جمہوریت کا حُسن!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ریحام خان اگرچہ پہلے بھی اینکر تھیں،
مگر پاکستان میں ان کا نام اس قدر مقبول عام نہ تھا، گزشتہ برس اسلام آباد
میں تحریک انصاف کے مشہورزمانہ دھرنے میں بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں ،
بہت سی نئی روایات دریافت ہوئیں ، ان میں سے ایک دریافت ریحام خان تھیں تو
تحریک انصاف کے چیئرمین کی زندگی میں آندھی کی طرح آئیں اور بگولے کی طرح
چلی گئیں۔ اگرچہ کسی لیڈر کی زندگی کا کوئی گوشہ ’ذاتی‘ نہیں ہوتا، تاہم
بال کی زیادہ کھال اتارنا بھی زیادہ مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان اور
ریحام کی زندگی کے بہت سے معاملات الجھے ہوئے ہیں، مگر معاملہ ختم ہونے کے
بعد زیادہ انکشافات کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم جس کپتان کی شامت کے ساتھ
ریحام خان کا ذکر آیا ہے، وہ عمران خان نہیں، بلکہ پی آئی اے کا کپتان ہے۔
لندن سے پاکستان آتے ہوئے خبر ہے کہ ریحام خان نے کاک پٹ کا بھی معائنہ کیا۔
تحقیقات پر ریحام کا کاک پٹ میں جانا ثابت ہوگیا ہے، اس لئے اب جہاز کے
کپتان کو انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ کاک پٹ میں کسی مسافر کا
جانا غیر قانونی کام ہے۔ یہ چونکہ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے، اگر پنجاب
حکومت کی کہانی ہوتی تو کپتان کو معطل کرکے آرام پر بھیج دیا جاتا ، اگر
پنجا ب کے کپتان کو زیادہ غصہ آجاتا تو مزید سخت فیصلہ بھی کیا جاسکتا تھا۔
ایک پائلٹ بھی آج کل زیر عتاب ہے، وہ جہاز کراچی سے اڑا کر لاہور لایا اور
وہاں رن وے پر اتارنے کے بعد اسے قریبی کھیتوں میں لے گیا، جہاں اسے بریک
استعمال کرنے کی ضرورت نہ رہی اور جہاز خود ہی کچھ سفر کرنے کے بعد رک گیا۔
اگرچہ مسافر خیریت سے رہے ،مگر ایک دہشت سی پھیل گئی، اور کسی پر ذمہ داری
ڈالنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس سلسلے میں پائلٹ ہی سب سے مناسب آدمی
دکھائی دیا، جس پر اس تمام معاملے کا بوجھ ڈالا جائے۔ چنانچہ میڈیکل رپورٹس
حاصل کی گئیں، معلوم ہوا کہ پائلٹ نے پی رکھی تھی، ہمت ہے کہ اس نے پی کر
کراچی سے لاہور کا سفر طے کرلیا مگر اس پر پینے کا اثر اس وقت ہوا جب
لینڈنگ کا موقع آیا۔ یہ چونکہ نجی کمپنی کا جہاز تھا اس لئے اس پائلٹ کی
معطلی کے احکامات تو جاری نہ ہوئے، بلکہ اسے براہِ راست جیل بھیج دیا گیا،
جس کی ابھی تک ضمانت نہیں ہوسکی۔ خبروں میں آئے روز پائلٹوں کے پینے کا ذکر
سنتے پڑھتے رہتے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ جہاز اڑانا کس قدر حساس معاملہ ہے،
مگر پائلٹ بھائی اسے کتنا سادہ اور ’ایزی‘ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہا
جاتا تھا کہ جہاز اڑانے کے لئے پینا منع ہے، تاہم اگر آپ نہیں رہ سکتے تو
گھر سے ’’پی آئی اے‘‘۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 154میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے، جس میں مقابلہ روایتی
حریفوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہے، ا س الیکشن کی ایک اہمیت یہ ہے
کہ اس حلقے کا شمار اُن چار حلقوں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں تحریک انصاف
کا مطالبہ تھا کہ انہیں کھولا جائے۔ دوسری اہمیت یہ کہ الیکشن ٹربیونل نے
یہاں کا الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا، اور منتخب ایم این اے کو تاحیات
نااہل قرار دے کر دوبارہ الیکشن کا اعلان کردیا تھا۔ اس حلقے کی تیسری
اہمیت یہ ہے کہ یہاں سے تحریک انصاف کے مرکزی قائد جہانگیر ترین الیکشن لڑ
رہے ہیں۔ چوتھا واقعہ یہ پیش آیا کہ عدالت عظمیٰ نے ایم این اے کی ڈگری کو
اصلی قرار دیتے ہوئے بحال کردیا اور اس کی تاحیات نااہلی ختم کردی۔ مگر کچھ
ہی روز میں الیکشن کو دوبارہ کالعدم قرار دے کر پھر الیکشن کا ڈول ڈال دیا
گیا۔ اب سابق ایم این اے اور مسلم لیگ ن کے امیدوار صدیق بلوچ کو ایک مرتبہ
پھر نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس مرتبہ کہا گیا کہ موصوف نے کاغذاتِ نامزدگی
داخل کراتے وقت اثاثے چھپائے ہیں۔ ہائی کورٹ نے اس الزام میں نااہل کردیا۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب وہ سپریم کورٹ میں جائیں گے جس سے وہ بحال ہو
کر میدان میں آجائیں گے ،یہاں یہ عمل بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ صدیق بلوچ
پر جعلی ڈگری کا مقدمہ بھی کافی عرصہ چلتا رہا، ثبوتوں کی روشنی میں عدالت
نے ان کی اسناد درست قرار دے دیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے
کے لوگوں کا حق نمائندگی یوں نبھایا ہے کہ کبھی اسمبلی میں کوئی بات نہیں
کی اور نہ ہی علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے زیادہ توانائیاں صرف کی ہیں۔
جبکہ جہانگیر ترین کی علاقے کے لئے سماجی خدمات بھی بہت سی ہیں، اور عوام
کو بھی یقین ہے کہ جہانگیر ترین مسائل بہتر طریقے سے حل کروا سکتے ہیں،
مگرامکان ہے کہ جیت صدیق بلوچ کی ہوگی، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
|
|