فلسطین ،شام ،عراق ،برما،سیریا،افغانستان،مصر،کشمیراورگجرات میں کھیلی
گئی خون کی ہولی کیا دہشت گردی نہیں تھی؟
’’مسلمانوں کوبے حسی کی زندگی ختم کرنا ہوگی،،پستی،ذلالت وگمراہی سے باہر
آنا ہوگاورنہ چاروں طرف سے یگرامتیں ٹوٹ پڑرہی ہے
محترم قارئین کرام۔السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
گذشتہ ہفتے پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی پوری دنیا نے مذمت کی،کچھ نے
سیاست کی تو کچھ نے مذمت کرنے کا ڈھونگ رچا۔ہم بھی مانتے ہیں کہ ایک انسان
کا قتل پوری انسانیت کے قتل ہونے کے مترادف ہے۔لیکن کیا قتل وغارت گری صرف
پیرس ،روس اور امریکہ میں ہی ہوئی ہے کیا وہاں مرنے والے لوگ ہی انسان
تھے۔جو اتنا واویلامچایا جارہا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں ان کی تعلیم
انہیں دہشت گرد بننے پر مجبور کرتی ہیں۔ فلسطین، شام، عراق، برما،سیریا،
افغانستان، مصر، کشمیر،اور گجرات میں جو خون کا ننگا ناچ کیا گیا اور دیگر
ممالک میں روس امریکہ اور اسرائیل خون کی ہولی کھیل رہا ہے کیا یہ دہشت
گردی نہیں ہے؟کیا وہاں شہید ہونے والے معصوم معصوم بچے انسان نہیں ہیں،روتی
سسکتی بلکتی مائیں،غم سے نڈھال باپ،کیا یہ سب انسان نہیں ہے۔یہ اسرائیلی
اور اس کے ا?لہ کاروں کی نظر میں حیوان اور دہشت گرد ہیں۔امریکہ‘ اسرائیل
اور بھارت لاکھوں مسلمانوں کو مارنے کے باوجود ان کے ہیرو اور مظالم کا
نشانہ بننے والے مسلمان ان کے نزدیک دہشت گرد ہوتے ہیں۔سب سے پہلے آپ کو
لفظ دہشت گردی کی مناسب طریقے سے وضاحت کرنی پڑے گی۔ اگر ایک غیر مسلم کچھ
برا کرے تو آپ کے نزدیک یہ جرم ہے اور اگر ایک مسلمان اسی جرم کا ارتکاب
کرے تو آپ اسے دہشت گرد کہتے ہیں پہلے اس دوہرے معیار کو ختم کریں اورپھر
فیصلہ کریں کہ اصلی دہشت کون ہے ؟مگر یہ بتائے گا کون؟
ایک جرمن نومسلم ا سکالر ابو حمزہ ( Vogel Pierre ) سے لائیو شو میں پوچھا
گیا کہ کیا اصلی دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں؟
جرمن نومسلم اسکالر نے جواب میں کہا:
پہلی عالمی جنگ کس نے شروع کی ؟ ؟ کیا وہ مسلمان تھے ؟ دوسری عالمی جنگ کس
نے شروع کی ؟؟ کیا وہ مسلمان تھے ؟
آسٹریلیا میں رہنے والی قدیم قوم aborigines کے20 ملین باشندوں کو کس نے
مارا ؟ ؟کیا وہ مسلمان تھے ؟
ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کس نے گرایا ؟ ؟کیا وہ مسلمان تھے ؟
شمالی امریکہ میں 100ملین سے زائد ریڈ انڈینز کو کس نے مارا ؟ ؟ کیا وہ
مسلمان تھے ؟
جنوبی امریکہ میں 50 ملین سے زائد ریڈ انڈینز کو کس نے مارا ؟ ؟کیا وہ
مسلمان تھے ؟
کس نے180 ملین سے زائد افریقی باشندوں کو غلام بنایا جن میں سے 88 فی صد کو
ہلاک کرنے کے بعدبحر اوقیانوس میں پھینک دیا گیا ؟ ؟کیا وہ مسلمان تھے ؟
نہیں وہ مسلمان نہیں تھے!
ایک ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق۲۰۰۱تا۲۰۱۵ تک عرب ممالک پر اسرائیلی اور
امریکی حملوں میں کم و بیش ۱۷؍ لاکھ مسلمانو ں کو اب تک شہید کردیا گیا
ہے۔اور ایک سال پہلے تک تقریباً تین لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش، 24 ہزار
مسلمانوں کو ملائشیا اور اتنی ہی تعداد میں لوگوں کو تھائی لینڈ نقل مکانی
پر مجبور کیا گیا۔ تقریباً ایک لاکھ دس ہزار مسلمان تھائی، برما بارڈر پر
بے یارومددگار پڑے ہیں اور اسی طرح ایک لاکھ سے زیادہ لوگ برما، بنگلہ دیش
بارڈر پر موجود ہیں۔ یہ لوگ ان ممالک کی طرف سے داخلے کی اجازت نہ ملنے کی
وجہ سے بارڈر پر ہی مقیم ہیں۔ بارڈر پر ان مسلمانوں پر برما کی فوج اور بدھ
انتہا پسندوں کے حملے جاری رہتے ہیں۔ جن سے بچنے کیلئے مسلمان کشتیوں کے
ذریعے سمندر میں چلتے جاتے ہیں یا کود جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں کوئی اطلاع
نہیں ملتی کہ وہ کہاں گء۔غزہ کیتمام مسلمان شدید زخموں سیاب بھی چور چور
ہیں لیکن عالمی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ چکا ہے کوئی یہ سوال نہیں اٹھا
رہا کہ اسرائیلی یہودی بے گناہ مسلمانوں کو مارنے کی تربیت کہاں سے لیتے
ہیں؟ان یہودیوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کون سکھاتا ہے؟ کیا اس نصاب
تعلیم کو تبدیل نہیں کر دینا چاہیے کہ جس نصاب تعلیم کو پڑھ کر اسرائیل کے
یہودی دہشت گرد اور انتہا پسند بن رہے ہیں؟ بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام
کرنے کی وجہ سے کیا امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک کو اسرائیل کا بائیکاٹ
نہیں کر دینا چاہیے؟ لیکن ایسا کرے گا کوئی نہیں... یہاں برق گرتی ہے تو بے
چارے مسلمانوں پر... خون بھی مسلمانوں کا بہہ رہا ہے اور دہشت گرد بھی
مسلمانوں کو ہی قرار دیا جارہا ہے۔لاشیں بھی مسلمانوں کی گرتی ہیں اور
انتہا پسند بھی مسلمانوں کو قرار دیا جارہا ہے۔
52فیصدسے زائد مسلمان مملکتوں کے حکمران تو جیسے شراب پی کربدمست شرم کے
نشہ میں چور ہیں۔ اسی لئے تو اسرائیلی وحشیانہ مظالم کے سامنے ان میں سے
کوئی ایک بھی کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہے... ویسے بھی مردہ ضمیروں سے شکوے
کرنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہوا کرتا ہے... نہ اسرائیل نیا ہے
اور نہ ہی فلسطینی مسلمانوں پر اس کے بہیمانہ مظالم کوئی نئی بات ہے...
بلکہ ارض مقدس فلسطین 66برسوں سے اسرائیل کی ننگی جارحیت کی چشم دید گواہ
ہے... روتی ہوئی ماؤں کے سامنے ان کے معصوم بچوں کو ذبح کر دینا‘ بہنوں کی
دیکھتی آنکھوں کے سامنے ان کے جوان بھائیوں کو خاک و خون میں تڑپا ڈالنا‘
بیویوں کے سامنے ان کے شوہروں کو تہہ تیغ کر ڈالنا ‘حاملہ عورت کے پیٹ سے
بچے کو چاک کر اس کے سامنے ہی اس بچے کا قتل کرنا،یہ مکار یہودیوں کا پرانا
شیوہ ہے.
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی
ایسی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
امریکہ و یورپ کا میڈیا تو صیہونی مظالم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور
اصل حقائق دنیا تک پہنچنے نہیں دی جارہی ہیمگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم
میڈیا کی طرف سے بھی اس طرح کا بھرپور کردار دیکھنے میں نہیں آیا جو انہیں
ادا کرنا چاہیے تھا۔ہمارے ملک کے کچھ سیکولر اور نام نہاد تنظیمیں امریکہ
اور اسرائیل کی غلامی کرنا وہ اپنے لئے راہ نجات سمجھتے ہیں... امریکہ اور
اسرائیل کو راضی کرنے کے لئے اپنے قلم‘ ضمیر اور خمیر بیچنے والے گمراہ
ٹولے سے کوئی کہے کہ تم ان دشمنان اسلام کے سامنے جس قدر مرضی جھک جاؤ...
یہاں تک کہ ان کے سامنے سجدہ ریز بھی ہو جاؤ یہ تب بھی تم سے راضی نہیں ہوں
گے کیونکہ قرآن مقدس میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’اور ہرگز تم سے راضی نہ ہوں
گے... یہودی اور نصاریٰ جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگو‘‘۔
مسلمانوں میں شامل رہ کر یہود و نصاریٰ کی غلامی کرنے والا سیکولر گروہ ہر
دور میں پیدا ہوتا رہا ہے۔اور اب بھی اس کا کام جاری وساری ہے۔یہی یہود نما
سیکولر گروہ مسلمانوں کی عبادات میں مداخلت کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے
ہیں‘ دیکھ لیجئے۔ اگر کوئی جہادی تنظیم چند امریکیوں یا اسرائیلیوں کو مار
دیتی تو دنیا بھر کا میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لٹھ اْٹھا
لیتا۔اسرائیل نے یورپ کے تعاون سے فلسطینیوں کو مسلسل ہراساں کیا، مساجد کو
نقصان پہنچایا، قبلہ اول پر قبضہ کی کوشش کی، اذان و صدائے کبریائی نے اسے
ہلا کر رکھ دیا، کئی بار نئے نئے قانون وضع کر کے اذان پر پابندی کی کوشش
کی۔ خونِ مسلم سے وہ ہولی کھیلی جس نے چنگیزی مظالم کو شرما دیا۔ ہر طرح کے
تشدد کو روا رکھا، وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیار غیر اعلانیہ طریقے سے
تیار کیے اور انھیں مسلمانوں پر آزمایا۔ اور آج بھی یہ سلسلہ دراز ہے۔یہ
پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہر ملک میں ایک ٹرائل ورڑنTrail
Versionکھیلتا ہے۔جس وہ یہ اندازہ لگانا چاہتا ہے کہ اس کا reaction کیا
ہوتا ہے مسلمانوں اور دیگر ممالک کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔
حقیقتاً اگر غور کیا جائے تودہشت گردی، امریکہ اور اسرائیل کی
پیداوارہے۔جسے وہ ہر دور میں ایک تنظیم کی شکل میں چلاتا ہے اور اس کے
ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے میں ہر ممکنہ کوشش کرڈالتا ہے۔
غاصب اسرائیل ایک درندہ بن چکا ہے جس کا خاتمہ اب نا گزیر ہے۔ عالمی برادی
اور عالم مغرب نے بالخصوص صیہونی درندے اسرائیل کو کھلی آزادی دے رکھی ہے
جس کے نتیجے میں وہ جب چاہتا ہے فلسطین کے معصوم انسانوں کا قتل عام کرتا
ہے اور ان کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ آج پوری مسلم امہ کو چاہئیے کہ یک
زبان اور ایک جان ہو کر عالمی سامراجی دہشت گردوں امریکہ اور اس کی ناجائز
اولاد اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں۔ فلسطین ہو یا مصر یا پھر
مشرق وسطیٰ کا کوئی بھی ملک ہو یا پھر شام اور عراق کی صورتحال ہو ا ن تمام
تر ممالک میں کی جانیو الی دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت میں صیہونی
اسرائیلی ریاست براہ راست ملوث ہے۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو تقسیم
کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ دنیا بھر کے مسلمان مسئلہ فلسطین کی حمایت
سے ہاتھ ہٹا لیں۔
ایک مرتبہ حضورﷺنے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے خطاب کرکے فرمایا:
میری امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسرے امتیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی
کہ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں۔ کسی کہنے والے نے کہا کہ جس
زمانے کا آپﷺ حال بیان کررہے ہیں اس زمانے میں کیا ہم مسلمان اتنی کم تعداد
میں ہوں گے کہ ہمیں نگل لینے کیلئے قومیں متحد ہو کر ٹوٹ پڑیں گی؟ آپﷺ نے
فرمایا نہیں، اس زمانے میں تمہاری تعداد کم نہ ہوگی بلکہ تم بہت بڑی تعداد
میں ہوگے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوجاو گے اور تمہارے دشمنوں کے
سینوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں پست ہمتی گھر کرلے
گی۔اس حدیث شریف پر غورکیجئے اور اندازہ لگائیے کیا آج پوری دنیا میں ایسا
نہیں ہورہا ہے جیسا کہ سرکاردوجہاں نے فرماکر گئے ہیں۔آئیے ایک واقعہ کے
ذریعہ اندازہ لگائیے کہ ہماری بے حسی اور ظلم سہنے کی عادت کچھ ایسی تو
نہیں ہے۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے دیکھا کہ ایک دریا پر پل بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ روز
یہ دیکھتا تھا کہ لوگ دریا میں گزرتے ہوئے بھیگ کر جاتے ہیں۔ اس نے اپنے
مشیروں کو بلایا او رکہا میں یہ چاہتاہوں کہ اس دریا پر پل بنایا جائے
مشیرو ں نے کہا جناب پل بنانے کے لئے پیسے نہیں ہیں بادشاہ نے کہا ایسا کرو
قرض لے کر پل بنالیتے ہیں جب پل بن جائے تو اس پر ایک روپیہ ٹیکس لگادیں گے
جوبھی اس پل سے گزرے گا ایک روپیہ دیتا جائے اور اس طرح کچھ عرصے میں ہماری
رقم پوری ہوجائے گی۔ بادشاہ کا مشورہ مان لیا گیا اور پل کی تعمیر شروع
کردی گئی۔ جب پل مکمل ہوگیا اور لوگوں کی ا?مدورفت شروع ہوئی تو ہر شخص سے
ایک روپیہ کا مطالبہ کیا جاتا اور وہ ایک روپیہ دیتے ہوئے گزرجاتا۔ کچھ
عرصے بعد مشیر بادشاہ کے پاس آئے تو بادشاہ نے پوچھا:ہا ں جی سنائیے پل لوگ
ایک روپیہ دیتے ہیں ؟میشر کہنے لگے جی حضور لوگ دے رہیں او رہمارا خرچ پورا
ہوگیا ہے کیا اب ہم ایک روپیہ لینا چھوڑدیں؟بادشاہ نے کہا اب یو ں کرو کہ
دو روپیے لیا کرو۔ مشیر یہ سن کر چلا جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد ا?تا ہے۔
بادشاہ پھر پوچھتے ہیں اب سناؤ کیا حال ہے مشیر کہتا ہے جناب ہمیں بہت
فائدہ ہوگیا اور بہت پیسے اکھٹے ہوگئے ہیں۔ اب پیسے لینا چھوڑدیں؟ بادشاہ
نے پوچھا: کیا کسی نے کوئی شکایت کی؟۔مشیر کہنے لگا جی نہیں۔ پھر بادشاہ نے
کہا اب یوں کرو کہ پانچ روپیہ ٹیکس کردو۔کچھ عرصے بعد مشیر پھر آئے اور پھر
وہی عرض کیا۔بادشاہ نے پوچھا کوئی شکایت؟مشیر نے کہا جی نہیں۔پھر بادشاہ نے
حکم دیا کہ یوں کرو پل کی دوسری جانب ایک جلاد کو چھڑی دے کر کھڑا کردو۔ جب
بھی کوئی پانچ روپئے دیتا ہوا پل پار کرکے دوسری جانب جائے تو جلاد اس کی
چھڑی سے مرمت کرے۔
مشیر حیران تو ہوئے لیکن پھر چل پڑے اور یہ حکم بجالائے۔ کچھ عرصے بعد مشیر
جب دوبارہ آئے اور بادشاہ نے پوچھا کہ کوئی شکایت تو نہیں آئی تو مشیر نے
عرض کی۔جناب ایک شکایت آئی ہے۔ بادشاہ بھی خوش ہوا کہ شکر ہے کسی کو تو عقل
ہے۔کہنے لگا ہاں بتاؤ کیا بات ہے؟ مشیر نے ادباً کہا جناب لوگ کہہ رہے ہیں
کہ دوسری جانب آپ نے جہا ں ایک جلاد کو کھڑا کیا ہے وہاں تین جلاد ہونے
چاہئیں ایک جلاد کی وجہ سے لائن لمبی ہوجاتی ہے اور ہمارا کھڑے کھڑے کافی
وقت ضائع ہوجاتا ہے۔بادشاہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔
ہماری حالت بالکل ایسی ہی ہوگئی ہے ظلم پر ظلم سہتے جارہے ہیں۔اپنا محاسبہ
کرنے کی ضرورت ہے اپنے گریباں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم مسلمان اس وقت
اس دنیا میں ایک قوم ہیں یا پھر ایک ہجوم ،ہمارے ساتھ جو بھی ظلم وستم ہوتا
جارہا ہے اس کو ہم برداشت کرتے جارہے ہیں اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے
کی کبھی ہمت نہیں کرتے حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے سے بھی گھبراتے
ہیں اگر کوئی ظلم وسفاکی کے خلاف باطل اور طاغوتی حکومت ونظام کے خلاف لب
کشائی کرتا ہے سچ کی آواز بلند کرنا چاتا ہے سفید کو سفید اور کالے کو کالا
کہنا چاہتا ہے تو اسے بھی مصلحت او رحکمت کا تقاضہ بتاکر خاموش رہنے کی
تلقین کردی جاتی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلمان پوری دنیا میں سختیاں
سہتے سہتے کچھ ایسے بے حس ہوگئے ہیں کہ سختیاں سہنا ظلم برداشت کرنا ذلت
ورسوائی جھیلنا اب عادات میں شامل ہوگیا ہے۔ایک بات حکمت کے ساتھ یہ سمجھ
لیجئے کہ نہ تو کوئی آپ کو مار سکتا ہے اور نہ ہی کوئی آپ کو رزق پہنچا
سکتا ہے۔ عزت وذلت اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسلکی وقومی جھگڑوں سے آگے نکل کر اسلام اور
مسلمانوں کی سر بلندی کے لئے کچھ کریں۔اپنی انا کو قربان کریں۔حکمت کے ساتھ
ہر قدم اٹھائیں۔علمائے حق کو اپنا امیر مانیں اور ان کی رہبری میں تن من
دھن کے ساتھ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔۔
تمام امت مسلمہ کے لئے دعاؤں کی خصوصی درخواست۔۔رہے نام اﷲ کا۔۔۔۔اسی کی
زمین ہے اسی کا نظام چلے گا۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔زندگی باقی تو بات
باقی۔۔۔اﷲ حافظ۔ |