وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا"کی تفسیر (قسط اول)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو ۔ (آل عمران : ١٠٣)
اللہ کی رسی کا بیان :
اللہ کی رسی کی متعدد تفسیریں کی گئیں ہیں ‘
امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کی تفسیر
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی رسی سے مراد جماعت ہے ۔
قتادہ نے کہا اللہ کی مضبوط رسی جس کو ہمیں پکڑنے کا حکم دیا ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ نیز قتادہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد عہد اور اس کا حکم ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ صراط مستقیم پر شیاطین آکر اپنی طرف بلاتے ہیں سو تم اللہ کی رسی کو پکڑ لو ‘ اللہ کی رسی کو پکڑ لو‘ اللہ کی رسی کتاب اللہ ہے ۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتاب اللہ ‘ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ۔
ابوالعالیہ نے کہا اللہ کی رسی پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو ۔ (جامع البیان ج ٤ ص ١٩٥ ‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘١٤٠٩ ھ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ روایت کرتے ہیں :
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہو گے ‘ ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے کتاب اللہ ‘ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکی ہوئی ہے ‘ اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز الگ نہیں ہوں گے حتی کہ میرے حوض پر آئیں گے ۔ پس دیکھو تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہو ۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٥٤١ مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
امام عبداللہ بن عبدالرحمان داری متوفی ٢٥٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس راستہ پر شیاطین آتے ہیں اور ندا کرتے ہیں اے اللہ کے بندے راستہ یہ ہے ‘ توتم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ‘ کیونکہ اللہ کی رسی قرآن ہے ۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ٣١٠ ‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان)
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی رسی کی تفسیر قرآن مجید ‘ اللہ کے عہد ‘ دین ‘ اللہ کی اطاعت ‘ اخلاص کے ساتھ توبہ ‘ جماعت مسلمین ‘ اخلاص کے ساتھ توحید اور اسلام کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ تمام اقوال متقارب ہیں کیونکہ جو شخص کنویں میں اتر رہا ہوتا ہے وہ مضبوطی کے ساتھ رسی کو پکڑتا ہے تاکہ کنویں میں گر نہ جائے ‘ اسی طرح جو مسلمان قرآن مجید ‘ اللہ کے عہد ‘ اس کے دین یا اس کی اطاعت یا جماعت مسلمین یا اسلام کو مضبوطی سے پکڑے تو وہ جہنم کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اس لیے ان امور کو اللہ کی رسی کہا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تفرقہ نہ ڈالو ۔
اس آیت میں تفرقہ کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ عقائد میں ایک دوسرے کی مخالفت کرکے مختلف گروہ نہ بناؤ یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ عداوت اور مخاصمت نہ رکھو اور دنیاوی امور اور اغراض باطلہ کی وجہ سے ایک دوسرے کی مخالفتت نہ کرو ‘ اور فروعی اور اجتہادی مسائل میں مجتہدین اور ائمہ فتوی کا اختلاف اس اختلاف کی ممانعت میں داخل نہیں ہے ۔
عقائد حقہ میں اختلاف سے ممانعت :
عقائد میں اختلاف کی ممانعت اس لیے ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء علیہم السلام کے عقائد واحد تھے ۔ الوہیت ‘ توحید ‘ فرشتے ‘ آسمانی کتابیں ‘ نبوت اور رسالت ‘ تقدیر ‘ اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کا واجب ہونا اور اس کی ناشکری کا حرام ہونا ‘ وحی سے حاصل شدہ احکام پر عمل کرنے کا وجوب اور استحباب وغیرہ ‘ مرنے کے بعد اٹھنا اور جزاء اور سزا کو ماننا یہ وہ عقائد ہیں جن کو اصول اور دین کہا جاتا ہے ‘ حضرت آدم سے لے کر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کسی نبی کے دور میں ان میں اختلاف جائز نہیں رہا کیونکہ حق بات صرف ایک ہی ہوتی ہے اس میں اختلاف نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(آیت) ’’ فما ذا بعد الحق الا الضلال فانی تصرفون ‘‘۔ (یونس : ٣٢)
ترجمہ : سو حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے ؟ تم کہاں حق سے پھرے جا رہے ہو ۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہود کے اکہتر یا بہتر فرقے تھے ‘ نصاری کے بھی اسی طرح تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت بنی اسرائیل کے برابر برابر عمل کرے گی حتی کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ کھلم کھلا بدکاری کی ہو تو میری امت میں بھی لوگ اس طرح کریں گے ‘ اور بنی اسرائیل کے بہتر فرقے تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے اور ایک فرقے کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ‘ پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کونسا گروہ ہوگا ؟ فرمایا جس ملت پر میں اور میرے اصحاب ہیں ۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٣٧٩ ۔ ٣٧٨ مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
امام ابن ماجہ نے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٧ ‘ مطبوعہ کراچی)
امام عبداللہ بن عبدالرحمان داری متوفی ٢٥٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے فرمایا تو سنو تم سے پہلے اہل کتاب کے بہتر فرقے تھے ‘ اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ‘ بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک فرقہ جنت میں ہوگا ۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ١٥٨ ‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان)
امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل کے اکہتر فرقے تھے اور عنقریب میری امت کے بہتر فرقے ہوں گے اور ایک فرقے کے سوا سب دوزخ میں ہوں گے ‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کونسا فرقے ہوگا ؟ آپ نے مٹھی بند کی اور فرمایا جماعت ‘ تم سب مل کر اللہ کی راسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ نہ کرو ۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ٢٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
ان احادیث میں جس امت کے اکہتر یا بہتر فرقے بیان کیے گئے ہیں اس سے مراد امت دعوت بھی ہو سکتی ہے اور امت اجابت بھی ‘ لیکن زیادہ تر علماء کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد امت اجابت ہے ۔ پھر علامہ قرطبی اور دیگر علماء نے بہتر فرقے بھی گنوائے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ علامہ قرطبی ساتویں ہجری کے ہیں اور اب مزید سات سو سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں کئی نئے فرقے وجود میں آچکے ہیں ‘ اور قیامت تک نہ جانے اور کتنے فرقے وجود میں آئیں گے اس لیے تحقیق یہ ہیکہ ان فرقوں کے مصداق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو معلوم ہیں ‘ اور وہ فرقہ نجات یافتہ ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواد اعظم سے تعبیر فرمایا اور بعض احادیث میں فرمایا جو میری سنت اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہے اس کو کامل نجات ہوگی اور باقی فرقوں میں سے جن کی گمراہی کفر کی حد تک پہنچ گئی جیسے مرزائی یا شیعہ کے بعض فرقے وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جن فرقوں کی گمراہی کفر تک نہیں پہنچی جیسے معتزلہ اور بعض شیعہ وہ اپنی بد عقیدگی اور بدعملی کی سزا پاکر دوزخ کے عذاب سے نجات پاجائیں گے ۔
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 350453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.