دماس ویو پوئنٹ
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
دماس ویو پوئنٹ |
|
|
گاڑی فراٹے برتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی میں
اگلی نششت پر تھا گاڑی کو میرا بھانجہ ڈرئیو کر رہا تھا گپ شپ کے ساتھ قدرت
کے حسین نظاروں سے بھی لطف اندوز رہا تھا ۔ میرا بھانجہ میری فوٹو گرافی پر
بھی تبصرہ کر رہا تھا۔اتنے میں ایک ویو پوئنٹ پر میری نظر پڑی میں نے
بھانجے کو گاڑی روکنے کا کہا اس نے عین ویوپوئنٹ میں گاڑی روکی ۔اس کے بچے
بھی ہمارے ہمراہ تھے ۔ہم سب گاڑی سے اترے اور ویو پوئنٹ کی طرف بڑھے۔۔میں
ویو پوئنٹ کی سڑھیاں چڑھ رہاتھا اور دل میرا بوجھل ہوتا جارہا تھا اور ر
قدرت کے نظاروں میں کھو جانے کے بجائے میں تو کہیں اور کھو گیا ۔کھو کہاں
گیا بلکہ گم ہوگیا اور سوچ رہا تھا کہ ہم بحثیت قوم کے فرد اپنی ذمہ داریوں
سے کتنی غفلت برت رہے ہیں ۔اور ایسی حرکتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں جن
حرکتوں کو روکنا ہمارے اختیار میں ہے لیکن اپنی بے حسی اور اس حرکت کو
چھوٹی سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں ۔۔کہتے ہیں کہ لباس شخصیت کا آئینہ
دار ہوتا ہے اور لباس ہی کی وجہ سے انسان کی ظاہری وقار اور شان میں اضافہ
ہوتا ہے لیکن جب ہم اپنے ارد گرد اور پبلک مقامات میں اپنے کرتوتوں کو
دیکھتے ہیں تو ہماری ظاہری وقار اور شان کی اندرونی کہانی سامنے آجاتی ہے
یعنی مردہ بے ایمان قبر چونہ کُش۔۔۔۔ اس ویو پوئینٹ کی بھی وہی درگت تھی جو
اکثر پبلک مقامات کی ہوتی ہے۔میرے نواسے اور بھانجہ ویو پوئنٹ پہ کھڑے دریا
اور پہاڑوں اور دور دور تک پھیلی وادی کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے
اور میں اس ویو پوئینٹ میں لکھی ہوئ تحریروں کو پڑھ رہا تھا ۔۔کوئی جگہ
ایسی نہیں تھی جہاں کچھ نہ لکھا ہو ۔۔۔اتنے میں میرے بھانجے کی آواز آئی
ماموں آپ کیا پڑھ رہے ہیں یہاں اوپر آجائیں بڑا ہی زبردست نظارہ ہے اور
فوٹو گرافی کے لئے بہتر جگہ ہے۔۔۔میں نے اسے کہا بھانجے ٹہریں پہلے میں
پاکستانی قوم کے کلچر کو کیمرے میں بند کرلوں پھر ۔۔۔پاکستان میں آج ہماری
سوچ صرف ’’میں‘‘ تک محدود رہ گئی ہے۔ پبلک پراپرٹی کا خیال رکھنا، سوسائٹی
اور سسٹم کو سپورٹ کرنا ہماری سوچ کی ڈکشنری کا حصہ نہیں ہیں۔ اور سرکاری
پراپرٹی اور جھیلیں، دریا، سمندر یہاں تک کہ جنگلات اور سرکاری املاک کو اس
بے دردی سے استعمال کرتے ہیں جیسے اس ملک سے اسکے وجود میں آنے کا بلہ
اتار رہے ہوں ۔ جس کو جتنا جیسا موقع مل رہا ہے اس ملک پہ ہاتھ صاف کر رہا
ہے ۔۔ پانی اور بجلی کی چوری سے لیکر فرائض سے غفلت تک جس کے اختیار میں جو
کچھ ہے اس سے اپنا حصہ وصول کرنے میں مصروف ہے اور گلگت بھی کسی سے کم اور
پیچھے نہیں یہاں تو سب کے وارے نیارے ہیں کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں جی
بی پی ڈبلیو ڈی سے لے کرتعلیم جیسے مقدس پیشے تک لوٹ مار کی سیل لگی ہوئی
ہے ۔ عام آدمی، پولیس والا، بیوروکریٹ، سیاست دان کسی نہ کسی طرح قوم کو
لوٹ رہا ہے، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے، جس کا جی چاہتا ہے سڑک پر
کچرا پھینک دیتا ہے، دو لوگ سڑک پر حادثہ ہوجانے پر ایک دوسرے سے یہ تو
ضرور پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ’’کیا سڑک تمہارے باپ کی ہے؟‘‘ لیکن اس باپ کی
سڑک پر وہ کچرا گندگی پھینکتے ایک لمحے کو نہیں سوچتے۔ -
حکومت کی ذمہ داری تو خیر اپنی جگہ مگر ہمارے خیال میں عوامی جگہوں پر
صفائی ستھرائی کے معاملے میں پبلک پرکئی گنا زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی
ہے۔کیوں کہ گورنمنٹ آپ کو ایک چیز بنا کر تو دے سکتی ہے لیکن وہ لوگوں
کواُس چیز کے استعمال کے بعد صاف رکھنے پر مجبور نہیں کر سکتی |
|