تاریکیوں کا راج مگر پھر وہی لولی پاپ۔ ۔ ۔ ۔

راجہ صاحب کا اور اِک اور وعدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے عوام کو جھوٹے لولی پاپ سے بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ”توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کیلئے صدر اور وزیراعظم کی ہدایات پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جارہے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں بحران میں کمی واقع ہوگی، لہٰذا عوام، تاجر، صنعتکار اور سیاستدان صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی مسئلہ کو سیاست کی نذر کرنے کی بجائے حکومت سے تعاون کریں، اُن کا دعویٰ تھا کہ آئندہ ڈیڑھ ماہ کے اندر ایک ہزار میگاواٹ بجلی آئی پی پیز اور رینٹل پاور کے ذریعہ سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔“ گزشتہ دو سال سے محترم وفاقی وزیر مسلسل اِس قسم کے بیانات کہ ”گزشتہ سال کی نسبت اِس سال موسم گرما میں شہریوں کو بجلی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا، ملک میں بجلی کا بحران جلد دور ہوجائے گا، عوام کو سستی بجلی فراہم کی جائے گی، ملک میں سستی بجلی کے حصول کے وسیع ذخائر موجود ہیں، تھرکول پروجیکٹس کی بدولت 65 فیصد بجلی سستی ہونے سے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، بجلی کا بحران دور کرنے کے لئے پیپکو 11 سو میگا واٹ کا جنریشن پلانٹ لگائے گی، جس سے نیشنل گریڈ میں بجلی آنے سے عوام کو ریلیف ملے گا، 31دسمبر 2009ء تک بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا، جلد ہی عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی اور یہ کہ بجلی کے بحران اور پانی کے مسئلے کو میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔“ کے لولی پاپس سے ملک کی عوام کو بہلانے اور بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

لیکن ہر آنے والے دن کے ساتھ بجلی کے بحران میں کمی آنے کے بجائے مزید شدت ہی آئی اور اِس بحران نے پورے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، اس وقت حال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی کے ساتھ بجلی کا بحران بھی شدید سے شدید تر ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا غیض و غضب اب اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ملک کے کئی شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق اِس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال 5800میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے جبکہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، 24گھنٹوں میں 16اور 18گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ایک عذاب بن چکی ہے، ایک طرف شہری گرمی میں جھلس رہے ہیں تو دوسری طرف پینے کے پانی کے لئے بھی ترس رہے ہیں، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان ہر جگہ لوگ بجلی کیلئے سراپا احتجاج ہیں، ہڑتالیں ہورہی ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ جاری ہے، بعض مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کارخانے بند ہیں، کاروبار ٹھپ ہیں، جس کی وجہ سے معاشی صورتحال بھی ابتر ہو چکی ہے۔

بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہماری اپنی حکومتوں کی غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہے، اگر حکومتی سطح پر بروقت اور درست فیصلے کئے جاتے تو آج اِس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا، ستم ظریفی دیکھئے کہ چین نے توانائی کا بحران حل کرنے کے لئے ہمیں مدد کی پیشکش کی، لیکن ہم اِس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے، اسی طرح ایران بھی ہمیں فوری طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کیلئے تیار ہے، مگر حکومت پاکستان کی طرف سے اب تک اِس سلسلے میں کسی پیش رفت یا کسی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، خود پاکستان کے اندر پانی کے چھوٹے چھوٹے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں، جن سے مقامی سطح پر نہ صرف بجلی کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے بلکہ ترقی و خوشحالی کے دروازے بھی کھولے جاسکتے تھے، مگر اس مقصد کیلئے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اُس پر غور کیلئے ہمارے پالیسی ساز تیار نہیں، نتیجہ یہ کہ پانی کے وسائل بھی ضائع ہو رہے ہیں اور بجلی کی قلت بھی دور نہیں ہوپارہی، چند ماہ پیشتر بڑی شدت کے ساتھ رینٹل پاور ہاؤسز کے حصول کی باتیں ہوئیں، مگر مس مینجمنٹ کے باعث لاکھوں ڈالر ضائع ہوگئے اور یہ بھی طے نہیں ہوسکا کہ کرائے کے یہ بجلی گھر کہاں لگائے جائینگے، سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں میں عوامی مسائل حل کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی سنجیدہ کوششیں ہوتی نظر نہیں آتیں اور حکومت کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کے روئیے سے جہاں عوامی مسائل بڑھ رہے ہیں وہیں عوام میں احساس محرومی بھی اب اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود حکومت اور سیاسی حلقے اٹھارویں ترمیم کی خوشیاں منانے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینے میں مصروف ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا چند ماہ پیشتر حکومت نے غریب عوام کے پیسے سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے اشتہارات اخبارات میں چھاپے اور چھپوائے، اِن اشتہارات میں دعویٰ کیا گیا کہ”دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا یا پھر اِس پر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا،18 جولائی 2009 کو ایک اشتہار وزارت پانی و بجلی، حکومت پاکستان کی جانب سے قومی اخبارات میں شائع ہوا، جس میں کہا گیا کہ”نئے پاور پراجیکٹس، خوشحالی کی روشن راہیں، انشاءاللہ بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مختلف نئے پاور پراجیکٹس کی تکمیل سے دسمبر 2009 تک مزید ساڑھے 3ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی، ہمارا عزم، روشن پاکستان، پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نئی جہت، پاکستان الیکڑک پاور کمپنی“ہم صرف حکومت سے اتنا پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ نئے پاور پراجیکٹس کہاں گئے.... ؟وہ خوشحالی کی روشن راہیں کہاں گم ہو گئیں....؟وہ دسمبر 2009 تک ملنے والی ساڑھے 3 ہزار میگا واٹ بجلی کونسی زمین نگل گئی....؟آپ کے دعویٰ ِعزم اور اُس کے تحت روشن پاکستان آج کیوں اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے....؟اور کیوں پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نئی جہت نظر نہیں آ رہی....؟، ہم روشن پاکستان کے خواب دیکھانے والوں کو صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ جس روشن پاکستان کی وہ بات کرتے ہیں، آج اُس کی عوام اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب برداشت کر رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان صنعتی و زرعی محاذوں پر طویل عرصہ سے بحرانوں کا شکار ہے، ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا جنم لے لیتا ہے اور قوم کو مایوسی، ناامیدی اور مستقبل کے خدشات سے دوچار کر دیتا ہے، اس وقت سب سے بڑا بحران توانائی کا ہے، جس نے ملکی معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا ہے،آبادی میں اضافے اور شہروں کے پھیلاؤ کا تقاضا تھا کہ زرعی اور صنعتی ترقی کی رفتار بھی اِسی تناسب سے تیز کی جاتی، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اِس جانب کوئی سرگرمی دکھائی گئی، بلکہ موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح دعوؤں اور وعدؤں کے لولی پاپ سے وقت گزارنے کی کوشش کی، اس تناظر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہمارے حکمران عوام کے بنیادی مسائل سے چشم پوشی کرتے رہیں گے اور کب تک زبانی جمع خرچ سے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے دو برس مسائل پیدا کرنے اور پھر اسے حل کرنے میں ضائع کر دئیے اور اب جبکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو کوئی بعید نہیں کہ یہاں کے حالات بھی کرغزستان کی طرح کسی خونی انقلاب کی طرف نہ لے جائیں، کیونکہ عوام اِن بحرانوں سے اِس قدر عاجز آچکے ہیں کہ اب انہیں سوائے احتجاج کے کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دے رہا، لہٰذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف بجلی کی قلت کے بحران بلکہ مہنگائی، غربت، بے روز گاری جیسے سنگین مسائل سے ملک کی غریب عوام کو نجات دلانے کے لئے حکومت سنجیدگی سے عملی اقدامات کا راستہ اختیار کرے، ایسا نہ ہو کہ اِس حوالے سے مزید چشم پوشی عوام کے غیض و غضب اور غم و غصے کے طوفان کو ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دے جسے روکنا پھر کسی کے بس کی بات نہ ہو۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357827 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More