زمین پر جنت نظیر وادیِ کشمیر

لاہور بار کے وکلاء کا مظفر آباد سے تاؤ بٹ تک کا سفر
پروفیشنل وکلا ء صاحبان کی مصروفیت بھری زندگی میں چھٹیاں کسی نعمت سے کم نہیں۔اس نعمت کا انتظار وکلاء سارا سال کرتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ برس سے پاورگروپ آف لائیرزشمالی علاقہ جات کا مطالعاتی دورہ کرتا آرہا ہے ۔اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی پاور گروپ آف لائیرزنے اکثریت رائے سے آزاد کشمیر کا مطالعاتی و تفریحی ٹور کرنے کا فیصلہ کیا،جس میں مظفر آباد ، کیرن، اپر نیلم، شاردا،کیل،تا ؤبٹ جیسے پر فضا ء مقامات شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں صدر پاورگروپ محمد دلاورملک کی سربراہی میں محمد کلیم اختر مغل،جعفر حسین ملک زادہ ، سجاد احمد خان ، اور سیٹھ وسیم بوٹا پر مشتمل ٹور کمیٹی تشکیل دی گئی۔کمیٹی نے دی ٹریکرٹور ایجنسی کے ساتھ ٹور کے معاملات طے کئے اور تمام ٹورسٹوں کوٹور کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کیں ۔جن دوستوں نے کشمیر جنت نظیر جانے کا فیصلہ کیا اُن میں راقم چیرمین پاورگروپ آف لایئرز محمدرضا، سینئروائس چیرمین محمدارشد فتح ، صدرپاور گروپ،محمددلاورملک،چیف الیکشن کمیشن محمدصدیق،سابق صدرمحمد ناصر خاں،سابق صدرمحمدارشد رضا ،سابق صدر ملک محمدانور،محمد افضال عظیم پاہٹ،محمدعرفان بھٹی، سابق نائب صد رکلیم اختر مغل،سابق سیکرٹری جعفر حسین ملک زادہ، سابق سیکرٹری اطلاعات سجاد احمد خاں،میاں محمود احمد، سابق سیکرٹری سیٹھ ندیم حسین،سیٹھ وسیم بوٹا،شاہد علی دولات ،رئیس احمد خاں،عمرجان کھوکھر،عثمان ثاقب چیمہ،ملک طاہر پرویز،ذولقرنین حمید،رانا عدنان جبار،شاہد علی مست،علی رضا،علی حیدر بھٹی،طیب بھٹی،واصف حیات قریشی،اصغر علی بھٹی اور شاہد محمود ملک شامل رہے۔تمام ٹورسٹ31جولائی2015ء رات گیارہ بجے آفس محمدارشد رضاپر اناکاہنہ سے سفرپرروانہ ہونے کے لیے جمع ہو گئے، تمام دوستوں کی پر تکلف کھانے سے تواضع کی گئی ۔شاہد نواز چیمہ نے سرپرائز دیتے ہوئے راقم کی سالگرہ کا کیک کاٹ کر سالگرہ منائی۔ اس موقع پر ارشد جہانگیر جھو جہ، محمد اقبال بھٹی، مرید بھٹہ، سردار شہباز ، رانا سعید اختر ، ایم شہزادخان کاکڑ ، شاہد نواب چیمہ،زاہد حسین چوہدری، اسلم حیات قریشی،چوہدری عرفان احمد ، شاہد بھٹی ، حاجی بشارت علی،نصیر احمد شیرازی،عثمان علی،راشدبشیر، محمد اکرام گجر،کالم نگار سجاد علی شاکر،امتیاز علی شاکر کے علاوہ دیگر سماجی، سیاسی ،شخصیات نے پُرخلوص دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ رخصت کیا۔ہمارے پروگرام میں مظفر آباد آزاد کشمیرمیں سنگم ہوٹل میں ناشتے کا انتظام تھا۔کوہا لہ بریج کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ سے ہوٹل تباہ ہو چکاتھاجس کی وجہ سے تین گھنٹے ٹریفک ست روی کا شکار رہی میلوں لمبی گاڑیوں کی لا ئین لگی ہوئی تھی۔پاک فوج کے چاک و چوبند نوجوان ٹریفک گزارنے میں مصروف تھے ۔ٹریفک کی سست روی نے قافلے کو ر ُکنے پرمجبور کردیا ۔دریائے نیلم جس کا قدیم نام کشن گنگا تھاکے کنارے واقع سنگم ہوٹل میں تازہ دم ہو کر بھر پور ناشتہ کیا۔ناشتے کے بعد دو گھنٹے دوستوں نے شہر کی سیر کی اور خوبصورت مناظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ کیا۔وہاں آزاد کشمیر کے متعلق انفارمیشن کا تبادلہ کیا جس کے مطابق آزاد کشمیر پاکستان کا ایک خودمختار علاقہ ہے ۔خوبصورتی میں آزاد کشمیر سیاحوں کے لئے ایک الگ مقام رکھتا ہے۔پاکستان کے شمالی حصے میں واقع دنیاکے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ آزاد کشمیر زیادہ تر سرسبز وادیوں، پہاڑوں،آبشاروں،جھرنوں اور ندیوں پر مشتمل ہے ۔قدرت نے اس خطے کو ہر قسم کی نعمتوں اور نظاروں سے نواز رکھاہے ۔کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچاناجاتا ہے۔ سیر و تفریح کیلئے لوگ بڑی تعداد میں آزاد کشمیر کا رْخ کرتے ہیں۔خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے کشمیرکو زمین پر جنت کا لقب دیا ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی محتاط اندازے کے مطابق40 لاکھ ہے۔آزاد کشمیر میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو عام ہے۔کیرن کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک مقام پرچیک پوسٹ قائم ہے یہاں پاک فوج کے جوان ہر گاڑی کو روک کر مسافروں کی شناخت کرتے ہیں۔ یہاں ایک مرکز آزاد کشمیر کے محکمہ سیاحت کاقائم ہے ۔جہاں تعینات فوجی جوان سیاحوں کوضروری معلومات فراہم کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ٹور انتظامیہ نے فوجی جوانوں سے بنیادی معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے بتا یاکہ یہاں سے مقبوضہ علاقہ شروع ہو جاتا ہے جس کے دوسرے کنارے پربھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ جب دریافت کیاتومعلوم ہواکہ کہ خطرے کی کوئی بات نہیں بس کبھی کبھار شرارت ہوجاتی ہے جس کا منہ توڑجواب بھی دیاجاتا ہے، مجموعی طور پر حالات نارمل رہتے ہیں۔مظفر آباد سے آگے ہمارا قیام کیر ن میں ساڑھے چھ بجے نیلم گرین لینڈ ہو ٹل میں دریائے نیلم کے کنارے ہوا۔شام کے وقت تمام دوستوں نے اپنا اپنا سامان کمروں میں رکھ کر دریائے نیلم پر ڈوبتے سورج کاخوبصورت نظارہ دیکھا ۔کچھ دیرتک خوبصورت مقام کے دلکش مناظر اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے رہے ۔یہاں دریائے نیلم کے دوسرے کنارے مقبوضہ کشمیر کی آبادی صاف نظر آتی ہے،دریائے نیلم کے کنارے پرمقبوضہ وادی کی مسجد سے آذان مغرب کی آواز سنائی دی۔سامنے ریسٹ ہاؤس کی طرح کی کئی عمارات کے علاوہ مقامی آبادی کے گھر بھی نظر آتے ہیں۔دریا کے دونوں طرف رشتہ دار بستے ہیں پر عالمی برادری کی آشیر باد میں بھارت و پاکستان کی قائم کردہ کنٹرول لائینو ں نے انہیں فوج کے ذریعے ایک دوسرے سے ملنے سے روک رکھاہے۔وہ ایک دوسرے کو دورسے دیکھ تو سکتے ہیں پر بات نہیں کرسکتے۔رات آٹھ بجے کے بعد تمام دوست کھانا کھانے کے لئے کھانے کی ٹیبل پر آبیٹھے، کھانا کھانے کے بعد اگلے دن کا پروگرام تشکیل دیا گیا، طے پایا کہ اپر نیلم کے لیے صبح نو بجے ہوٹل سے نکلیں گے۔تمام دوست کھانا کھانے کے بعد دریائے نیلم کے کنارے خوبصورت پارک میں واک کرنے چلے گئے ، دریائے نیلم کی شور مچاتی لہریں کانوں میں سنگیت کارس گول رہی تھیں۔ ہم کئی گھنٹے پارک میں سفر کی خوبصورت یادوں کا باہمی تبادلہ کرتے رہے۔ اسی دوران مقبوضہ کشمیر کی طرف سے ایک لائٹ بار بار ہمارے درمیان سے گزر جاتی ۔دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ انڈین آرمی مسلسل پاکستانی علاقے کی طرف نظر رکھتے ہوئے نگرانی کرتی ہے ،مشرف گورنمنٹ سے پہلے انڈیابلا اشتعال فائرنگ کر کے مالی اور جانی نقصان کرتا تھا۔ اب کافی عرصے سے فائرنگ نہیں ہوتی۔اس خوبصورت ماحول میں رات12بجے ہوٹل آکر سو گئے۔صبح آٹھ بجے ناشتہ کرنے کے بعد راقم کیرن کی صبح کا نظارہ کرنے کی غرض سے ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ ہوٹل کے سامنے مزدور پتھر توڑنے میں مصروف تھے۔ پتھر توڑنے والے مزدور کمال مہارت سے ایک بڑے سے پتھر کو چھینی اور ایک بڑے سے ہتھورے سے کاٹ رہے تھے ۔مزدور سراجدین ، اور روشن دین نے بتایا کہ کیرن میں پچاس کے قریب لوگ گورنمنٹ سے اجازت ملنے پرپتھر توڑ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں ۔پتھروں کو یہاں سے لوہار کے پاس لے جاتے ہیں جہاں وہ آگ میں رکھ کر پکاتے ہیں۔اورتراش کر ان پتھروں کو بلاک کی شکل دے دی جاتی ہے۔یہ کام دسمبر سے لے کر مارچ تک برفباری کی وجہ سے نہیں کر سکتے ،تین ماہ فارغ رہنے کی وجہ سے ہمارے گھروں میں نوبت فاقوں تک آ جاتی ہے۔جنرل مشرف کی حکومت سے پہلے انڈین آرمی دن کوبھی فائر کرتی تھی ۔جس سے بڑا جانی نقصان ہوتا تھا،جنرل مشرف کی حکومت کے بعد آج تک فائرنگ نہیں ہوئی۔تین ماہ برفباری کی وجہ سے مکئی کو بطور خوراک سٹور کرنے کے بعد استعمال کرتے ہیں۔ دو اگست صبح دس بجے پاور گروپ کا قافلہ 3کلومیٹر کی چڑھائی کے بعد اپر نیلم پہنچا۔انتہائی بلند اور پر فضا پہاڑوں کے دورمیان گری اس وادی کو ٹورسٹوں نے بہت پسند کیا ، یہاں سیب ،اخروٹ اور ناشپاتی کے کچے پھل سے لدے ہوئے درخت عجیب سماں پیش کر رہے تھے۔اپرنیلم گاؤں کی بلندی سے دریا پار مقبوضہ کشمیر کے علاقے کے خوبصورت مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی منجھے ہوئے مصورنے کینوس پردھنک کے سب رنگ بکھیر دیئے ہوں۔گاؤں میں بنے ٹورازم کے ریسٹ ہاؤسز اورنجی گیسٹ ہاؤسز میں کراچی،پنجاب وغیرہ کے سیاحوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔یہاں کے لوگ بڑے ملنساراورمحبت کرنے والے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایاکہ اپر نیلم پرہرسال پانچ سے چھ فٹ تک برف پڑتی ہے اپر نیلم میں انتہائی خوبصورت گیسٹ ہاوس کا اضافہ علاقے کو مزید دلکش کر تاہے۔یہاں قیام کے دوران دوستوں نے اپنی فیملی کے ساتھ قیام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔وہاں کے مقامی لوگ وکلا کے ساتھ گھل مل گئے اور انہوں نے اپنے گھر میں رہنے کی آفر کی، اورکہا کہ ہم نہ تو مکان کرائے پر دیتے ہیں اور نہ ہی فروٹ کے پیسے لیتے ہے سیب ناشپاتی ،اخروٹ کھانے کے لیے پیش کئے۔تین گھنٹے بعد واپس انتہائی خطرناک اترائی اُترتے ہوئے اب ہمارا قافلہ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک پر دریائے نیلم کے کنارے سرسبز وادیوں میں پہاڑوں پر سفرکررہا تھا۔یہ سفر انتہائی مسحور کن تھا۔دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے خوبصورت آبشاروں کا نظارہ کرتے ہوئے اب ہم اگلی وادی کی طرف رواں دواں تھے۔پہاڑوں سے اترتے ہوئے کئی ندی نالے دریائے نیلم میں آکر گر تے دیکھے۔شام پانچ بجے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شارداپہنچے۔دریا کے کنار ے واقع نیلم سٹار ریورگیسٹ ہاؤس اینڈ ریسٹورینٹ میں قیام کرنے کے بعد ہم شاردا کا قلعہ اور یونیورسٹی دیکھنے چلے گئے۔ دور دورتک پھیلی ہوئی اس دلکش وادی کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے اس وادی میں مسرتوں اور مسکراہٹوں کے سوا کوئی غم، فکر یادکھ نہیں ہوگااور آسائش اور عافیت کی منزل یہاں آکر ختم ہو جائے گی۔محب کے ان گنت رنگوں سے مزین قدرت کی بے پناہ نعمتوں سے سجی ہوئی اس وادی کی بستیوں میں دنیا کی آلائشوں سے پاک ایک ایسی مخلوق آباد ہوگی، فطرت کی رعنائیاں جس کی تمناؤں کی تابع ہوں گی۔شاردا کو نیلم ویلی کا دل قرار دیا جاتا ہے۔ شاردا سے آگے یہ ویلی اپنے دلفریب مناظر، قابل دید مقامات اور پہاڑ کی چوٹیوں سے ہوتی ہوئی دم بخود کر دینے والی آبشاروں کی وجہ سے وادی گریز کہلاتی ہے۔ قدرتی حسن اور دلکش نظاروں سے مسحور ہو کر اگر کسی نے اسے زمین پر بہشت کا خطاب دیا ہے تو بے جا نہیں ہے۔ بدھ مت دور کے آثار قدیمہ دیکھنے کے لئے مشرق بعید سے آنے والے اسے جنت کا ٹکڑا بھی سمجھتے ہیں۔کیونکہ بدھ مت کی یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے مہاتمابدھ کے پیرو کار شاردا کو بڑا متبرک مقام دیتے ہیں۔شاردا کے بازار کی جنوبی بدھ یونیورسٹی کے آثار قدیمہ واقع ہیں۔ وطن عزیز کے سیاحوں کے علاوہ دنیا بھر سے ٹورسٹ بلندی پر واقع شاردا یونیورسٹی اور قلعے کے ان آثار کو دیکھنے آتے ہیں۔وہاں کوئی گائیڈ یا چوکیدار نظر نہیں آیا جو ہمیں بدھ یونیورسٹی اور بدھ دور کے متعلق کچھ معلومات مہیا کرتا۔ البتہ ایک بورڈ پر یونیورسٹی کے کچھ تاریخی حالات تحریرپائے۔ یونیورسٹی کی عمارت بڑے بڑے سنگ سیاہ سے تعمیر کی گئی ہے جو خاصی مضبوط نظر آرہی تھی۔ صدیوں پرانی ہونے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اسی طرح ان قدیم عمارتوں کا حال رہا تو آئندہ چند برسوں بعد یہ جگہ صرف نام کی شاردا یونیورسٹی رہ جائے گی۔قبل از مسیح یہ قلعہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہوگا ۔شاردا میں دو ہزار پانچ میں سیز فائر ہونے کے بعد ٹورسٹ آنا شروع ہوئے ۔تین سال سے ٹورزم ڈیلوپ ہوئی اور ہوٹل بنے۔ شاردا میں بوائز ہائی سکول بھی قلعہ کا حصہ تھا پر اب صرف مین گیٹ ہی اسکی پہچان رہ گئی ہے۔ یہ تمام علاقہ آرمی کی چھا ونی کا منظر پیش کرتا ہے۔یہاں شاردا کے قلعے کے علاوہ کسی بھی عمارت کی تصویر اتارنے کی اجازت نہیں ہزاروں سال پرانی شاردا یونیورسٹی کے تاریخی پس منظر پڑھنے میں تمام دوستوں نے گہری دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ شاردا کا نام شاردا دیوی کے نام سے منسوب ہے جو اشوک بادشاہ کے دور میں گزری ہے۔ہم یونیورسٹی کی ہیبت سے متاثر شکست و ریخت سے پریشان ہوتے ہوئے واپس بازاروں کی طرف آگئے۔ فوجی چھاؤنی ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر فوجی جوانوں سے ملاقات ہوتی رہی۔ شاردا قلعہ کی سیر کے بعد ہوٹل پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی۔نیلم جہلم پاور پروجیکٹ سے لے کر شاردا تک موبائل سروس بند تھی۔ جس کی وجہ سے شاردا سے مقامی ٹیلی فون سے تمام دوستوں نے گھرٹیلی فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی ۔ہمیں جب یہ علم ہوا کہ رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک وائی فائی کی سہولت میسر ہوگی۔تو تمام دوستوں میں خوشی کی لہر دور گئی، انہوں نے اس خبر کو سن کر آٹھ بجے کا انتظار شروع کردیا۔وائی فائی آن ہوتے ہی اپنے موبائل پر چلانے کی کوشش کی تو موبائل نے کوڈکی ڈیمانڈ کی اور انتظامیہ نے پچاس روپے لے کر کوڈدیا،جسے ہم نے تمام دوستوں میں صدقہ جاریہ سمجھ کر تقسیم کر دیا ۔وائی فائی پر زیادہ لوڈ ہونے کی وجہ سے نیٹ کی سپیڈ نہ ہونے کے برابر ہوگئی،اور تمام دوستوں میں مایوسی کی لہر دور گئی ہوٹل انتظامیہ نے ہمارے لئے باربی کیو کا انتظام کیا ہوا تھا رات نو بجے کھانا کھانے کے بعد صبح چھ بجے ناشتے کا ٹائم دیا گیا اور سات بجے ٹاوبٹ کے لئے پانچ جیپوں میں روانہ ہونا طے پایا ۔رات دیر تک دوست بارش کو انجوائے کرتے رہے۔صبح سات بجے تا و بٹ کے لیے روانہ ہوئے ۔ پانچ گھنٹوں میں ہم تاوبٹ پہنچے، راستے میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں چند دوکانوں پر مشتمل تھی ۔ وہاں ٹھہر کر دوستوں نے دوسری گاڑیوں کا انتظار کیا اور ہلکی پھلکی شاپنگ کی ، جیسے ہی ہم تا و بٹ پہنچے بارش بہت تیز ہو گئی جسے تمام دوستوں نے خوب انجوئے کیا اور وہاں عبد لواحدہوٹل کو کھانے کا آ ڈر دیا ۔ کھانا کھانے کے دوران بارش رک چکی تھی۔ دوپہر تین بجے تمام لوگ واپسی کے لئے جیبوں میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔ابھی ہم نے ایک گھنٹے کا سفر طے کیا تھا،کہ بارش کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والا پانی سیلابی ریلے کی صورت اختیار کر گیا ۔جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہوگئی ۔کافی دیر سیلابی ریلے کا بہاو کم ہونے کا انتظار کرنا پڑا ۔ بہاو کم ہونے پر ہماری جیب کے ڈرائیورشبیر احمد نے بڑی مہارت اور پھرتی سے سیلابی ریلے سے گاڑی نکالی ۔دس گھنٹے جیب کے سفر کی وجہ سے تمام دوست سفر کی تھکان سے چور تھے۔ رات آٹھ بجے بارش ہو رہی تھی،ہوٹل پہنچ کر پتہ کیا تو ڈرائیور حضرات گا ڑیوں میں سو رہے تھے انہیں جگا کر واپس کیرن جانے کو کہا ، انہوں نے جانے سے صاف انکار کر دیا ہماری بکنگ کیرن میں نیلم ہوٹل میں تھی ۔ہمارے ٹور آپریٹر تنویر جوگی نے ایک گھنٹہ گفت و شنید کے بعد انہیں کیرن جانے کے لئے تیار کر لیا ، گاڑیوں پر سامان لوڈ کرنے کے بعد نو بجے رات کو شاردا سے بارش میں روانہ ہوئے ، ساراراستہ بارش ہوتی رہی، اور ڈرائیورحضرات خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہوئے بارہ بجے کیرن پہنچے جہاں کھانا کھانے کے بعد تمام دوست واک کرنے دریائے نیلم کے کنارے پارک میں چلے گئے ، رات دو بجے سونے کے لیے کمروں میں چلے گئے ۔ صبح تمام دوست دیرسے جاگے اور ناشتے کے بعد مری کے لئے روانہ ہو گئے ،۲ا بجے کے قریب پاور سٹیشن ایک گھنٹے کے لئے قیام کیا ۔وہاں دوستوں نے پانی کی خوبصورت لہروں کے ساتھ پاور سٹیشن کا لطف اٹھایا ،تین بجے ہمارا قافلہ ،گرین ویلی ہوٹل مظفر آباد پہنچا ، جہاں ہوٹل کی مشہور ڈش پائن ایپل رائس کا لنچ کیا ، راقم نے مظفر آباد میں مشہور دربار سائیں سہیلی کے مزارکی مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کے بعدمزار شریف پرحاضری دی اور فاتح خوانی کی ، محکمہ اوقاف کے زیر انتظام خوبصورت مزار اور ملحقہ مسجد میں انتظامات مثالی نظر آئے وہاں زائرین کو تین وقت کا کھانا شیڈول کے مطابق دیا جاتا ہے ، مزار کے احاطے میں المشہور بزرگ سائیں سہیلی کی سوانح عمری تفضیل کے ساتھ دیوار میں کنداں ہے جسے پڑھ کر بزرگوں کے حالات زندگی جاننے میں آسانی ہوئی چار بجے مضفر آباد سے دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا رات دس بجے مری پہنچے یہاں سے تمام دوستوں کو ایک گھنٹے کے لیے مال سے بچوں کی شاپنگ کرنے کا وقت دیا گیا ۔لیکن کچھ دوست رات ساڑ ھے بارہ بجے شاپنگ کر کے واپس آئے۔رات دو بجے ڈونگہ گلی سنوویو ہوٹل میں کھانا ہمارا انتظار کر رہا تھا ، کھانا کھانے کے بعد سامان گاڑیوں سے اتار کر ہوٹل کے کمروں میں رکھا ۔راقم نے ا فضال پاہٹ ، ندیم حسین کے ساتھ ہوٹل کے باہر خوفناک ماحول میں واک کی ۔سوا چار بجے نماز فجر ادا کرنے کے بعد نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔ صبح دوستوں نے ڈونگہ گلی ،نتھیا گلی ، ایوبیہ پارک کا واکنگ ٹرائل کیا۔ کئی گھنٹے تک دوستوں نے انجوائے کیا ،دوستوں نے فطرت کے نظاروں سے خوب لطف اٹھایا ، تین بجے واپسی کے لئے روانہ ہوئے اور چھ بجے سیور فوڈ ہوٹل اسلام آباد پہنچے ، وہاں ہوٹل میں بے پناہ رش ہونے کی وجہ سے سیٹنگ میں تاخیر ہوئی لیکن تمام دوست ایک گھنٹے میں کھانا کھا کر واپسی کے لئے گاڑیوں میں پہنچ گئے رات ایک ابجے خیر وخیریت سے واپس لاہورپہنچے ۔
Muhammad Raza
About the Author: Muhammad Raza Read More Articles by Muhammad Raza: 13 Articles with 13247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.