طاہر نقوی:میں اور میرے افسانے،ادارہ ممتازمطبوعات کراچی،سال اشاعت درج نہیں۔

 تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان
کراچی میں مقیم نامور پاکستانی ادیب اور دانش ور طاہر نقوی کا شمار اردو زبان کے مقبول افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔فن افسانہ نگارری میں ان کے متنوع تجربات کو قارئین ِادب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ طاہر نقوی کے آبا و اجداد کا تعلق بجنور (اتر پردیش ۔بھارت) کے ایک ممتاز علمی و ادبی اور معززخاندان سے تھا۔ بجنور کی سر زمین نے ادب اور فنون لطیفہ کی ترقی میں ہر دور میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔طاہر نقوی ۱۹۴۲میں شمالی ہند کی ریاست اترا کھنڈکے صدر مقام ڈیرہ دون (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ یہ شہر دہلی سے دو سو چھتیس کلومیٹر شمال میں ہمالیہ کے سر بہ فلک سلسلۂ کو ہ کے دامن میں ایک پُر فضا مقام پر واقع ہے ۔ اس شہر کی صحت افزا، پُر اسرار اور رومان پرور فضامیں کئی نابغہء روزگار ہستیوں نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ قیام ِپاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے اوریہاں تعلیمی مدارج طے کیے۔ طاہر نقوی نے اس وقت کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا جب وہ سکول میں ابتدائی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے۔ اﷲ کریم نے انھیں علم و دب کے جس ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا اس کے اعجاز سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا ۔زمانہ طالب علمی ہی سے وہ مطالعہ کے شوقین تھے ،سکول کی تعلیم کے دوران وہ اردو زبان کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ کر چکے تھے اور عالمی کلاسیک کے اہم تراجم میں ان کی دلچسپی کا آغاز ہو گیا تھا ۔ طاہر نقوی کے اساتذہ اور سکول میں ان کے تمام ہم جماعت طالب علم اس شاہین بچے کی تخلیقی فعالیت اور اعلا ادبی ذوق کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی مختصر کہانیاں بچوں کے مقبول رسائل ، مقامی اور قومی ادبی مجلات کی زینت بنتی رہیں جنھیں قارئین نے بہت سراہا۔ ۱۹۷۰ میں ان کا پہلا افسانہ صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلے ’’افکار ‘‘ میں شائع ہوا ۔اس کے بعد ان کے افسانے تواتر کے ساتھ پوری دنیا کے ممتاز اردو مجلات میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے ۱۹۷۰میں ایم۔اے تاریخ اور ۱۹۷۲میں ایم۔اے اردو کیا۔طاہر نقوی نے پرورشِ لوح و قلم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے ۔وطن،اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کے ا سلوب کا نمایاں وصف ہے ۔ایک زیرک ،فعال ،مستعد اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اور ہر قسم کی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بے لوث محبت،بے باک صداقت،ایثار،حریتِ ضمیر سے جینے اور انسانی ہمدردی پر مبنی اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے ۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں ان کے نمائندہ افسانوں کے تراجم کیے گئے جنھیں ادب کے باذوق قارئین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی ۔دنیاکی جن بڑی زبانوں میں ان کے افسانوں کے تراجم شائع ہو چُکے ہیں ان میں انگریزی،سندھی،بلوچی،گر مکھی،پنجابی،ہندی،تامِل اور سرائیکی شامل ہیں۔دنیا کے طول و عرض میں منفرد اسلوب کے حامل اس مایہ ناز پاکستانی افسانہ نگار کے مداح بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں ان کے کئی افسانے دنیا کی بڑی اردو ویب سائٹس اور سائبر کتب خانوں پر دیکھے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ برطانیہ ،امریکہ،جرمنی،کینیڈا،دبئی اور جاپان سے ان کے افسانوں کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔

طاہر نقوی کے افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں:
بند لبوں کی چیخ (۱۹۸۲) ایوارڈ یافتہ ،حبس کے بعد پہلی بارش(۱۹۸۹)،شام کا پرندہ(۱۹۹۸)،دیر کبھی نہیں ہوتی(۲۰۰۵) ایوارڈ یافتہ،کوؤں کی بستی میں ایک آدمی(۲۰۱۱)

طاہر نقوی کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں جن اہم ایوارڈز سے نوازا گیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔آدم جی ادبی انعام ،کراچی،۲۔اسرار و افکار اکیڈمی کراچی ایوارڈ
طاہر نقوی کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے مختلف اصناف، ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ان کے اسلوب کے سوتے ان کے مشاہدات اور تجربات سے پُھوٹتے ہیں ۔یہ مشاہدات و تجربات جب ایک انتہائی مؤثر ذہنی عمل کی صورت میں ان کے ڈراموں ،افسانوں ،ریڈیو اور اخبارات کے لیے لکھے گئے کالموں اور مضامین میں جلوہ گر ہوتے ہیں توان کی تخلیقی تحریروں کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔ افکارِ تازہ سے مزّین ان مسحورکُن تحریروں کے مطالعہ سے قاری ایک جہانِ تازہ میں پہنچ جاتا ہے جہاں فکرو خیال کی وسیع اور متنوع دنیا کا منفرد نظام دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ان کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’رجحان‘‘نے تخلیقِ ادب اور تنقید و تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اپنے قلم کا احترام کرنے والے حریتِ فکر کے اس مجاہد نے گزشتہ نصف صدی کے دوران اپنے دل پر گزرنے والی ہر کیفت کو نہایت خلوص اور درد مندی کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ معاشرتی زندگی کے وہ تمام حقائق جو ذہن و ذکاوت اور فہم واداراک کومتاثر کرتے ہیں بڑی خوش اسلوبی سے ان تحریروں میں سمٹ آئے ہیں۔طاہر نقوی کے اسلوب کے بارے میں گزشتہ نصف صدی میں اخبارات ،جرائد ،مجلات اور سائبر حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے اب کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے ۔حال ہی میں طاہر نقوی نے اس موضوع پر ’’میں اور میرے افسانے ‘‘کے عنوان سے جو کتاب تالیف کی ہے اسے مستقل نوعیت کی مستند حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے۔ایک سو نواسی صفحات پر مشتمل اس کتاب میں عالمی شہرت کے حامل چھیاسٹھ نقادوں کے عالمانہ تنقیدی مضامین اور چالیس ممتاز ادیبوں کی وقیع مختصر آرا شامل ہیں۔

یہ تالیف جو ’’میں اور میرے افسانے ‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے طاہر نقوی کی ایک اور اہم خدمت ہے ۔ اپنی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں دنیا بھر کے اہم ادبی مجلات ،جرائد اور اخبارات میں شائع ہونے والی منتشر تحریروں کو یک جا کر کے انھیں کتابی صورت میں شائع کر کے طاہر نقوی نے علم و ادب کی جو خدمت کی ہے اس کے بارِ احسان سے اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔ اس کے اعجاز سے اردو زبان و ادب کے طلبہ ،اساتذہ،محققین اور نقادوں کو اسلوبیاتی تنقید کے تنوع اور ہمہ گیری کی تفہیم میں مدد ملے گی۔طاہر نقوی نے پسِ منظر میں رہتے ہوئے اپنی ذات اور اسلوب کے بارے میں مشاہیر ِادب کی بے لاگ رائے نذرِ قارئین کر دی ہے ۔ اسلوبیاتی مطالعات میں ایک زیرک نقاد قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھانے پر قادر ہوتا ہے۔وہ کوتاہ اندیشی پر مبنی مبہم ،الجھے ہوئے اور فرغلوں میں لپٹے سہل پسندانہ موقف کو کبھی تسلیم نہیں کرتا تنقید میں طویل اور صبر آزما راستوں سے ہراساں ہونابعید ازقیاس ہے۔ تنقیدی مطالعات کے اس مخزن میں شامل جامع آرا کا تعلق پل دو پل کی باتوں سے ہر گز نہیں کہ یہ تو نصف صدی کے حقائق ،تجزیات و مطالعات کا ایسا مرقع ہے جس کا ہر جملہ بے حددل کش اور حسین ہے۔ ہماری بزمِ ادب کے کئی آفتاب و ماہتاب اور نیّر تاباں جو عرصہ ہوا عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو چُکے ہیں یہاں اپنی ضوفشانی سے سفاک ظُلمتوں کو کافور کر کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کررہے ہیں اور طاہر نقوی کے اسلوب کو حقیقی تناظر میں سمجھنے پر مائل اور اس کی افادیت کا قائل کر رہے ہیں۔میری مراد احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا،رئیس امروہوی، میرزا ادیب،ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر آغا سہیل ،غلام الثقلین نقوی، غلام محمد،پروفیسر عتیق احمد ،قمر جمیل،شفیع عقیل،ڈاکٹر سہیل بخاری اورپروفیسر آفا ق صدیقی ہیں۔ایسی نادر و نایاب اور یا دگارِ زمانہ ہستیوں کے بے لاگ تجزیاتی مطالعات نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔فضاؤں میں ہر طرف ان کی حسین یادیں بکھری ہوئی ہیں ،جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی تخلیقی فعالیت اور تنقیدی بصیرت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان عظیم ہستیوں کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے اور لوح ِ دل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہے ۔ ان اہم تنقیدی مضامین میں یدِ بیضا کا معجزہ دکھایا گیا ہے ۔پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے بھی تیز ہے لیکن زمانہ جس قدر بھی ترقی کر لے ایسی ہستیاں پھر کبھی پید ا نہیں ہو سکتیں ۔یہ تحریریں ایک تبرک اور بیش بہا اثاثہ ہیں۔

بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طاہر نقوی نے اپنی تالیف ’’میں اور میرے افسانے ‘‘ میں اپنے بارے میں کچھ نہیں کہا بل کہ خود پس منظر میں رہتے ہوئے محض مشاہیر کی وقیع آرا پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے یہ تالیف پیش کر دی ہے ۔ ان تجزیاتی آرا میں ابد آشنا اسلوب کی حامل با کمال ہستیوں نے طاہر نقوی کے قدرتی ،اخلاقی اور اسلوبیاتی اوصاف کے بارے میں جو مدلل اور افادیت سے لبریز گفتگو کی ہے،اس کا مطالعہ اسلوبیات کے طلبہ ،اساتذہ اور قارئین کے لیے طاہر نقوی کے ادبی مقام اور مرتبے کے تعین کے سلسلے میں مشعل را ہ ہے ۔ باطنِ ایام اور تخلیقات کے لا شعوری محرکات پر گہری نظر رکھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ طاہر نقوی نے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی اپنے بارے میں جملہ حقائق کو من و عن بیان کر دیا ہے اور سبک نکتہ چینی کے عادی بے کمال حرف گیروں کو آئینہ بھی دکھا دیا ہے ۔کتاب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں نثری نظم اور اردو زبان کے کوہ پیکرتخلیق کار قمر جمیل(مرحوم) کایہ شعر گردش کر نے لگا:
ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
پُھول بننے کے انتظار میں ہے

Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 680062 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.