وزیر خزانہ سے سوال
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
عوام کو عمران خان کی کہی ہوئی باتیں سچ لگنا شروع ہو جاتی ہیں کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ سب سے بڑے لٹیرے ہیں جو تاریخ کے کرپٹ ترین سیاستدانوں میں شمار ہو تے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی وزیر خزانہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور 313 درآمدی اشیا پر عائد ڈیوٹی میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا ہے
جناب وزیر خزانہ صاحب سے سوال صرف یہ ہے کہ اب وہ عوام سے چاہتے کیا ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ کاروباری طبقہ پاکستان سے بھاگ جائے، پہلے ہی ملک کی انڈسٹری آپ اور آپ جیسے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے۔ سرمایہ دار ملک کا رخ نہیں کر رہے۔ قرضے لیکر آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ یہ تو شکر کریں کے پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد بیرون ملک موجود ہے جو اس معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہے ورنہ جو حالات اس وقت پاکستان کے ہیں (خاکم بدہن) پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ آپ صرف اس بات کا جواب دے دیں کہ جو ان حالیہ مہینوں میں آپ اور آپ کی حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں اربوں روپیہ اکٹھا کیا ہے اس کا حساب کتاب کہاں ہے؟ وہ کس ’اکائونٹ‘ میں رکھا گیا ہے۔ |
|
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اب وہ دن
بھی آگیا کہ ایک سے بڑھ کر ایک نیا ٹیکس، ظالموں نے ظلم و جبر کی انتہا کر
دی ہے۔ کوئی پتا نہیں یہ ظلم کب رکے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ زرداری کی حکومت
نے 5سال میں اتنے قرضے نہیں لیے جتنے موجودہ حکومت نے ڈھائی سال میں لے لیے
ہیں۔ بلکہ یہ کہنا کسی طور بھی غلط نہیں ہوگا کہ ملک کو آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اسی لیے تو دوسری سہ ماہی میں ہی
آئی ایم ایف کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا
دئیے گئے ہیں۔ یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت نے ان 4, 5مہینوں میں تیل
کی مد میں 200 ارب روپیہ جو کمایا ہے وہ کہاں گیا؟ اس کا حساب کتاب کہاں ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کس حد تک نیچے گر چکی ہیں جبکہ حکومت اپنی
جیبیں بھرنے میں مصروف عمل دکھائی دے رہی ہے۔ پھر عوام کو عمران خان کی کہی
ہوئی باتیں سچ لگنا شروع ہو جاتی ہیں کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ سب سے
بڑے لٹیرے ہیں جو تاریخ کے کرپٹ ترین سیاستدانوں میں شمار ہو تے ہیں۔ ابھی
گزشتہ روز ہی وزیر خزانہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور 313 درآمدی اشیا
پر عائد ڈیوٹی میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا ہے اور دہی، انڈے اور مُرغی سمیت
دیگر لگژری درآمدی اشیاء استعمال کرنیوالوں کو اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
وفاقی حکومت نے ایک ہزار سے زیادہ درآمدی اشیا پر کسٹمز، ریگولیٹری اور
ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کے علاوہ 5 سے 10
فیصد تک اضافے کی منظوری دیدی ہے جس کیلئے ایس آر اوز جاری کیے گئے ہیں۔
حالیہ نوٹی فکیشن کے مطابق پیک دودھ ، دہی، مکھن، چاکلیٹ، چیز،کریم،
مشروبات، قدرتی شہد، انجیر، پائن ایپل، آم، مینگو پلپ، اسٹرابیری،
ٹماٹر،کیچپ، آلو، بسکٹ، کیوی فروٹ، گوشت، منرل واٹر، آئس کریم اور رس بھی
مہنگے کردیئے ہیں۔ حتیٰ کہ کتوں اور بلیوں کی خوراک پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی
کی شرح 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی ہے۔ اسکے علاوہ کاسمیٹکس کا سامان،
شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ، شیونگ سامان اورڈیوڈرینٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10
سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی ہے جبکہ فریج ، ٹی وی، ایئر کنڈیشنرز اور
پنکھوں پر اضافی ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔ جنریٹرزاور اسکے اسپیئرپارٹس،
مائیکرو ویو اوون، الیکٹرک لیمپس ڈی وی ڈیز، سی ڈیز، ایل سی ڈیز اور ایل ای
ڈیز اور الیکٹرونکس کی دیگر مصنوعات پربھی ریگولیٹری کی شرح 10 سے بڑھا کر
15 فیصد کردی گئی ہے۔ 40 ارب روپے کے منی بجٹ کے تحت ایک ہزار سگریٹ پر
ایکسائز ڈیوٹی کی شرح ایک سو سے سوا سو روپے تک بڑھا دی گئی ہے جبکہ 1000
سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر10 فیصد اضافی کسٹمز ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔
وزیر خزانہ سے یہ سوال صرف یہ ہے کہ اب وہ عوام سے چاہتے کیا ہیں؟ کیا وہ
چاہتے ہیں کہ کاروباری طبقہ پاکستان سے بھاگ جائے، پہلے ہی ملک کی انڈسٹری
آپ اور آپ جیسے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے۔
سرمایہ دار ملک کا رخ نہیں کر رہے۔ قرضے لیکر آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ملکی
زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ یہ تو شکر کریں کے پاکستانیوں کی
ایک کثیر تعداد بیرون ملک موجود ہے جو اس معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہے ورنہ
جو حالات اس وقت پاکستان کے ہیں (خاکم بدہن) پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔
آپ صرف اس بات کا جواب دے دیں کہ جو ان حالیہ مہینوں میں آپ اور آپ کی
حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں اربوں روپیہ اکٹھا کیا ہے اس کا حساب
کتاب کہاں ہے؟ وہ کس ’اکائونٹ‘ میں رکھا گیا ہے۔
ہر پاکستانی تو اسی وقت ڈر گیا تھا جب ووڈ ہولڈنگ ٹیکس کی مصیبت کے بعد
گزشتہ ماہ آپ نے یہ نوید سنائی تھی کہ آنیوالے وقت میں کچھ مہنگائی
ہوسکتی ہے، کیونکہ پاکستان نے توانائی اور ٹیکس اصلاحات میں تیزی لانے اور
گیس کی قیمتوں میں اضافے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط سے اتفاق کیا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ جب آپ پریس کانفرنس کرنے لگتے ہیں تو دل میں ایک عجیب سا خوف
بیٹھ جاتا ہے کہ پتا نہیں ڈار صاحب اب کونسا پتا کھیلنے لگے ہیں کیونکہ
گزشتہ ڈھائی سال سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی صرف ایک ہی کوشش رہی ہے کہ کسی
بھی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔ اس مرتبہ بھی اقتدار میں
آتے ہی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور طویل مذاکرات کے بعد آئی
ایم ایف پاکستان کو مزید 6.6 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہوا ہے۔ یہ
قرضہ پہلے سے زیادہ شرح سود پر اور زیادہ سخت شرائط پر پاکستان کو ملا
ہے،جس میں اولین شرط ریاستی اخراجات اور ذمہ داریوں میں کمی ہے۔ یعنی حکومت
عوام کو دی جانیوالی سبسڈی کا مکمل خاتمہ کرے اور ریاستی اداروں کی نجکاری
کاعمل تیز کرے۔ جب حکومت ان شراط پر قرضے حاصل کریگی تو اس کا اثر عام
زندگی پر پڑیگا۔ عام آدمی کیلیے بجلی کا بل بھرنا کس قدر دشوار ہے اس کا
حکومت کو قطعی احساس نہیں۔
اسحاق ڈار صاحب ، سب چیزیں چھوڑیں! یہ بتائیں کہ آپ اپنے ذرائع آمدن کیوں
نہیں دنیا کو بتاتے، آپ خود کتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ مانا کہ وہ بیٹوں
کے نام ہے اور آپ نے انہیں پاکستان میں کاروبار کرنے کی اجازت بھی نہیں دے
رکھی تو بتائیے کہ وہ کون کون سے کاروبار ہیں اور انہیں کیسے حاصل کیا گیا،
کیا آپ نے عدالت میں ایک حلفی بیان میں منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا
اعتراف نہیں کیا تھا؟ کیا آپ پر یہ الزام نہیں کہ آپ نے حالیہ دور حکومت
میں اپنے بیٹے کو منی لانڈرنگ کے ذریعے 4ملین ڈالر بھیجے تھے۔ آپ نے اس یہ
کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیا کہ وہ پیسے میں نے تحفتاََ اپنے بچوں کو دیے
تھے۔ کیا خوب تحفہ ہے جو غریب ملک کا وزیر خزانہ اپنے بچوں کو دے رہا ہے۔
پھر کہیں سے خبر آئی کہ آپ نے یہ رقم اپنے بچوں کو بطور قرضہ فراہم کی ہے۔
بھئی واہ یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ ڈار صاحب کو قرضہ لینے اور دینے کا اچھا
خاصا تجربہ ہے۔ اسی لیے تو ہم نے انہیں اسحاق ڈالر یا کیلکولیٹر کہنا شروع
کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ قرض دیتے بھی ہیں تو اپنے
بیٹوں کو۔۔ ویسے یہ رواج ہمارے خاندانوں میں نہیں ہے، کہ باپ بیٹوں کو قرض
فراہم کرے۔ خیر چھوڑئیے آپ کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اور
اوپر سے آپ باتوں کا پلائو بنانا بھی خوب جانتے ہیں۔
جناب اسحاق دار صاحب کی ٹیکس کولیکشن میں ’’سمجھداری‘‘ کا یہ عالم ہے کہ
دسمبر چڑھ چکا اور یہ ہر مہینے ریٹرنوں کی تاریخ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اسکی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو یہ اندازہ ہے کہ لوگوں کے پاس ریٹرنیں بھرنے
کیلئے کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت ہر چیز میں براہ راست ٹیکس وصول کر رہی ہے،
عوام ایک چیز کیلئے 10، 10دفعہ ٹیکس دے رہے ہیں۔ لوگ کہاں تک انکی غلط
پالیسیوں کا ساتھ دینگے اور یقین مانیے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آپ
کو ایک جگہ نہیں بلکہ اگر کوئی چیز 6 جگہ ٹریڈ ہو رہی ہے تو آپ سے 6 جگہ
سے ہی انکم ٹیکس وصول کیا جارہا ہے اور مہنگائی بھی اسی وجہ سے ہی بڑھ رہی
ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جناب ا سحاق ڈار صاحب ، آپکے مکمل نظام کے
فیل ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں شدید قسم کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
صاحب! آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اگر آپ کو نہیں معلوم کہ ٹیکس کولیکشن
کس طرح کی جانی چاہیے تو براہ کرم آپ سنجیدگی سے عام لوگوں اور تاجروں کے
درمیان گھل ملکر کر دیکھیں تو آپ کو کئی چیزیں سمجھ آ جائیں گی کہ عوام
کے مسائل آخر ہیں کیا؟ اگر آپ اپنی مرضیاں عوام پر مسلط کرینگے تو سمجھ
لیں کہ آپ کا اپنا احتساب بھی جلد ہی شروع ہو جائیگا کیونکہ ظلم کو ایک دن
ضرور ختم ہونا ہوتا ہے۔ |
|