جیسا کہ ہر با شعور شخص جانتا ہے کہ حکومت کا کام ملک
کیلئے سود مند قوانین بنانا اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوتا ہے ،
اور ابلاغ عامہ کا کام قوم کی ذہن سازی کرنا اور غلط صحیح کی نشاندہی کرنا
ہے۔ حکومتوں کی جانب سے اگر اقتدار مضبوط کرنے کی بجائے عوام پر توجہ دی
جائے تو قوم کی بہتر ذہنی و اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ پاکستان میں برسر اقتدار
آنے والی حکو متیں اگر عوام پاکستان کے مسائل کا ازالہ کرتیں، اور ہر سیاسی
مصلحت سے بالا تر ہوکر خالصتاً عوام کے مسائل کے حل لئے اقدامات کیے جاتے
تو یقینا عوام پاکستان کی بہتر اخلاقیات دیکھنے میں آتی اور آج ملک صحیح
سمت میں گامزن ہوتا، ریاستی ادارے مظبوط ہوتے۔قوانین پر بلا امتیازعمل
درآمدسے معاشرہ مہذب بنتا ہے۔ انگنت مسائل سے دوچار ہمارے ملک میں طالبان
کا خاتمہ ہو یا دہشتگردی کی روک تھام، کرپشن سے چھٹکارہ ہو یا اخلاقیات کا
تحفظ، کتنے ہی طاقتور آپریشن کرلیے جائیں یا جدید قوانین کیوں نہ بنالئے
جائیں، قوم کی بہتر ذہنی اور اخلاقی تربیت اور اصلاح معاشرہ کے بغیر ملک سے
بد امنی ، کسی طور ممکن نہیں نظر نہیں آتی۔ دنیا بھر میں آج زندہ و جاوید
قوموں کی فہرست وہ ممالک شامل ہیں جہاں عوام کی کردار سازی اور اخلاقی
تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اور جنہیں نظر انداز کیا گیا وہاں خانہ جنگی
اور جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی برائیوں نے جنم لیا ہے۔ اسی قسم کی
کیفیت کچھ ہمارے یہاں بھی ہے،14اگست1947 کو لا زوال قربانیوں کے بعد
پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا تو قیام پاکستان کا مقصد ایک
اسلامی ، فلاحی ریاست کے طور پر تھا مگر مملکت خداداد میں ہر آنے والی
قیادت نے قیام پاکستان کے مقصد اور ملک وقوم کی تعمیر و ترقی کوپس پشت ڈال
کر اقتدار اور سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں ملک میں کبھی
الیکشن اور الیکشن نما سلیکشن ہوتا رہا، کبھی جمہوریت کبھی آمریت، کبھی
مارشل لاء کے زریعے نت نئے تجربات آزمائے گئے جس سے نہ صرف ادارے تباہ ہوتے
رہے بلکہ قوم صحیح سمت نہ ملنے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور حکمران
اپنے اقتدار کی کھینچا تانی میں قوم کو رو ندتے ہوئے آگے نکلتے رہے۔یہی
بنیادی وجہ ہے کہ آج حکمران طبقہ اقتدار کی حرص و ہوس اور مراعات میں بہت
آگے اور قوم بہت پیچھے کہیں رہ گئی ہے۔ برسوں سے مروجہ ضابطوں پر حکمران آج
بھی ا سی طرح کاربند ہیں اور ا نکی اقتدارکی ہوس آج بھی ا سی جوبن کے ساتھ
قائم ہے، اور پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار قوم اب مذید تباہی کی طرف بڑہ رہی
ہے جبکہ حکمران اور ادارے ملک کی بااثر طاقت کے طور پر اپنے اپنے مفادات کی
جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
قوم کس طرف جارہی ہے ہم آئندہ نسل کو کیا دینے جا رہے ہیں اسکی کسی کو فکر
نہیں ہے۔اڑسٹھ برس سے بکھری قوم کو آج بھی یکجا کرنے یا سمیٹنے کے لئے
اقدامات نہیں کئے جارہے۔ریاست کا بااثر ستون اوردور حاضر کی بااثر طاقت
میڈیاجو بکھرے معاشرے کو ایک مضبوط قوم بنانے میں خاطر خواہ کردار ادا
کرسکتا ہے بھی اپنی ریٹنگ کیلئے قوم کو دوسروں کے غیر اخلاقی کلچر میں
دھکیل رہا ہے۔ مارننگ شو سے لیکر نیوز بلیٹن تک ، بچوں کے پروگرامز سے لیکر
ڈراموں تک سب پاکستانیت کی بجائے غیرملکی تہذیب سے متاثرہ دکھائی دیتے ہیں
اور عوام جب یہ سب کچھ صبح سے رات تک دیکھتے ہیں تو اسکے اثرات سے کیسے
محفوظ رہ سکتے ہیں۔غریب کی جھونپڑی سے لیکر محلات تک سب اپنی اپنی حیثیت
اور پہنچ کے مطابق مغربی تہذیب اور غیروں کی ثقافت کے متاثرین ہیں۔ شادی
بیاہ کی تقریب سے لیکر خالصتاً مذہبی تہوار وں تک بھی غیر تہذیبی اثر
نمایاں ہے۔ سرکاری یا نجی سطح پر کوئی تقریب ہو، سیمینار ہو یا ثقافتی شو،
تہذیبی اقدار کے نام پررقص و سر ور کی محافل کا انعقاد لازمی امر ہے۔ جبکہ
ملک کے بیشتر نام نہاد دانشور اور روشن خیال طبقہ اغیار کی گندی و کھوکھلی
تہذیب میں سانس لینا فخر سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ اڑسٹھ برسوں میں
فرقہ واریت،لسانیت اور اقربا ء پروری،کا بیج اس سلیقے سے بویا گیا ہے کہ کہ
آج ہر کوئی ان مذکورہ حدود میں مقید ہے، ہر فرد کی سوچ میں فرقہ واریت،
لسانیت اور قومیت اتنی رچ بس چکی ہے کہ کوئی ان حدود سے باہر آنے کو تیار
نہیں۔ کوئی بھی معاملہ ہو یا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو ا سے مذہبی حسب نسب
اور لسانیت کی کسوٹی میں پرکھا جاتا ہے اور بچی کچی کسر اقربا پروری میں
پوری کی جاتی ہے۔اور ان تمام عوامل میں انتہا پسندی لازمی امر ہو چکا ہے ۔کوئی
مذہبی ہے تو انتہا کا مذہبی اور کوئی لبرل ہے تو انتہا کا لبرل۔ یہی حال
قومیت کا ہے سندھی، پنجابی، سرائیکی،ہزارہ، پشتون اور ا ردو بولنے سب
علیحدہ علیحدہ پہچان کو قابل فخر جانتے ہیں۔ ہر قوم دوسری قومیت سے نہ صرف
فاصلہ رکھتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلا ف سوچتے ہیں۔
یہ فرق بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ ہے اور یہی فرق ان جماعتوں
کے زندہ رہنے کی وجہ ہے۔کیو نکہ یہ فرق اگر ختم ہو جاتا ہے تو اس کی بنیاد
پر سانس لینے والی تمام جماعتیں دم توڑ دیں گی جوکہ ایسا وہ کبھی ہونے نہیں
دیتیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ جس دن ان جماعتوں کا عوام میں قائم کردہ یہ
فرق ختم ہوگا اس دن انکی پہچان صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے
ہوگی۔عوام کے درمیان قائم کردہ اسی فرق کی بنا پر آج ملک کا ہر فرد دوسرے
فرد سے کھچاؤ میں مبتلاہے۔ ایک علاقہ یا قبیلہ دوسرے علاقے یا قبیلے سے ا
لجھا ہوا ہے اور ایک دوسرے کیخلاف اپنا حق چھینے جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے
ہیں۔دوسری جانب ہر شہری کو حکومت و حکومتی اداروں سے اورحکومت و حکومتی
اداروں کو شہریوں سے، عوام کو پولیس سے اور پولیس کو عوام سے کسی نہ کسی
مسئلے پرایک دوسرے سے زیادتی کی شکایت رہتی ہے۔ ریاستی ادارے حکومت سے
نالاں ہیں تو حکومت اداروں کی حدود کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ تناؤ کی سی
کیفیت سے دوچار معاشرے میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ملک کے چپڑاسی سے لیکر
اعلیٰ افسران تک سب کرپشن کے بیمار ہیں۔ سرکاری دفاتر میں افسران اول تو
آفس آنا گوارہ نہیں کرتے اگر بھولے بسرے کبھی آ بھی جائیں تو کام نہیں کرتے۔
اگر کسی کا کام کرنا بھی پڑتا ہے تو ا سکے الگ سے پیسے ہوتے ہیں کیونکہ
تنخواہ تو صرف آفس آنے کی ہوتی ہے کام کرنے کی نہیں۔ صحت جیسے حساس شعبے کی
یہ حالت ہے کہ ڈاکٹرز اسپتالوں میں کم اپنے پرائیویٹ کلینکس میں زیادہ
دستیاب ہوتے ہیں اور میڈیسنز ان کمپنیوں کی تجویز کرتے ہیں جوگاڑی سے لیکر
بیرون ملک کی سیر تک کا انکے لئے انتظام کرتی ہے، اسطرح انہیں دوائیوں کی
معیاد اوراثرات کے برعکس اپنے کمیشن سے غرض ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کا یہ
حال ہے کہ یہاں اساتذہ کی عدم دستیابی کی بنا پرپڑھائی کم شادی بیاہ کی
تقریبات زیادہ ہوتی ہیں۔سرکاری صحت اور تعلیم کی اسی زبوں حالی کی بنا پر
ہر شخص پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا
ہے، فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑتی ہے۔قوم کی
صحیح سمت کا اندازہ افراد کی درست سمت سے ہوتا ہے۔ لہذا قوم بنانے سے پہلے
افراد بنائے جاتے ہیں اورافراد کے بننے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ حکومت
وقت اورذارئع ابلاغ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ دونوں عوامل کی باہم اثر انگیزی
انسانی معاشرے کی بقاء اور تعمیر و ترقی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔جبکہ
دونوں عوامل کا منفی کردار افراد و قوم کے بگاڑ کا اولین سبب بنتا ہے۔
بدسکونی، عدم تحفظ اور انتشار کے شکار موجودہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ
حکمران اورریاست کا چوتھا ستون ا بلاغ عامہ باہمی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کو
اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر معاشرے کی اصلاح، ملک سے کرپشن کے خاتمے ، معاشرتی
برائیوں اور لاقانونیت کے خاتمے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے
معاشرے کی از سر نو نشودنماء کے لیے موثر کردار اداکریں، اور خالصتاً
مشرقیت کو فروغ دیا جائے۔ اسطرح سے افراد پر مشتمل ایک بہترین قوم بن جائے
گی اور ملک سے انتشار بھی ختم ہو جائے گا اور تہذیب بھی رہ جائے گی۔ موجودہ
حکومت کو سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر ملک میں قانون کی بالا دستی اور
عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے ، اور ملک بنیادی اداروں مثلاً بجلی،
سوئی گیس، شہری ترقی کے اداروں، یونین کونسلوں اور سول عدالتوں سے رشوت کے
خاتمے کے لئے ٹھوس قانون سازی کرنا چاہئے۔ اور کرپشن کے خاتمے کے لئے قائم
اداروں ، انٹی کرپشن ، ایف آئی اے ، وفاقی و صوبائی محتسب، قومی احتساب
بیورو کو عوامی سطح پر فعال کرنا چاہئے اور ان اداروں سے استفادہ حاصل کرنے
کے لئے عوامی شعور بیدار کرنا چاہیے ۔ عوامی مسائل کے حل میں ہی ملک و
معاشرے کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ |