’’فریب ناتمام‘‘ جمعہ خان کی تہلکہ خیز سیاسی خود نوشت

تبصرہ:رئیس احمد مغل
’’فریب ناتمام‘‘ جمعہ خان کی خود نوشت ہے جو تاریخ پاکستان کے ایک پراسرار کردار کی تخلیق ہے۔ یہ داستان بتاتی ہے کہ کس طرح اجمل خٹک کے ساتھ کابل جا کر پختونستان کی تحریک چلانے والا جمعہ خان کن کن پر اسرار سرگرمیوں میں ملوث رہے اورکس طرح پراسرار انداز میں بے نظیر دور میں واپس پاکستان آیا۔ کتاب کے صفحے صفحے پر انکشافات ہیں۔ یہ کتاب پاکستانی تاریخ کے ایک اہم باب پر پہلی مرتبہ وہ تمام تفاصیل سامنے لانے کا باعث بنی ہے جو اس سے قبل کہیں مطبوعہ صورت میں نہیں ملتے۔ کتاب اور خود جمعہ خان سے تعارف کرانے والی شخصیت میرے بہت ہی محترم پروفیسر ڈاکٹر تاج الدین تاجور ہیں، جن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مشکل کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں، بہت جلد اکتا جاتے ہیں اور بہت معصومیت کے ساتھ باقی سارا بوجھ اپنے دوستوں کو منتقل کر دیتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی کچھ یوں ہی تھا۔ بنیادی طور پر جمعہ خان نے اپنی خود نوشت پشتو میں تحریر کی، اور پشتو بھی خدا کی پناہ ایسی افغانی اور پاکستانی پشتو کا مرکب تھا۔ اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر تاجور صاحب نے بہت جوش و خروش سے اس کا اردو ترجمہ اپنے ذمے لیا اور پھر ایک سہانے دن مجھے جامعہ پشاو ر کے ایریا سٹڈی سنٹر میں جمعہ خان سے متعارف کرانے کے بعد ، خود یہ جا وہ جا۔ اس کے بعد ترجمہ میں کون کون سے مراحل آئے، ان کے بیان کا محل نہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس وقت کی کیفیت لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی جب ایک طرف سے جمعہ خان صاحب کا ٹیلی فون آتا اور بہت سخت الفاظ میں پیش رفت کے بارے میں پوچھتے اور دوسری طرف پروفیسر تاجور انتہائی سنجیدگی سے کہتے کہ نہیں یہ کام بہت اہم ہے، اس کا اردو ترجمہ جتنا جلد ممکن ہو بہتر ہے۔

اس سب کے بعد، اردو زبان میں پشتو کی ایک اہم کتاب کا ترجمہ آپ کے سامنے سیاسی انکشافات کے ساتھ ساتھ اس کے تجزیے بھی اتنی ہی سنجیدگی سے پڑھے جانے کے متقاضی ہیں ، جس محنت سے یہ لکھے اور ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ترجمہ کی اشاعت میں ایک برس گزر گیا اور اب میں عالمی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کتاب کے بارے میں زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتا ہوں۔

’فریب ناتمام‘ کے ابتدائی صفحات میں ، مصنف کے خاندانی حالات اور پیدائش سے لیکچرر بننے تک کے واقعات درج ہیں۔ ساتھ ساتھ گاوں میں پشتون قوم پرست اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاست دانوں سے ابتدائی مراسم استوار ہونے کا ذکر ہے۔ اسی دور میں جمعہ خان اپنی زندگی کے اولین خفیہ دورہ کابل کا ذکر کرتے ہیں، جو اگر افشا ہوجاتا تو انھیں کالج کی لیکچرر شپ سے تو ہاتھ دھونے پڑتے۔ اس اصلاحیت نوجوان کی زندگی اچانک اس وقت بدلتی ہے، جب اجمل خٹک جیسے بڑے دانشور، شاعر، قوم پرست اور سیاستدان کی جانب سے اسے کابل جلاوطنی میں ساتھ دینے کا کہا جاتا ہے۔ یہاں سے طلسم ہوشربا کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہاں سے اس فریب ناتمام کا بھی آغاز ہوتا ہے جو بقول جمعہ خان ، تیسری دنیا کے ہر سیاسی کارکن کا مقدر ہے۔
اجمل خٹک کی تحریک ، پاکستان سے جانے والے قوم پرستوں کی عسکری تربیت، معروف سیاستدانوں مثلاََ افراسیاب خٹک کی عسکری اور سیاسی مصروفیات، حیات خان شیر پاؤ کے قاتلوں کی افغانستان میں آو بھگت جیسے امور پر جمعہ خان کے ڈائری کے اندراج واضح اور بے ریا ہیں۔ بھارت اور روس کس طرح اس تحریک کی مدد کرتا تھا، اور بھارتی سفارتخانے سے کس طرح نہ صرف مالی مدد کی جاتی بلکہ خفیہ پیغام رسانی اور سیاسی حکمت عملی تک میں امداد دی جاتی، یہ اس کتاب میں بہت سادہ الفاظ میں اور ترتیب سے درج کردیا گیا ہے۔ بھٹوصاحب کے بعد ضیا ء الحق کا دورہ کابل، باچا خان کا کابل سے ضیا ء الحق کو خط، الذوالفقار کی جانب سے پی آئی اے جہاز کا اغوا اور کابل انتظامیہ کا تعاون اور اس جیسے تمام امور جو پاکستان افغانستان موجودہ تعلقات کی بنیاد بنے، اس کتاب میں تفصیل اور ذاتی تجزیے کے ساتھ درج کیے گئے ہیں۔

پشتون بزرگ رہنما باچا خان کے حوالے سے بھی یہ کتاب بہت دلچسپ واقعات اور حقائق سے بھری پڑی ہے۔ جمعہ خان کے ذمہ باچا خان کے افغانستان میں سفر آخرت کے انتظامات سپرد تھے۔ وہ بغیر لگی لپٹی رکھے ان کی ذات اور ان کے خاندان کی کمزوریوں اور مالی بے ظابطگیوں کو بھی ایک غیر جانبدار مورخ کی سی بے رحمی سے سامنے لاتے ہیں۔ باچا خان کی خودنوشت لکھے جانے کی دلچسپ داستان اس کتاب میں ملتی ہے کہ عمر کے آخری حصے میں ان پر منکشف ہوا کہ ان کے ساتھ اصل دھوکا جناح نے نہیں، بلکہ گاندھی اور نہرو نے کیا ہے۔

اجمل خٹک کی ذات کے حوالے سے جمعہ خان کے تبصرے اور تجزیے کافی تلخ ہیں۔ مجھے کتاب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا گویا وہ اجمل خٹک کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ لیکن اجمل خٹک کے سفر آخرت تک جمعہ خان ایک عجیب سے کشش کے باعث ان سے جڑے رہتے ہیں۔ کابل کی جلا وطنی کے بعد اجمل خٹک کے حوالے سے ایک دلچسپ باب وہ ہے جہاں پرویز مشرف اجمل خٹک کو صدر پاکستان بنانے کا جھانسا دیتے ہیں اور ایک نئی پارٹی کی تشکیل ہوتی ہے۔

میری خوش قسمتی کہ اس کتاب کے ترجمے کے دوران کئی مرتبہ جمعہ خان صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا اور ان کی تحریر کو بھی ظاہر ہے کہ لفظ لفظ پڑھ کر ہی ترجمہ ممکن تھا۔ کتاب میں جہاں جہاں مصنف اپنی ذات کے بارے میں یا اپنی ذات کے حوالے سے دوسرے افراد کے اچھے برے رویے کا ذکر کرتا ہے، میرے نزدیک وہ قدرے نرگسیت کا شکار نظر آتا ہے۔

جہاں تک واقعات ، شخصیات اور محرکات کے تجزیے کا تعلق ہے وہ مصنف کی شخصیت کے بجا طور پر آئینہ دار ہیں۔ وہ بائیں بازو کے ایسے سیاسی کارکن ہیں جو اندھی تقلید کے قایل نہیں اور نظریے کے نام پر استحصال کے سخت مخالف ہیں۔ یہ رویہ ان کے کتاب کے عنوان سے لیکر کتاب کے آخری پیراگراف تک ظاہر ہے۔ ان کی کتاب کے آخری باب کو میں پاکستان میں کسی بھی نظریاتی سیاسی کارکن کے لیے، چاہے وہ دائیں بازو سے ہو یا بائیں سے، بہت اہم خیال کرتا ہوں۔ کتاب کے صفحات پر بکھرے کئی تجزیے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہیں، کئی تجزیے محض ماضی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی حیثیت ایک رائے کی حد تک ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں ہضم کرنا مشکل ہے۔ خاص طور ان افراد کے لیے جو کسی بھی سیاسی نظریے سے زیادہ علمی نکتہ نظر کو دیتے ہیں۔

یہ کتاب ایک نایاب خزینہ ہے جو پاکستان اور افغانستان کی جدید تاریخ پر اہم ترین معلومات فراہم کرتی ہے۔ سرد جنگ کی آخری دھائیوں میں ہمارے خطے میں جاری سیاسی اور عسکری بازی گری اور افغانستان پاکستان کے باہمی تعلقات پر اہم دستاویزکی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی تقریب رونمائی 24نومبر 2015ء کو سہ پہر تین بجے اسلام آباد نیشنل پریس کلب ، ایف 6، اسلام آباد میں منعقد ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سیاسی اور صحافتی حلقوں کے لئے کتاب بھرپور دلچسپی کا باعث بنے گی کیونکہ اس میں تہلکہ مچا دینے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
 

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.