کراچی اور اسلام آباد کے میئر کا فیصلہ ہوگیا

ملک میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں کراچی ، راولپنڈی اور پنجاب کے کچھ اضلاع اور کراچی میں انتخابات مکمل ہوئے۔ کراچی کے عوام نے اپنے میئر کے انتخاب کا فیصلہ دے دیا۔ اسی طرح اسلام آباد کے باسیوں نے بھی اپنےمیئر کا فیصلہ کرلیا۔ ذیل میں تیسرے مرحلے کے انتخابات کے حوالے سے تجزیہ کیاگیا ہے
ملک میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے بعد تیسرا مرحلہ بھی اختتام کو پہنچا۔ تیسرے مرحلے کے انتخاب دارالخلافہ اسلام آباد میں یکم دسمبر کو ہوئے مسلم لیگ نون کو غیر سرکاری نتائج کے مطابق برتری حاصل ہوگئی ۔ نون لیگ کے سید ظفر علی شاہ ہار گئے جو نون لیگ کے اسلام آباد کے میئر کے بھی مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے۔ لیکن میئر نون لیگ ہی کا ہوگا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق کل 50 نشستوں میں سے نون لیگ 19، تحریک انصاف 18 اور 10آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔یہاں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی۔تیسرے مرحلے کاآخری میدان 5 دسمبر کوپنجاب کے چند اضلاع کے علاوہ کراچی میں دھوم دھام سے سجا اور اپنے منطقی انجام کو کسی بڑے حادثے کے بغیر اختتام کو پہنچ گیا ۔ بازارانتہائی سچ دھج کے ساتھ گرم تھا۔ طویل عرصہ کے بعد کراچی کی سیاسی رونقیں لوٹ آئی تھیں۔ جس سٹرک چوراہے کو دیکھیں سیاسی جماعتوں کے کیمپس لگے ہوئے تھے ۔ اپنے اپنے جماعت کے ترانے تیز آواز سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ پارٹی ترانے ، جھنڈوں کی بہاریں اورجوشیلے نعروں کی گونج ہر جانب سنائی دے رہی تھی، ریلیاں اور جلسے جن پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پابندی تھی ہر جماعت ہی اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی نظر آئی۔ ریلیاں سب ہی جماعتوں نے نکالیں۔ کارنر میٹنگ جلسوں کا روپ دھار لیا کرتی تھیں ، لیڈر تیز و تند تقاریر سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرتے رہے۔دوران مہم کوئی نہ خوش گوار واقع رونما نہیں ہوا، یہ ایک اچھی بات رہی۔ ہر جماعت ایک دوسرے پر لعن تعن کرتی رہی،ایک دوسرے کے اگلے پچھلے کرتوت گنوانے، ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ کراچی کو فتح کرنے ، کراچی کو واہ گزار کرانے کی باتیں ہو تی رہیں،کوئی کہتا تھا کہ پانچ دسمبر کو کراچی ہمارا ہوگا، دوسرا کہتا کہ نہیں ہمارا ہوگا ان تمام تر الزامات در الزامات کے باوجود کوئی نہ خوش گوار واقعہ کا نہ ہونا سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، لیڈروں کی دانش مندی تصور کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ لیڈرکسی خاص حکمت علمی کے تحت اپنے کارکنوں کو تصادم سے دور رکھے ہوئے تھے تو انہیں آئندہ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ۔سیاست اسی کانام ہے۔ تصادم یا لڑائی جھگڑا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم کراچی کی سطح پر سیاسی لیڈروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصادم سے، دنگا فساد سے، ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے سے سیاسی فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہی ہوتا ہے۔سیاسی لیڈروں کا تو کچھ نہیں بگڑتا ، غریب کارکن زخمی ہوجاتے ہیں، جان سے چلے جاتے ہیں ، لواحیقین زندگی بھر چلے جانے والوں کی یاد میں گزاردیتے ہیں، لیڈروں کا کام افسوس کے دو بول بول دینا اور بس۔ اس دوران عمران خان نے کراچی کا طوفانی سیاسی دورہ بھی کیا اور متعدد جلسوں میں انتہائی جوشیلے انداز سے مخالفین کو للکارا، ڈرایا، دھمکایا، شکست کا خوف دلایا ۔لیکن یہ سب کچھ بھی کام نہ آیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحادبنا کر الیکشن لڑ ا، یہ اتحاد بھی متحدہ کے ووٹ بنک کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 1520نشستوں کے لیے 5401امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ان میں 70 لاکھ سے زائد ووٹروں کو اپنا رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ کراچی کے 6اضلاع ہیں جن میں پولنگ ہوئی۔ جن جماعتوں کے امیدوار مدِ مقابل تھے ان میں تحریک انصاف وجماعت اسلامی، ایم کیوایم، نون لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، مرزا گروپ، نبیل گبول گروپ، سنی تحریک، مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ آزاد امیدواروں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی۔کراچی میں عرصہ دراز سے حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے بھی بھر پور انداز سے انتخابی مہم چلائی۔ ریلیاں نکلیں ، جلسے ہوئے، بیان بازی اور الزام اور جواب ِالزام کا سلسلہ عروج پر رہا ، بلاول ھیلی کاپٹر سے جلسہ گاہ ملیر پہنچے اور لکھی ہوئی تقریر پڑھ ڈالی۔ اسی ھیلی کاپٹر سے واپس پرواز کر گئے۔ اے این پی کا ووٹر تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہوگیا ہے۔ نون لیگ نے لگتا ہے بادلوں کا رخ دیکھ کر کراچی میں اپنی انتخابی مہم کو بین بین رکھا ۔نون لیگ کے مقامی لیڈر شپ فیلڈ میں رہنے کے بجائے ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی موضوعات پر فلسفہ بیان کرنے کو ترجیح دیتی رہی۔ نبیل گبول کا گروپ لیاری کے چند علاقوں تک جب کہ مرزا جی کا گروپ ملیر کے چند علاقوں تک محدود رہا ، اسی طرح مہاجرقومی موومنٹ بھی مخصوص علاقوں میں سرگرم رہی۔ انتخاب کا دن بخیر و عافیت گزر گیا ، جو واقعات لڑائی جھگڑے کے ہوئے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں تو خون خرابے کا گمان کیا جارہا تھا۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے نتائج سے کچھ مختلف نہیں۔ پنجاب میں پنجاب کی حکمراں جماعت اپنے میئر بنا نے میں کامیاب ہوئی، اندرون سندھ میں سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی نے22 اضلاع میں کامیابی حاصل کر کے میدان مار لیا ، یہاں تحریک انصاف کا وجود ہی نہیں۔ اسلام آباد میں بھی نون لیگی میئر بنے گا، تحریک انصاف یہاں دوسرے نمبر پر ہے ، یہاں پی پی کا صفایا ہوگیا ، تیسرے اور آخری مرحلے میں پنجاب کے حلقوں میں نون لیگ سر پٹ دوڑ تی ہوئی آگے نکل گئی، شیخ رشید سمیت تحریک انصاف پیچھے رہ گئی۔ راولپنڈی میں بھی نون لیگ نے میدان مار لیا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی واش آؤٹ ہوگئی، کراچی میں 5دسمبر کوہونے والا معرکہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا، بے شمار قسم کے منفی تجزیے، وسوسے، خدشات ،دنگا فساد، خون خرابے کی باتیں دم توڑ گئیں ، کراچی پر گزشتہ تیس برس سے حکمرانی کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ باوجود مشکلات کے شہر قائد کے عوام کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب رہی اور اپنا میئر بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ کراچی کی کل 209نشستوں میں سے متحدہ کو 117 نشستیں حاصل ہوچکی ہیں کچھ کا نتیجہ ابھی آنا باقی ہے ، پیپلز پارٹی کو 17، آزاد13اور تحریک انصاف و جماعت اسلامی کے اتحاد اور نون لیگ 32نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی۔ متحدہ نے واضح برتری حاصل کر لی ہے اور اسے اپنا میئر اور ڈپٹی میئر بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ حیرت انگیز طور پر متحدہ کے غیر معروف امیدواروں نے تینوں مخالف جماعتوں کے ضلعی صدور حافظ نعیم الرحمٰن، علی زیدی اور پیپلز پارٹی کے نجمی عالم کو شکست سے دورچار کردیا یہ متحدہ کے خلاف اتحاد کے ستون تصور کیے جارہے تھے ۔ متحدہ کے کامیاب امیدوار وسیم اختر کو متوقع کراچی کا میئر اور متحدہ کی ہی زرین مجید ڈپٹی میئر کی مضبوط امیدوار نظر آرہی ہیں۔

متحدہ کی واضح برتری کو مخالف جماعتوں کے مقامی سربراہوں نے چھوٹے موٹے تحفظات کے ساتھ تسلیم کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کے ڈاکٹر علوی نے فتح پر متحدہ کومبارک باد دی، دیگر لیڈروں نے بھی فراغ دلی کا ثبوت دیا جو ایک مثبت پیغام ہے جو سیاسی جماعتوں کو جائے گا اور اس سے بہتر فضاء قائم ہونے میں مدد ملے گی۔ البتہ تحریک انصاف کے ضلعی صدر علی زیدی کی جانب سے نتائج سے قبل پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی گئی اور مخالف جماعت کے ووٹرں کو مخاطب کرتے ہوئے جو جملہ کہا گیا وہ کسی طور بھی مناسب نہیں تھا ، یہ کراچی کے عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ انہیں کسی موقع پر اپنے یہ الفاظ واپس لے لینے چاہیے۔ انتخابات اختتام پزیر ہوئے ۔ اب سب کو مل کر اپنے اپنے شہروں کی حالت زار کو بہتر بنانے میں وقت ذائع کیے بغیر لگ جانا چاہیے۔ جیتنے والوں کو بلا تفریق اپنے شہر کے ہر ہر علاقے، گلی کوچے کے مسائل کو بلاتفریق حل کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہوجس کی سٹرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں، گٹر لائنیں چوک نہ ہوں، پانی ، بجلی، گیس کے مسائل نہ ہوں، ٹرانسپورٹ کے مسائل سے کوئی شہردوچار نہ ہو۔ مسائل کا انبار ہے ہر شہر میں منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ وہ اولین فرصت میں ان مسائل کے حل کی منصوبہ بندی کریں۔ حکومت ان نمائندوں سے مکمل تعاون کرتے ہوئے انہیں فنڈز فراہم کرے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437343 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More