بیگم بیتی شادی سے پہلے تک ,نازکی ،کا لفظ ہم نے صرف صنفِ نازک کے لئے
ہی سنا ،یا پڑھا تھا۔شادی کی رات ہم کسی خوبصورت جملے یا شعر کے منتظر
تھے۔کہ دل دہلا دینے والی چھینک کی آواز پر دروازہ کھلا۔
سارے حسین خیالات کا دھاگا سڑپ اور سوں سو ں کی آوازوں سے ٹوٹ گیا۔گھونگھٹ
اٹھانے کے
ساتھ ہی دوسری آں ۔۔آں۔۔آں۔۔چھینں کی خوفناک آواز سے گھونٹ واپس گرگیا۔سوں
سوں۔۔
۔معاف کیجئے گا۔ہمیں پھولوں اور مہندی کی خشبو سے الرجک ہے۔ ہمارے نازک
مزاج کی وجہ سے اماں بھی پریشان ہیں کہ کہیں ہم بیمار نہ ہو جائیں۔ہم
پھولوں اور مہندی سے عشق کرنے والے ۔۔کہیں
چھن سے کچھ ٹوٹ گیا۔ہم نے جھجکتے ہوئے کہا کہ آپ کوئی ٹیبلٹ لے لیجئے۔ہاں
وہ تو ہم لے چکے ہیں
آ پ کو تکلیف نہ ہو تو ذرا سر دبا دیجئے۔اپنی سہیلیوں کی نصیحتوں کو با لا
ئے طاق رکھ کر جو پہلے دن ہی سر دبایا تو ساری زندگی گلے کے علاوہ
ہاتھ،پاؤں اور سر دباتے ہی رہے۔
شادی کو ۳ ماہ گزرے ہونگے کہ ہم ا پنے نازک مزاج، سرتاج کے لئے ہر تیسرے دن
یخنی چڑھاتے اور اسکی بوسونگھتے سونگھتے بیزار ہوگئے ۔ڈرتے ڈرتے ایک دن ساس
اماں سے (جوشاندے ٹائپ)یخنی
کے بجائے سوپ بنانے کا پوچھا۔تو بولیں۔۔ائے رہنے دو یہ آجکل کے چونچلے
۔۔۔یخنی کی بات ہی الگ ہے۔میں پکتے ہوئے جوشاندے کا ساشے بھی ڈال دیتی
ہوں،جبھی تو پیتے ہی میرے بچے کا نزلہ بھاگ جاتا ہے۔ہم یہ سوچ کر رہ گئے
۔۔کہ تیسرے دن واپس بھی آ موجود ہوتا ہے۔
ہماری ساس اماں اکثر ،سناتیں کہ جس گھر میں داماد کی عزت نہ ہو،وہاں جانے
سے دل ہٹ جاتا ہے۔
معلوم کرنے پر پتہ چلا کے میری چھوٹی بہن نے ثالی ہونے کا حق نبھاتے
ہوئے۳،۴ دفعہ بناوٹی چھینک
لیا تھا۔آئندہ احتیاطََ ہم نے میکے والوں کے چھینکنے پر پابندی لگا دی۔ایک
دفعہ بڑے بھیا ،کھانے کی میز پراچانک، مختلف زاویوں سے چہرے کو بگاڑتے ہوئے
،چھینک کو روکنے کی کوشش کرنے لگے۔جس پر صاحب کی نظر پڑی تو مسکراتے ہوئے
ہمارے کان میں بولے،غالباََ بھیا کو چھینک آنے کو بیتاب ہے۔
ہم نے غراتے ہوئے کہا ،ظاہر ہے آپ کو عظیم تجربہ جوہے۔جبکہ آپ ہی کی وجہ سے
ہم نے اپنے میکے والوں پر دفعہ ۱۴۴ لگائی ہوئی ہے۔جبھی بھیا چھینک کو روکنے
میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
ایک صبح جب ہم بخار کو ساتھ لئے اٹھے تو خوش ہوئے کہ شاید اب ہمارے حصے میں
بھی تیمارداری آئے گی۔ایک دن بے سدھ رہے دوسرے دن میاں نے زبردستی اپنے
ساتھ یخنی میں شامل کیا۔اور شام میں ساس اماں ہمیں پوچھنے آئیں تو
بولیں۔۔ائے اٹھو بھئی !اپنا گھر سنبھالو۔مجھ بوڑھی ہڈیوں میں دم کہاں۔۔ائے
بہن عورتوں کو آہن کی طرح ہونا چاہئے۔(اور آپکے بیٹے کو چھوئی موئی کی طرح
)آگے کیا کچھ جھیلنا ہوتا ہے۔۔تم بخار ہی کو چپٹائے بیٹھی ہو۔۔۔ہمتِ
(عورتاں)مرداں مدد خدا۔۔۔ہم ناچار اگلے دن پھر چارج ہو گئے۔
گرمیوں کے دن تھے۔ہم روٹیاں پکا کر تیز پنکھے کے نیچے پسینہ سکھانے
لگے۔ابھی کچھ دیر ہی سکون لیا تھا
کہ چھینک نے بتایا کہ صاحب کی آمد آمد ہے۔وہ آئے اور وہی کیا ،جس کا سے ہم
اکثر کڑھتے رہتے تھے
۔پنکھا آہستہ کیا،پھرہمیں ۲ نصیحتیں کیں ۔۔۔۔دوسری طرف سے چھینک کی آواز سن
کر اماں بھی ہماری لا پرواہی پر کلسنے لگیں۔
شادی کے بعد پہلی دفعہ امید سے ہوئے ،تو ہمیں امید ہوئی کہ شاید اب زندگی
کے رنگ بدلیں۔آہ۔۔
صبح و شام کی نصیحتیں گویا اب ،چلتے پھرتے اشتہار میں بدل گئیں۔میکے سے رات
گئے نہ آیا کرو،پڑوسن کے سامنے نہ آیا کرو ۔۔وجہ پوچھی تو گھورتے ہوئے
بولیں نظر لگ جاتی ہے۔(حلانکہ اس کے خود ۵ بچے ہیں)یہ نہ کرو،وہ نہ
کرو،ایسے کرو ،کا لبِ لباب یہ ہوتا کہ خبردار! جو چونچلے دکھائے۔ہم بھی اسی
مرحلے
سے گزر کر تمھارے میاں کو دنیا میں لائیں ہیں۔ڈاکٹر کے جاتے ،ہم اپنے درد
بتا رہے ہوتے۔ساس
اماں کہتیں کہ دلہن سے کہئے ،ایسے میں کام دھندا کرنا ہی اچھا رہتا
ہے۔(جیسے گھر میں تو کوئی پڑوسن ۲۰ دفعہ یہی بات ہم سے کہتی ہے)
چھینکوں کے علاوہ،ہمارے صاحب کا ادھر ادھر ٹکرا جانا ،پھِسل جانا ،کپڑوں پر
کھرونچے لگ جانا اور کبھی
پاؤں کا بے زور موجوں کی طرح ،ہر جگہ ٹکرا جانا بھی ہمارے گھر میں ہلچل مچا
کر ہمارا صبر آزماتا رہتا تھا۔
غالباََ اسی لئے ماہانہ راشن کے ساتھ،فرسٹ ایڈ کا سامان بھی باقائدگی سے
آتا تھا۔ہر چوٹ لگنے پر ساس اماں ،ہائے میرا بچہ،ہائے میرا بچہ کہتی رہتیں
اور ۶فٹ کا بچہ تکلیف سے مچلتا رہتا۔ایسے میں ہم سے ہنسی
ضبط کرتے ہوئے کبھی کوفت میں کچھ غلط ہو جاتا تو دونوں مل کر چوٹ کا غصہ ہم
پر نکالتے کہ نہ آپ کو پٹی باندھنا آتا ہے نہ زخم صاف کرنا،کسی ٹوٹکے وغیرہ
کا بھی علم نہیں ، اماں نے کیا سکھا کر شادی کر دی۔۔۔۔
ایک دن ہم نے جل کر کہہ دیا،کہ ان حالات میں آپ کو کسی نرس سے شادی کرنی
چاہئے تھی۔تو زبان دراز کا خطاب مل گیا۔پھرہم نے بھی ہر دفعہ اس خطاب
کابھرپور فائدہ اٹھایا۔
یونہی دن سالوں میں بدلنے لگے ۔۔۔اور ہم ۴ بچوں کی ماں بننے کے ساتھ ساتھ
پانچوے،۶ فٹ کے بچے کو بھی سنبھالنے کے عادی ہو گئے۔اماں کی نصیحتیں اب
افرادِخانہ میں تقسیم ہو گئی تھیں۔پھر ایک وقت کم ہو ہو کر ۷۲سال کی عمر
میں بلکل ہی ختم ہو گئیں۔
۳۵ سال نیم حکیم جان حکمت سہنے کے بعد چند ہی دن اقتدار کے مزے لوٹے
ہونگے۔کہ ہماری چٹختی ہوئی ہڈیوں نے احساس دلایاکے جاتے جاتے بڑی بی اپنے
بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھتے ،بیٹے اور خود ہم میں بھی وہ اپنا محتاط علم پھونک
گئی ہیں۔افسوس ہم چاہتے ہوئے بھی ان جان آزما نسخوں اور ٹوٹکوں کی
بنیادیں ہلا نہ سکے۔
ہمارے صاحب ہر بات کا آغاز ہماری اماں یوں کہا کرتی تھیں ،سے شروع کرتے اور
کہنے کا فائدہ اٹھا کر سب کچھ کہہ دیتے،ہم سے رہا نہ گیا تو ایک دن تنگ آ
کر بولے،۷۲ سال یوں بولیں،تو کیا کم بولیں؟
جو آج آپ کے اندر سے بھی نکل نکل کر بولتی ہیں۔
آہ ساری زندگی گزر گئی۔۔پوتوں،نواسوں والا بھرا پرا خاندان ہے۔لیکن آج بھی
چوٹ کے بعد اٹھنے والے ہرشور کے بعداندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دادا
،پوتے میں سے کون متاثر ہوا ہے۔اور ساس اماں کی طرح ،ہائے میرا بچہ،ہائے
میرا بچہ کہتے ہوئے بھاگتے ہیں۔جس میں سے ,,ہائے،، صا
حب کے لئے اور ,,بچہ،، پوتے کے لئے ہوتا ہے۔ |