین کے لئے واضح کر سکوں کے ذوالفقار مرزا آصف علی زرداری سے ذاتی مخالفت اور عناد کی بنیاد پر موجودہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت اور ان کے ہمنواؤں کی مخالفت کر رہے ہیں اس میں نظریات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ لیکن ذوالفقار مرزا بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جئے بھٹو اور جئے بے نظیر بھٹو کا نعرہ لگائے بغیر نہ تو ان کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ان کی سیاست کسی کھاتے میں ہے۔ بدین شہر میں جس عوام نے انھیں ووٹ دیا ہے وہ اینٹی زرداری یا اینٹی بلاول بھٹو زرداری تو ضرور ہو سکتے ہیں لیکن وہ اینٹی بھٹو نہیں ہیں۔ اس تناظر میں یہ کہنا کہ ذوالفقار مرزا نے ’’بھٹو‘‘ کے ووٹ پر کوئی ڈینٹ ڈالا ہے یا’’بھٹو‘‘ کے نام پر ہونے والی سیاست کے مستقبل پر کوئی سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے، غیر منطقی سی بات لگتی ہے۔ البتہ اس صورت حال سے یہ اشارے ضرور ملتے ہیں کہ شاید ذوالفقار مرزا بھٹو کے نام پر کوئی نیا گروپ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں یا کامیاب ہونے والے ہیں۔ یا مرزا صاحب مستقبل میں پیپلز پارٹی (ش ب) کی قائد غنویٰ بھٹو سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی میں ایک نیا گروپ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے باغی رہنمانے پی پی کے مضبوط سیاسی قلعے کے ضلعی ہیڈ کوارٹرکے تمام 14وارڈز پر کامیابی حاصل کر لی تاہم مجموعی طور پر بدین میں مرزا گروپ اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی میں مقابلہ برابر رہا۔ بدین میں ایم این اے کمال خان چانگ کے بھائی محمد خان چانگ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا مرزا گروپ کی کامیابی کے بعد اس گروپ کے حمایتی سڑکوں پر نکل آئے، مٹھائیاں تقسیم کیں اور جشن منایا۔ اس موقع پر قومی پرچم بھی لہرایا گیا۔ مرزا گروپ کے حامیوں نے اس موقع پر شہید بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے لگائے جبکہ اس دوران سابق صدر آصف زرداری کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ ضلع کی دو میں سے ایک میونسپل اور آٹھ میں چار ٹاؤن کمیٹٰوں پر مرزا گروپ مسلم لیگ ن اور اتحادیوں نے کامیابی حاصل کی ۔گولارچی ٹاؤن کمیٹی کی نشستیں مرزا گروپ اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے جیتی۔ گولارچی ٹاؤن کمیٹی کی چھ میں سے پانچ نشستیں اس اتحاد نے جیت لیں جبکہ نندو ٹاؤن کمیٹی ، ٹنڈو باگو پنگریو ٹاؤن کمیٹی بھی مرزا گروپ کے نام رہیں۔ میونسپل کمیٹی ماتلی کی کل بارہ نشیتوں میں سے گیارہ پیپلز پارٹی جبکہ ایک آزاد امید وار ں نے حاصل کر لیں۔کھوسکی، کڈہن اور راجو خانانی ٹاؤن کمیٹی بھی پیپلز پارٹی کے نام رہی جبکہ ٹاؤن کمیٹی ٹنڈو غلام علی میں پیپلز پارٹی پہلے ہی بلا مقابلہ کامیاب ہو چکی ہے دوسری جانب گولارچی کی گیارہ میں سے آٹھ یونین کونسلوں پر مرزا گروپ کے نامزد امیدوارکامیاب ہوئے اور تین یونین کونسل پر پی پی نے کامیابی حاصل کی ۔ مجموعی طور پر سندھ کے بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو ذوالفقار مرزا کی بدین شہر کے باہر کوئی کامیابی نہیں اور نہ ہی وہ موجودہ پیپلز پارٹی ’’بھٹو ووٹ بینک‘‘ کے لئے کوئی بہت بڑا چیلنج بنتے نظر آ رہے ہیں۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.