موجودہ دور میں دہشتگردی علاقائی مسلہ نہیں رہا بلکہ یہ اب عالمی
مسلہ بن چکا ہے۔اس سے قبل دنیا اس مسلے کو ایک مخصوص علاقے یا خطے کا مسلہ
سمجھ کر مکمل سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی۔عمومی خیال یہی تھا کہ ایک
خاص خطے کا یہ مسلہ اسی جگہ تک محدور رہے گا۔مگر حالیہ فرانس حملوں کے بعد
دنیا کی آنکھیں کھلی ہیں اور اب یورپ اور وہاں کا کلیسا بھی اسے عالمی مسلہ
قرار دیتا ہے۔فرانس ،بیلجیم،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ہائی الرٹ
اور دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے لیے فورسز کے چھاپوں نے وہاں کے باسیوں کو
پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ بڑی قوتوں کا سابقہ کردار کیا تھااس کے برعکس اب
تمام دنیا کو یکجا ہو کر اس مسلے کے خاتمے کے لیے سوچنا ہو گا اور اس طریقہ
کار کے بارے میں سوچنا ہو گا جس کو اپنا کر اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا
سکتا ہے۔
عالمی دہشت گردی کا پہلا شکار ملک پاکستان ہی ہے۔ 9/11کے بعد امریکہ اور اس
کے اتحادیوں نے چند اسلامی ملکوں پر یلغار کر دی تھی۔ایسے میں پاکستان کی
مشکلات میں اضافہ ہوا ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا
ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں اس ملک کے اندر بیرونی شدت پسندوں
نے داخلی سہولت کاروں کے ساتھ مل دہشت گردی کی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔یہ
کاروائیاں جلد ہی اتنی شدت اختیار کر گئی تھی کہ اس نے ملکی سلامتی کی
بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔کیونکہ فوج ہی ملکی سلامتی کے دفاع کا پہلا
زینہ ہوتی ہے تو اس نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس جنگ کو لڑنے کے
لیے تمام تر امور اور فیصلوں کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے لیاجس کی
حکومتوں اور عوام نے تائید بھی کی۔
موجودہ دہشت گردی کا انداز انتہائی مشکل اور خطرناک ہے۔اس طرز کی جنگ میں
دشمن آپ کے اندر ہی موجود ہوتا ہے اس کی شناخت کرنا کئی مرتبہ ناممکن ہو
جاتا ہے۔دشمن دفاعی تنصیبات اور فوج کونشانہ بنانے سے پہلے عام لوگوں پر
خود کش اور جان لیوا حملے کرتا ہے ان میں اس قدر شدت ہوتی ہے کہ پوری قوم
اور اس کے اداروں کا مورال گِر جا تا ہے۔ایسے میں دہشت گرد کو تلاش کرنا
اور پھر اسے ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔مگر پاکستان فوج اور قومی سلامتی کے
دیگر اداروں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ۔تربیت کے
نظام کو بہتر بنایا ۔اتحادیوں سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کی اور ایک مشن کے
طور پر اس جنگ کا منظم طور پرآغاز کیا۔آج پاکستانی فوج اپنے اور عوام کے
اندر چھپے خطرناک دہشت گردوں کو شناخت بھی کر سکتی ہے اور مزید ان کے سہولت
کاروں کو بھی بے نقاب کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔اگرچہ کہ اس جنگ میں
اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی مد میں عالمی تعاون بھی حاصل رہا ہے مگر اس سے پہلے
اس جنگ میں کام آنے کے لیے اپنا سینہ اسی فوج کے جوانوں نے پیش کیا
۔پاکستانی فوج نے یہ جدید طرز کی جنگ خطر ناک ترین جنگلوں اور پہاڑوں میں
ہر طرح کے موسموں کی شدت میں بھی لڑی ہے اور پر ہجوم آبادیوں میں بھی دہشت
گردوں کا صفایا کیا ہے۔تجربہ،صلاحیت،پیشہ ورانہ امور اور جذبہ کے ہوتے ہوئے
پاکستانی فوج اب اس طرز کی کامیاب جنگ لڑنے والی دنیا کی واحد فوج بن چکی
ہے۔اب پاکستان میں بحال ہوتے ہوئے امن نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر
لیا ہے۔
جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورہِ امریکہ اسی پس منظر میں تھا ۔دنیا پاکستانی
فوج کی صلاحیتوں کو تسلیم کر چکی ہے اور وہ اب اس کے تجربات سے استفادہ
کرنا چاہتی ہے۔یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستانی جنرل کے دورے سے ایک روز قبل ہی
فرانس میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا ۔اس واقعہ نے اس دورے کی اہمیت کو
مزید بڑھا دیا ۔امریکہ میں جنرل کی ملاقاتوں اور مصروفیات نے بہت کچھ واضح
کر دیا ہے۔یورپ اور امریکہ اب اس جنگ کو سنجیدگی سے لڑنے کی بات کر رہے ہیں
نیٹو فورسز کے ہوتے ہوئے بھی وہ اب G20کے پلیٹ فارم سے اس جنگ کے لیے وسائل
اور فوج حاصل کرنا چاہتے ہیں پاکستان اس G20 گروپ کا ممبر نہیں ہے مگر یہ
ممالک اس جنگ کی قیادت کے لیے پاکستان کی ہی طرف دیکھ رہے ہیں ۔وہ اس کی
فوج کے تجربے،صلاحیت،پیشہ ورانہ امور اور جذبے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں
۔اگرچہ کہ یہ بات قبل از وقت ہے پر عین ممکن ہے کہ جنرل راحیل شریف کو ہی
اس نئی عالمی فوج کی قیادت کرنے کا کہا جائے جو عنقریب دہشت گردی کے خلاف
ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے میدان میں اترنے والی ہے۔ |