2008 ء کے عام انتخابات کے بعد
پاکستان کیلئے سیاسی ، معاشی ، سماجی و معاشرتی حوالوں سے یہ امر خوش آئند
رہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی
اورعام انتخابات 2013 ء کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل ایک منتخب حکومت کے
ہاتھوں سے ہو تاہوا دوسری منتخب حکومت تک پہنچا، اس سے عالمی سطح پر
پاکستان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوا اور یقینی طور پر جمہوریت کو تقویت
ملی، قومی سطح پر سیاسی منظر نامے میں مثبت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں لیکن
ان تبدیلیوں کے حقیقی ثمرات عام آدمی تک پہنچنے میں ناکام رہے، عام
انتخابات 2013 ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف ملکی سطح پر ایک تیسری سیاسی
قوت بن کر ابھری اور بلاشبہ تحریک انصاف نے دو بڑی منجھی ہوئی سیاسی
جماعتوں کو ٹف ٹائم دیا اور عام آدمی میں سیاسی سمجھ بوجھ اور شعور بیدار
کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن بعد ازاں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک
انصاف بھی روایتی سیاست کے بھنور میں پھنستی چلی گئی جس کابلا واسطہ طور پر
سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوا، ستم ظریفی یہ کہ ووٹرز اور سیاسی
رہنماؤں کا ایک دوسرے کے باریاب ہونے کاجو عمل 2013 ء کے انتخابات میں عروج
پر تھا وہ مکمل طور پر سبوتاژ ہو کر رہ گیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
عوام کے منتخب نمائندوں کو صوبائی و قومی سطح کی سیاست میں اپنا اہم عملی
کردار ادا کرنا چاہئے لیکن اس کیساتھ ساتھ انہیں اپنے اپنے سیاسی حلقہ جات
کے بنیادی مسائل اور حل کو بھی ترجیح دینی چاہئے، آپ کسی بھی سیاسی جماعت
سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی فہرست مرتب کر لیں کہ ان علاقوں سے
رکھنے والا عام آدمی مذکورہ حلقوں سے کامیاب ہونے والے عوامی نمائندوں سے
نالاں ہی نظر آئے گا، عوام علاقہ اورانتخابی حلقہ لاوارثیت کا شکار دکھائی
دے گا۔
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے اہم سیاسی حلقے NA-49 کی مثال لے لیں،
تقریباََ 6 لاکھ سے زائد آبادی والے اس حلقے سے سابق دور حکومت میں سینیٹر
نیئر بخاری چیئرمین سینٹ کے عہدے پر فائز رہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری 2008 ء سے لگاتار تاحال رکن قومی
اسمبلی ہیں لیکن علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے ، آبادیوں کی حالت زاراور
قدرتی گیس کی سپلائی لائنز کے موجود ہونے کے باوجود گیس کنکشن نہ دیئے جانے
کی وجہ سے عام آدمی/ ووٹر ان سے ناراض نظر آتا ہے، ان کے بارے میں بھی دیگر
سیاسی رہنماؤں کی طرح عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ نہ وہ کبھی حلقے میں
نظر آئے اور نہ انہیں عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی ہے، کچھ ایسی ہی
صورتحال راولپنڈی کے حلقہ NA-56 کی ہے جہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن عام انتخابات کے بعد وہ
اب تک صرف ایک مرتبہ حلقے کا دورہ کرنے میں ’’کامیاب‘‘ ہو سکے ہیں، سیاسی
قائدین چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ان کی بنیادی طاقت ووٹرز
ہیں اور اگر یہی ووٹرز ان سے ناراض ہوں گے اور اگلی مرتبہ انہیں ووٹ نہیں
دیں گے تو شکست لازمی طور پر ان کا مقدر بنے گی نیز سیاسی وابستگی والی
جماعتوں کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔اسلام آباد میں کچی بستیوں اور کھوکھوں
کیخلاف حالیہ آپریشن پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی اہلیان علاقہ کی سیاسی
قائدین تک رسائی نہ ہونے کا فقدان دکھائی دیتا ہے، کچی بستیوں ، کھوکھوں کا
معاملہ سیاسی طور پر بھی بہترین انداز میں حل کیا جا سکتا تھا لیکن اس جانب
کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ آج تک یہ گتھی نہیں سلجھ سکی کہ یہ امر طے ہونے کے
باوجود کہ سیاسی قائدین کو ایک مخصوص مدت کے بعد دوبارہ انہیں لوگوں کے
سامنے ووٹ کیلئے جھولی پھیلانا پڑتی ہے تو وہ لگاتار عام آدمی سے رابطے کے
عمل کو برقرار کیوں نہیں رکھتے ؟ وہ کونسے ذاتی مفادات ہیں جو آڑے آ جاتے
ہیں اور عوام علاقہ کے اجتماعی مسائل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور کئے
گئے وعدوں کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے؟
ایسے سیاسی رہنما بہت ہی نایاب ہیں جولوگوں میں گھل مل کر رہتے اور لوگوں
کے مسائل سن کر ان کے حل کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہوں، یہ بھی ممکن نہیں کہ
منتخب عوامی نمائندے اپنے علاقے کے لوگوں سے فرداََ فرداََ ملاقات کر سکے
یا ان کی بات سن سکیں مگر یہ عین ممکن ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دے
دیا جائے جس میں ہرماہ کم از کم ایک کھلی کچہری منعقد کر لی جائے اور عام
آدمی کے دکھوں کا درماں کرنے کی سعی کی جا سکے، اس طرح کے عمل سے علاقے کے
لوگوں کے مسائل حل کرنے اور ان کا دکھ درد بانٹنے سے ان کے غموں کانہ صرف
کسی حد تک مداوا کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ عمل عام آدمی اور سیاسی قائدین کے
درمیان دوری ختم کرنے ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے اور ایسا کرنے والے سیاسی
رہنماؤں کی مثالیں ہمارے درمیان موجود ہیں جو عام لوگوں سے براہ راست
رابطوں کے ذریعے ان کا دل جیت چکے ہیں۔
اسی طرح’’ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چُگ گئی کھیت‘‘ کے مصداق جب عام آدمی
کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو اسے بخوبی اس بات کا ادراک ہو جانا
چاہئے کہ اس کا ووٹ اس کی آنیوالی زندگی اور نسلوں کیلئے کتنا اہم ہے، عام
آدمی کا ایک ووٹ کئی نسلوں کی بقاء اور بربادی کا سبب بن سکتا ہے اسلئے ووٹ
جیسی طاقت کو کج فہمی کی نذر کرنے کی بجائے اس کا درست استعمال کرتے ہوئے
اپنے لئے ایک ایسے نمائندے کا چناؤ کیا جائے جو وعدہ خلافی، جھوٹ، بخل اور
اسی طرح کی دیگر برائیوں سے دور رہنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہواور ان
لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی رکھتا ہو جن کے ووٹ کی طاقت سے وہ
کرسیِ اقتدار پر براجمان ہوا ہے،ووٹرز ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ
انہیں برادری ازم، ذاتی مفادات اور بھیڑ چال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فہم
و ادراک سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے انتخابات ’’بلدیاتی الیکشن‘‘
میں اپنے نمائندوں کا چناؤ کرنا ہے کیونکہ انہیں اپنے بنیادی مسائل کے حل
کیلئے انہی عوامی نمائندوں سے رجوع کرنا پڑے گا ، بصورتِ دیگر عام آدمی
حسبِ سابق ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کی اکثریت کی طرح بلدیاتی نمائندوں
کی بے اعتنائی کا بھی شکار ہوگا۔ |