اسلام آبادبلدیاتی انتخابات:”نون“ اور” جنون“ کا مقابلہ جاری....میئرکون بنے گا؟

اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں حسب توقع پہلا نمبر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا ہے، جبکہ تحریک انصاف یہاں ڈٹ کر مسلم لیگ کا مقابلہ کیا اور سندھ اور پنجاب کے برعکس دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن پر بھی انگلی اٹھا دی ہے اور سات نشستوں پر دوبارہ گنتی کی درخواست بھی دے دی ہے۔ اسلام آباد بلدیاتی انتخابات میں کئی بڑے برج الٹ گئے ہیں۔ شہر کا میئر ”ن“ لیگ کا ہو گا یا جنون کا، فیصلہ آزاد امیدواروں کے ہاتھ آ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر علی شاہ میئر دوڑ میں تھے، مگر یونین کونسل کا انتخاب ہی ہار گئے۔ (ن) لیگ کے انجم عقیل بھی کوئی چیئرمین نہیں لا سکے۔ جماعت اسلامی کے میاں اسلم ایک نشست بھی نہ جیت سکے، جبکہ پیپلز پارٹی تو اسلام آباد میں تحلیل ہی ہو کر رہ گئی۔ سابق چیئرمین سینٹ نیر بخاری اپنے گھر کی یونین کونسل سے بھی پیپلز پارٹی کو نہ جتوا سکے اور فیصل سخی بٹ بھی پورے سیکٹر میں کوئی تیر نہ چلا سکے۔ بلدیاتی انتخابات سے پہلے میاں نوازشریف کااسلام آباد سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چودھری کو وزیر مملکت بنانے کا حربہ کامیاب ہوگیا اور مسلم لیگ (ن) بازی لے گئی۔ میئر بننے کے لیے 26نشستیں درکار ہیں، اسلام آباد کے اقتدار کی جنگ میں دو مضبوط جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں سے کوئی بھی سادہ اکثریت 26 نشستیں حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اب دونوں جماعتیں آزاد امیداروں کو رام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ مئیر کی بازی بھی مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ آئے گی۔

اسلام آباد میں کل 50 یونین کونسلز ہیں، جن میں دیہی اور شہری یوسیز شامل ہیں، جن میں 650 نشستوں پر الیکشن ہوئے ہیں۔ ان نشستوں میں 50 چیئرمین، 50 ڈپٹی چیئرمین اور 300 کونسلرز کی نشستیں شامل ہیں۔ بلدیاتی نظام میں خواتین کے لیے 100 نشستیں، مزدوروں کی 50 نشستیں، نوجوانوں کی 50، جبکہ اقلیتوں کی 50 نشستیں ہیں۔ اسلام آباد کی ہر یو سی میں 13 ارکان تھے، جن کے انتخاب کیلئے ہر ووٹر نے 6 ووٹ ڈالے۔ اسلام آباد کی 650 نشستوں پر سب سے زیادہ 506 امیدواروں کو مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ جاری کیے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 479 امیدوار کھڑے کیے۔ جماعت اسلامی نے 164 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 81 امیدوار میدان میں اتارے تھے ۔ دیگر جماعتوں کے 205 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا، جبکہ اسلام آباد میں آزاد امیدواروں کی تعداد 972 تھی۔ اسلام آباد کی تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ 50 یونین کونسلوں کے غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین کے19 امیدوار، پاکستان تحریک انصاف کے17، پی پی کا ایک، جبکہ13 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔غیرسرکاری اور غیرحتمی نتائج کے مطابق جنرل کونسلروں کے 102 کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے 57 نشستیں جیت لیں۔ مسلم لیگ (ن) کے 20، جبکہ 25آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ظفر علی شاہ کو شکست ہو گئی، جبکہ انجم عقیل کے بہنوئی کے ہارے جانے کی اطلاع ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی اپنی یونین کونسل میں تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اقلیتوں کی نشست پر 9امیدوار بلا مقابلہ کامیاب قرار پائے، جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر 3 خواتین امیدوار منتخب ہوئیں۔ یونین کونسل کے مختلف وارڈزسے 5 جنرل کونسلر بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔ یونین کونسل 50 گولڑہ کے وارڈ نمبر 6 سے مسلم لیگ ن کے لیاقت علی، یونین کونسل 45 بڈھانہ کلاں سے اقلیتی نشست پر مسلم لیگ ن کے راجیش کمار منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں یوسی 40 کی تمام وارڈز پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو گئے۔ یوسی 40 سے تحریک انصاف کے علی اعوان چیئرمین منتخب ہو گئے۔ علاوہ ازیں یونین کونسل 23 کری میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر کے کزن جمیل کھوکھر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دے کر چیئرمین یونین کونسل منتخب ہو گئے۔ آئی این پی کے مطابق یونین کونسل 25 سے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کے بھتیجے عتیق خٹک پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا حتمی اعلان تو آج کیا جائے گا، لیکن اس سے پہلے پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن پر بھی انگلی اٹھا دی ہے۔ تحریک انصاف نے ریٹرننگ افسران کے روبرو سات نشستوں کے نتائج کو چیلنج کیا ہے، جن میں یو نین کونسل نمبر 13,20,22,30,34,39,42 شامل ہیں۔اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں سات یونین کونسلوں کے نتائج راتوں رات تبدیل کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر کے مطابق آر اوز کے ذریعے نتائج بدلے گئے تو عدالت جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان میں انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے والی تنظیم”فافن“ نے اسلام آباد کے حالیہ بلدیاتی الیکشن سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں۔ پولنگ عملے نے تربیت یافتہ ہونے کے باوجودغلطیاں کیں، اس کے علاوہ الیکشن والے دن چھٹی نہ دینے کا فیصلہ متنازعہ تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ووٹ نہ ڈال سکے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر اوسطا 5شکایات سامنے آئیں۔ خواتین کو ووٹ سے روکنے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ پولنگ شیڈول کو پولنگ سے بہت پہلے ہی پبلک کر دیا گیا جو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد کے اقتدار کی جنگ میں پی پی پی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ یہ جنگ مسلم لیگ(ن) کے دو دھڑوں ، پی ٹی آئی اور آزاد گروپ کے درمیان زوروں پر ہے۔ شہراقتدارمیں میئر لانے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے کوششیں تیزکردیں اور دونوں جماعتوں کا انحصار آزاد امیدواروں پر ہے۔ اسی سلسلے میں تحریک انصاف نے اپنا میئرشپ پر حکمت عملی طے کرنے کے لیے مرکزی دفتر میں اجلاس طلب کیا، جس کے بعد پی ٹی آئی نے آزاد امیداروں کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ ایم این اے اسد عمر نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کی میئرشپ کا الیکشن پورے زور سے لڑنے کا اعلان کیا۔ بعض آزاد یو سی چیئرمینز کی جانب سے حمایت ملنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلدیاتی انتخابات میں برتری حاصل کرنے والی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی شہراقتدار میں اپنا میئر لانے کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ معلوم ہوا ہے کہ آزاد امیدواروں میں سے 5کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، جو ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں اپنی پارٹی امیدوار کے حق میں دستبردار ہونے کی بجائے انتخابی میدان میں اترے اور کامیاب ہوئے۔ ن لیگ اپنے ناراض ارکان کو منانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ کی جانب سے میئر کے لیے چودھری مطلوب ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ آزاد امیدواروں کو سات دن میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ غالب امکان ہے کہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد (ن) لیگ میں ہی شامل ہوگی، کیونکہ حسب روایت آزاد امیدوار حکمران جماعت میں ہی شمولیت اختیار کرتے ہیں، بلکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی امکان ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے بھی بعض ارکان ن لیگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کی تعداد13ہے، جن میں سے سات کا (ن) لیگ میں شامل ہوجانا مشکل نہیں ہے۔

(ن) لیگ کو اپنا میئر لانے کے لیے صرف سات ارکان کی ضرورت ہے۔ ذرایع کے مطابق قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر کے حمایت یافتہ منتخب بلدیاتی چیئرمینوں نے فیصلہ کن حیثیت حاصل کر لی ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کا میئر اور ڈپٹی میئر صرف اس پارٹی کا بن پائے گا، جسے نواز کھوکھر گروپ کا تعاون حاصل ہوگا۔ذرایع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے (نواز کھوکھر) گروپ کے 12آزاد امیدوار ان کے پینل کے ہیں، جب تک ہم نہیں جائیں گے، اسلام آباد میں میئر کا انتخاب نہیں ہوسکتا۔ میئر ڈپٹی میئر کے الیکشن میں ان کے گروپ کے چیئرمین کلیدی کردار ادا کریں گے۔ ذرایع کے مطابق حاجی نواز کھوکھر اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان معاملات طے ہوچکے ہیں، جس کے بعد اسلام آباد سے مسلم لیگ ن کا میئر آنا یقینی ہے۔ ذرایع کے مطابق اگرچہ حاجی نواز کھوکھر گروپ کی حمایت سے مسلم لیگ اپنا مئیر لانے میں کامیاب تو ہوجائے گی لیکن مسلم لیگ (ن) کے مابین اختلافات مزید شدت اختیار کرجائیں گے، کیونکہ حاجی نواز کھوکھر سے مسلم لیگ کے کئی رہنماﺅں کی ان بن چل رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ہونیوالی نئی سیاسی دھڑے بندی میں حاجی نواز کھوکھر ڈاکٹر طارق فضل چودھری ، انجم عقیل خان اور ملک ابرار ایم این اے اس وقت ایک پلڑے میں دکھائی دیتے ہیں ، جبکہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، ظفر علی شاہ، اشرف گجر اور ملک شجاع الرحمن دوسرے دھڑے میں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کو اپنا میئر لانے کے لیے 9آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملانا ضروری ہوگا،حاجی نواز کھوکر کے مسلم لیگ کی حمایت کے بعد پی ٹی آئی کے لیے مئیر لانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.