عادلیت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد فضیلت اور علو مرتبت کے اعتبار سے صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔
تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ :
الصحابة كلهم عدول (تمام صحابہ کرام عادل ہیں) !!

فرمانِ الٰہی ہے :

قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصْطَفٰیؕ آٰللہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿۵۹﴾ؕ

ترجمہ:تم کہو سب خوبیاں اللّٰہ کو اور سلام اس کے چُنے ہوئے بندے پر کیا اللّٰہ بہتر یا ان کے ساختہ شریک

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا۔
بحوالہ : تفسیر طبری -

ابن جریر طبری رحمۃ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وہ بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھی اور وزیر بنایا۔
بحوالہ : تفسیر طبری

سورۃ الفتح کی آیت:29 میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1 : وہ کافروں پر سخت ہیں
2 : آپس میں رحم دل ہیں
3 : رکوع و سجود کی حالت میں رہتے ہیں
4 : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں
5 : سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے
6 : ان کے شرف و فضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود تھے
7 : ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقت ور ہو گئے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔

بالا صفات کے حامل اور ایمان اور عملِ صالح کے مجسم صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "
اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
بحوالہ : مسند احمد ، جلد اول -

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
" مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا ، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا ، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا ، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَقْلِ دِينِهِ ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ ، ... "
اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ص کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے۔
بحوالہ : حلية الأولياء لأبي نعيم

صحابۂ کرام کے حقوق
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .
( صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )
ترجمہ :
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تممیں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔

تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلیاللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔
{ مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 }

صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ،
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ،
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ،
رضوان اللہ عنہم اجمعین رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ،
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور کتاب "الإصابة في تمييز الصحابة" میں "صحابی" کی تعریفیوں کی ہے :
الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم | مؤمنا به ، ومات على الإسلام
صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا۔

پھر درج بالا تعریف کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمة اللہ مزید کہتے ہیں :
فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، | ومن روى عنه أو لم يرو ، ومن غزا معه أو لم يغز ، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه ، | ومن لم يره لعارض كالعمى . | ويخرج بقيد الإيمان من لقيه كافرا ولو أسلم بعد ذلك إذا لم يجتمع به مرة أخرى .

اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو ۔۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کو مانتا تھا
پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی
خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصہ کے لیے
خواہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو
خواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو
خواہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار نہ کر سکا ہو

ہر دو صورت میں وہ "صحابئ رسول" شمار ہوگا۔
اور ایسا شخص "صحابی" متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔

بحوالہ :
الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8

فضائل اصحاب النبی (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے ضمن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عن عبد الله بن عمر، قال: من كان مستناً فليسن. ممن قد مات، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا خير هذه الأمة، أبرها قلوباً، وأعمقها علماً، وأقلها تكلفاً، قوم أختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه، فتشبهوا بأخلاقهم وطرائقهم فهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا على الهدى المستقيم
اردو ترجمہ : ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد
اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی تھے ، اور صراط مستقیم پر گامزن تھے۔
بحوالہ :
حلية الأولياء لأبي نعيم ، ج:1 ، ص:162

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب "الفقہ الاکبر" کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں :
ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير
ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی

کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :
یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، ص:71

الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں :
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہیہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔
بحوالہ : شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن - 1948ء

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "العقیدہ الطحاویۃ" میں لکھا ہے :
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔
بحوالہ : شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:467

امام المحدثین و سید الفقہاء حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری (م : 256ھ) نے اپنا عقیدہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔

میں نے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی ہے اور ایک ہی بار نہیں بلکہ کئی بار میں نے ان سے ملاقات کی۔ تمام بلاد اسلامیہ حجاز ، مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ، واسط ، بغداد ، شام ، مصر ، جزیرہ میں 46 سال سے زیادہ عرصہ ان سے یکے بعد دیگرے ملتا رہا ہوں ، وہ سب اس عقیدہ پر متفق تھے کہ ۔۔۔۔ دین قول و عمل کا نام ہے ، قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں وغیرہ۔ اور انہی اعتقادی مسائل میں سے ایکیہ بھی کہ :
وما رأيت فيهم أحدا يتناول أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قالت عائشة أمروا أن يستغفروا لهم
( میں نے اپنے ان شیوخ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہو ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے : لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بخشش کی دعا کریں )۔

امام بخاری نے یہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے بلاد اسلامیہ کا ذکر کر کے وہاں کے اپنے بعض مشائخ کا نام بہ نام تذکرہ کیا ہے۔
بحوالہ : شرح أصول إعتقاد أهل السنة والجماعة - اللالكائى / ص: 173 اور 175 : آن لائن ربط

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الباری "ھدی الساری" (ص:479) میں ذکر کیا ہے کہ :
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کی تعداد 1080 (ألف وثمانين) ہے۔ ان تمام کے اسماء کا ذکر یقیناً طویل ہوگا۔ اس لیے اس ذکر کو نظرانداز کرتے ہوئے عرض ہے کہ ۔۔۔ یہ سب شیوخ کرام اس بات پر متفق تھے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے بارے میں ہمیشہ بخشش کی دعا ہی کرنا چاہئے اور انہیں برا کہنے یا ان کی عزت و عصمت کو داغدار کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے !
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 350489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.