مقامی حکومتوں کا نظام....ملک کی ترقی کا ضامن

5دسمبر کو پنجاب کے 12 اور کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے انعقاد کے بعد پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں۔ تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں بھی پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری رہا، تاہم آزاد امیدوار پہلے دو مراحل سے بھی زیادہ تعداد میں منتخب ہوئے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے مقابلے میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا اتحاد بھی کامیاب نہ ہوسکا، جبکہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کراچی میں اپنے گڑھ لیاری کی 15 میں سے صرف 6 نشستیں حاصل کر پائی۔ متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی میں مجموعی طور پر 255 نشستیں حاصل ہوئیں، پیپلز پارٹی کو 39، جبکہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو دس دس نشستیں حاصل ہو سکیں اور کراچی میں 34 آزاد امیدوار کامیابی حاصل کرسکے۔ اس سے پہلے 31 اکتوبر کو پنجاب کے 12 اور سندھ کے 8 اضلاع میں پہلے اور 19 نومبر کو پنجاب کے 12 اور سندھ کے 14 اضلاع میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ دونوں مرحلوں کے انتخابی نتائج کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ تینوں مراحل میں آزاد امیدوار مجموعی طور پر دوسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے ہیں۔ ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کی تکمیل کے ساتھ ملک میں بلدیاتی نظام کی عملداری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اب آخری مرحلے میں میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنوں کے لارڈ میئرز، میئرز، ڈپٹی میئرز، ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں، ڈپٹی چیئرمینوں اور یونین کونسل سے میٹروپولیٹن کارپوریشنوں تک خواتین، لیبر، اقلیتی اور یوتھ کی مخصوص نشستوں پر انتخاب ہو گا، جس کے ساتھ ہی گزشتہ سات سال سے معطل بلدیاتی نظام بحال ہو جائے گا۔

مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بلدیاتی ادارے کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ملک کا شہری نظام بہتر اور مضبوط ہو، مقامی حکومتیں فعال اور فکر مند ہوں تو ملک کا ترقی کرنا یقینی ہے۔ ترقی کا عمل نچلی سطح سے اوپر کی جانب جاتا ہے۔ اگر تمام منتخب نمائندے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو کچھ ہی عرصے میں ملک ترقی کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ گزشتہ روز عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری آبادی کے بہتر انتظام سے پاکستان دنیا کی امیر قوموں میں بآسانی شامل ہوسکتا ہے۔ عالمی بینک کے ممتاز اربن اکانومسٹ پیٹر ایلیر نے کہا ہے کہ” شہروں کے نظام کار میں بہتری کے ذریعے پاکستان ترقی اور خوشحالی میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں شہروں کا حصہ 78 فیصد ہے اور ویژن 2025ءکے تحت شہری ترقی کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے، جس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی، جبکہ پاکستان کا شمار بھی دنیا کی امیر ترین اقوام میں ہوگا۔“ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمایندوں پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل پر بھرپور توجہ دیں، کیونکہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی ان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ عوام کو مسائل سے نجات دلانا انہیں عوامی نمائندوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہمارے علاقے منتخب عوامی نمائندوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔ بہت سے علاقوں کی گلیوں میں کیچڑ اور کچروں کے ڈھیر ہیں۔ نالیاں گٹر ابل ابل کر غلیظ ترین بدبو چھوڑ رہے ہیں۔ مسجدوں کے راستوں میں تالاب کھڑے ہیں۔ ہر چوک پر غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ فٹ پاتھوں کو ناجائز تجاوزارت نے گھیرا ہوا ہے۔ پارکوں میں جھولوں کی بجائے لوگوں نے اپنے مال مویشی باندھ رکھے ہیں۔ دور دراز کی بستیوں میں بہت سے اسکولوں کو مویشی منڈیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں یہ اور اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں، جن سے چھٹکارہ دلانا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندے اگر اپنی ذمہ داری ادا کریں تو عوام کو ان تمام مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔

بلدیاتی انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والے ادارے دنیا کے کئی ممالک میں ترقی کے ضامن ہیں۔ امریکا ہو یا برطانیہ یا پھر چین ہو، ان کی جمہوریتوں میں مقامی سطح پر ترقیاتی کام یہی بلدیاتی ادارے کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ صرف ملکی سطح کے پالیسی معاملات اور قانون سازی کے کام انجام دیتی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے تجربات کے بعد عوامی حکومتوں میں عوام کے مسائل ان کی دہلیز اور ان کے علاقوں میں حل کرنے کے لیے فعال لوکل باڈیز سسٹم قائم کیے ہیں، جن کے الیکشن بروقت ہوتے ہیں اور عوام ہر قسم کی آزادی، اپنی مرضی و منشا کے تحت اپنے علاقے کے لیے نمائندے بذریعہ انتخابات منتخب کرتے ہیں۔ کونسلرز چنے جاتے ہیں۔ انہیں میں سے چیئرمین یا میئرز کا انتخاب ہوتا ہے۔ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے گرانٹیں لیتے ہیں۔ عوامی بہبود کے لیے یکسوئی سے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ سڑکیں، گلیاں، بازار پختہ کرواتے ہیں۔ اسکول اور ہسپتال چلاتے ہیں۔ عوامی فلاح کے اداروں کو ہمہ وقت فعال رکھتے ہیں۔ مقامی سطح پر لوگوں کی زندگیوں میں سکھ بوتے اور آزار کے کانٹے نکالتے ہیں۔ یہ سسٹم اپنے اپنے علاقوں کو صاف ستھرا رکھنے، انہیں سرسبز و شاداب بنانے، لائبریریوں کو چلانے، کمیونٹی سینٹروں میں عوام کو راحت کے اسباب مہیا کرنے، مقامی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں بلدیاتی نظام مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بنیاد ہے۔ بہت سے ملکوں میں اسی سسٹم سے نتھر کر اعلیٰ لیڈر شپ ملکوں کی باگ ڈور سنبھالتی ہے۔ بہترین کارکردگی دکھانے والا کونسلر سے ترقی کرکے ملک کا وزیراعظم یا صدر بن جاتا ہے۔ آج ترکی میں صدارت کی کرسی پر بیٹھے طیب اردوان ابتدا میں کونسلر منتخب ہوئے تھے، 1990ءکے عشرے میں استنبول کے میئر تھے۔ اچھے کردار، بہترین وژن، اعلیٰ کارگزاری کی بنا پر ترکی کے ہردل عزیز حکمران بن گئے ہیں۔ طیب اردوان نے گلیوں کوچوں کو صاف ستھرا بنا کے جس مشن کا آغاز کیا تھا، اسی تجربے نے اسے سارے معاشرے کی غلاظتیں صاف کردینے کا لازوال ہنر سکھادیا۔ انڈونیشیا کا صدر ایک بڑھی کا بیٹا ہے۔ وہ پہلے شہر کا کونسلر، پھر میئر، پھر جکارتہ کا گورنر اور آخر میں ملکی صدر بنا۔ چین کی ترقی میں شہری نظام کی درستگی، عوامی حکومتوں کی مضبوطی کا اہم کردار ہے۔ چین کی مقامی حکومتیں بہت بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں، جس کی بدولت چین تیزی کے ساتھ ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہاہے۔ اگر پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمائندے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے ادا کریں تو پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح تیزرفتاری سے ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.