بے درد زما نے کے کچھ یہ بھی
فسانے ہیں
مابعد نائین الیون کا زخم ابھی مسلم اُمّہ کے دل میں ہراہی ہے کہ گزشتہ
دنوں پیرس میں ایک اوردل دہلانے والا المیہ وقع پذیر ہوا۔ یہ کیا ہوا؟ یہ
کیوں ہوا؟ کس کے ہاتھوں ہوا؟ کس کے دماغ نے سوچ کراسے ترتیب دیا؟ کس کے
سرگناہ درج ہوا؟ کون اس کا خمیازہ اٹھارہاہے؟ اوراس طرح کے ہزاروں سوال
ہرسوچنے والے دماغ میں اس وقت کلبلارہے ہیں۔میں یہاں اس موضوع پرکچھ خامہ
فرسائی نہیں کروں گا۔اسے کبھی کسی اورکالم کیلئے مؤخر کررہاہوں،یہاں صر ف
یہ کہنامقصودہے کہ ظاہر بین نظروں کے سامنے آنے والے نظاروں کے پیچھے اصل
میں کون سے کھیل کن کھلاڑیوں سے کس مقصد سے کھیلے جاتے ہیں ۔ اسی ضمن میں
افغانستان کے ایک عبرت انگیزواقعے کے مضمرات کی کتاب آپ کے سامنے کھولنے کی
جسارت کررہاہوں۔۲۰جون۲۰۰۸ء کا واقعہ ہے کہ کابل میں کھدائی کے دوران دو
گڑھوں سے لا شوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے تھے۔پچھلی چاردہائیوں سے
زائدافغانستان ایک شورش زدہ اور جنگ میں مبتلا ملک مانا جاتا ہے۔ اس دوران
حکمرا نوں نے اپنے مخالفین کو قتل کیااوریہ ناگفتہ بہ سلسلہ آج بھی جاری
ہے۔اقتدار کے طلب گاروں نے کشمکش اقتدار میں خون کے دریا بہائے ہیں، کشتوں
کے پشتے لگائے ہیں۔پہلے خون خوارروسی سر خ ریچھ اور بعدازاں فرعونی و
نمرودی طاغوت کا نمائندہ امر یکہ اپنی بے پناہ تخریبی قوت اورمظا لم کا
مظاہرہ کرتاجا رہا ہے۔اس دوران افغان ملیشیا غیر ملکی طاقتوں،ان کے ایجنٹوں
اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑتے رہے ہیں جوآج بھی جاری وساری ہے۔ایک
ایسے ملک میں کسی اجتماعی قبر نہیں بلکہ دو گڑھوں سے با قاعدہ تجہیز و
تکفین کے بغیر بس یونہی اٹھا کر پھینکی گئیں۱۶/لا شوں کا بر آمد ہونا کوئی
حیرت انگیز بات نہیں ہے ، حیرت بلکہ عبرت کا مقام یہ ہے کہ ان میں ایک
ڈھانچے کو سردار داؤدکے ڈھانچے کے طور پر شناخت کیا گیاتھا ،شاہ ظاہرشاہ کا
تختہ الٹنے والا جواس کابہنوئی بھی تھا!
افغانستان کو روس کی چراگاہ بنا نے کی بنیاد رکھنے والے،پاکستان کو آنکھیں
دکھا نے والے،پختونستان کے حامیوں کوافغانستان میں پناہ دینے اور وہاں سے
پاکستان کے ا ندر دہشت گردی کی کاروائیوں کیلئے بیس کیمپ فراہم کرنے والے
سردار داؤد کا بے کفن ڈھانچہ،جسے اس کے لباس اور جوتوں کی مدد سے شناخت کیا
گیا۔یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا!سردار داؤد ہی نہیں تمام آمر اپنی
زندگیوں میں ا پنے مخالفین کو بندوق کی نوک اورلوگوں کی تنقید و تجاویزاور
مشوروں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں لیکن جب تا ریخ کا پہیہ گھومتا ہے تو
سردار داؤدکی شناخت اس چہرے سے نہیں ہوتی جس کی ہیبت سے سارا ملک لرزتا تھا
بلکہ ا ن کے خون آلود کپڑوں اور دھول میں اٹے جوتوں سے ہوتی ہے۔چند ہفتے
قبل کسی نے شمالی اتحادکے رہنما عبداللہ عبداللہ کی زہرافشانیوں پران کو
یاددلایاتھا کہ صدیوں پہلے ان کے آباؤاجدادہندوستان پرقبضہ کرنے اوردلی میں
بیٹھ کرافغانہ پرحکومت کرنے والے آلِ تیمور بالآخراس نتیجے پر پہنچے تھے کہ
بہادر شاہ ظفر بلک اٹھا تھا!
کتنا ہے بد نصیب ظفر د فن کیلئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
لیکن بہادر شاہ ظفرا تناخوش نصیب ضرور تھا کہ دیارِ غیر میں ہی سہی،اسے دفن
کیلئے دو گز زمین مل گئی تھی اور اس کی قبر کی شناخت بھی قائم ہو گئی تھی ۔
آج بھی رنگون کی سیا حت کو جا نے والے چاہیں تو عقیدت کے پھول ان پر نچھاور
کریں یا شہنشاہیت پر تبریٰ بھیجیں،دعا کیلئے ہا تھ اٹھائیں ، چاہیں تو دو
منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی رسم نبھائیں،چاہیں تو عبرت پکڑیں یا اپنے آپ
کو صاحبِ قبر سے بالا تر سمجھیں۔ویسے تکاثر کا شکار اور عاجلہ کا طلب گار
انسان عبرت کم ہی پکڑتا ہے ۔اگر انسان عبرت پکڑنے کا عادی ہوتاتوبہادر شاہ
ظفر کے مدفن کے قرب وجوارمیں میانمارکے حاکم مسلسل آمریت اور فسطائیت کے
راستے پر نہ چل رہے ہوتے۔ہوسِ اقتدار عروج پرنہ ہو تا ا ورروہنگیا میں
انسانی حقوق کی بد تریں پامالیاں نہ ہوتیں۔اگر انسان عبرت پکڑتا تو بہادر
شاہ ظفر کی جلاوطنی اور دیار ِغیر میں یاس بھری موت،شہزادوں کے قتل،
شہزادیوں اور شہزادوں کی ہندوستان کی وسعتوں میں ہی نہیں بلکہ پایۂ تخت
شاہ جہاںآباد میں دستِ سوال دراز کرنے کی عبرت ناکیوں سے آگاہ مسلمان دین
سے دوری،حبِ دنیا،آخرت سے بے نیازی،مال ِدنیا کی نہ مٹنے و الی بھوک،
اصولوں کی قیمت پرذاتی اقتدار کی لالچ،غیروں پر کرم اور اپنوں پر ستم کی
رذالت کا شائبہ تک بھی نہ پا یا جاتا۔لیکن ہوا کیا؟؟؟ پاکستانسے لے کر بے
نظیر بھٹو تک میں غلام محمد سے سکندر مرزا تک،ایوب خان سے یحیٰی خان
تک،ذوالفقارعلی بھٹو سے ضیاالحق تک،نوازشریف سے لیکر بے نظیر بھٹو تک اور
بعدازاںپرویز مشرف بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے،اپنی مطلق العنانیت کو
آئین و قانون بنانے، اپنے زیر دستوں پر مظالم ڈھانے اور اپنے اوپر براجمان
غیر ملکی زبردستوں کو سلام کرنے،غیروں کی جی حضوری کر نے،ان کی خوشنودی
اورسرپرستی کے سائے میں ا نہی کے منشاکے مطابق اپنوں پرستم کرنے میں مصروف
رہالیکن انہیں کبھی نہ تو بہادر شاہ ظفر کی غر یب الدیار ی سے خوف آیا نہ
شاہ فاروق ، شہنشاہ ِایران اور صدام کے انجام سے سبق ملا۔ان کا دھیان اس
طرف گیا ہی نہیں کہ پاکستان کے پہلے آمر غلام محمد کو مسلما نوں کے قبرستان
میں دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوا تھااور نہ ہی اس خبرنے انہیں کچھ سوچنے
پرآمادہ کیا کہ سردار داؤد کو نہ غسل نصیب ہوا اور نہ ہی کفن، نہ نماز
جنازہ ہوئی نہ با ضابطہ تدفین۔انہیں ایسے گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا گیا
جیسے جانوروں کی لاش ٹھکانے لگائی جاتی ہے۔کئی ایکڑ پرپھیلے شاہی محل کے
ناز ونعم میں پلے اس شخص کو اپنی الگ قبر بھی نہ ملی۔فاعتبرو ا یااولی
الابصار!
ہم بات کر رہے تھے سردار داد کے ڈھانچے کی دریافت کی، یہ ستر کی دہائی تھی
جب سردار داؤد نے ظاہرشاہ کا تختہ الٹا تھا اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا
نیا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے سردار داؤد کو اسلام آباد
بلایا،انہیں سمجھایا اور ان کی مدد کا بندوبست بھی کیا۔آج افغانستان کے
حالات کا ذمہ دار جنرل ضیا الحق کو ٹھہرانے ،بین الاقوامی سا زشوں کا سا را
ملبہ ایک فرد پر ڈالنے وا لے اور افغانستان میں جاری شورش کے پاکستان پر
پڑنے والے سارے اثرات کا ذمہ دار مذ ہبی جماعتوں کو قرار دینے والے نہایت
چالاکی سے ا فغانستان کے معاملات کے اہم ترین کردار کا تذکرہ گول کر جاتے
ہیں ۔نئی نسل تو خیر اس سارے معا ملے سے نا واقف و بے خبر ہے لیکن نذیر
ناجی اور ان کی قبیل کے دیگر لوگ جب افغانستان کے حوالے سے ضیاء الحق اور
ایک مذہبی جماعت کو جی بھر کر کوس رہے ہوتے ہیں،تب وہ اس حقیقت کو چھپا بھی
رہے ہوتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سردار داؤد کی سازشوں میں پس ِ پردہ
کیا رو ل ا دا کیا تھا ؟ عصری تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ذوالفقار علی
بھٹونے انجینئر گلبدین حکمت یار کو افغانستان میں جوابی انتشار پیدا کر نے
کیلئے وسائل فراہم کئے۔اگلے مرحلے پربرہان الدین ربانی بھی اس منصوبے میں
شامل کر لئے گئے۔انجینئر گلبدین حکمت یار سید مودودؒی کی تحریروں سے متاثر
اور ان کی فکر کے ہم نوا تھے، اس لئے پاکستان میں ان کی ہمدردیاں جماعت
اسلامی کے ساتھ تھیں۔ ضیاالحق نے افغانستان میں روس کے با قاعدہ داخلے کے
بعد انہی راستوں اور رابطوں کو استعمال کیا جس کی تعمیر پاکستان کے ذہین
ترین سیاست دان ذوالفقار علی بھٹونے کی تھی۔ اگر افغانستان میں روس کی با
قاعدہ فوجی مداخلت کے وقت ذوالفقار علی بھٹوپا کستان کے وزیراعظم ہوتے تو
وہ انجینئر گلبدین حکمت یار کو ضیاالحق سے بہت بہتر انداز سے استعمال کرتے۔
ذوالفقار علی بھٹونے ہندوستان سے ۹۰ہزار فوجیوں کی وطن واپسی کے لئے شملہ
مذا کرات کے دور ان بھا رتی سیاست کا جو رخ دیکھا تھا ،اس کے نتیجے میں
انہوں نے صرف ایٹمی پلانٹ ہی نہیں لگایا ،صرف ڈاکٹر عبدالقدیر کی سرپرستی
ہی نہیں کی تھی بلکہ انجینئر گلبدین کو بھی مزاحمت کیلئے تیار بھی کیا
تھا۔جاگیردارانہ پندار کے حامل ذوالفقار علی بھٹونے شملہ میں اندرا گاندھی
کے ہا تھوں اپنی انا کو لگائے گئے کچوکوں کا بدلہ لینے کیلئے ہندوستان کے
دا خلی انتشار سے فائدہ اٹھانے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے شمال مغرب میں
نئے دوست تلاش کئے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت،ان کی عوامی مقبولیت اور
شخصی سحر سے خوف زدہ لوگوں اور بین الاقوامی سا زشیوں نے ذوالفقار علی بھٹو
کو ٹھکانے لگا دیا۔بد قسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی جسے بھٹو
کی بیٹی کے خون سے سینچا گیا، کوافغانستان میں پاکستانی مفاد کی جنگ لڑنے
والوں کے خلاف صف آرا ء کر دیا گیاتھا۔ذوالفقار بھٹونے پختونستان کی سا زش
کرنے والوں کو کا بل میں غیر محفوظ کر دیا تھالیکن ان کے بے بصیرت وارثوں
نے حلف وفاداری کے موقع پراس چغہ پوش مسخرے کومہمان خصوصی بنایاجوصرف کابل
کے محل تک محدود ہر روزاپنے محسن پاکستان کو دھمکیاں دیتاتھا۔
۱۹۷۹ء کو ذوالفقار علی بھٹوکو پھا نسی دی گئی تھی ۔ بھٹو کے نام نہاد
وارثین نے اپنے دورِ اقتدارمیں اندھیرامسلط کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی
،ملکی دولت کوبے دریغ لوٹ کراب اٹھارہ بلین ڈالر کے اثاثوں کے مالک توبن
گئے لیکن کوئی نہیں سوچ رہا کہ نام نہاد بڑی طاقتوں کا طریقۂ واردات کیا
ہوتا ہے؟ روس نے ظاہر شاہ کے خلاف سردار داؤد کی حمایت اپنے مقاصدکے لئے کی
تھی لیکن جب سردار داؤدا پنے حصے کا کام کر چکا اور روس کو ایک زیادہ روس
نواز حکومت کی ضرورت محسوس ہوئی تو سردار داؤد کو قتل کر کے لا وارثوں کی
طرح زمین میں گاڑ دیاگیا ۔جب روسی فوجیں واپس چلی گئیں اور ضیاالحق کی
ضرورت نہ رہی توان کے طیارے کو بڑے سلیقے سے اپنے سفیر جان ریفل سمیت بلاسٹ
کر وادیا ۔حد درجہ سفاک امریکیوں نے ضیاالحق کو محفوظ ہونے کا تاثر دینے کے
لئے ہی اپنے سفیرکوتوپ کے گولہ کے طورپراستعمال کیا۔ انہی امریکیوں نے عراق
میں صدام کوایران سے جنگ کے لئے مدد دی ،کویت پرعارضی قبضہ جمانے کاحوصلہ
دیااورپھر انہیں کُردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاراستعمال کر نے اورتباہی
پھیلانے کے جرم میں ٹانک دیاگیا اور......میں یہ کالم لکھتےوقت سوچ رہا ہوں
جب امریکہ اس خطے میں اپنا ہدف پورا کر لے گا تو ہمارے حکمرانوں کے ساتھ
کیا سلوک کرے گا؟
شاہ ِایران رضا شاہ پہلوی جیسا،ضیاالحق جیسا، سردار داؤد جیسا یا صدام و
قذافی جیسا ؟
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ جو شخص
چراغ با نٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں |