ایسا ہی موسم تھا ایسے ہی حالات تھے کشیدگی عروج پر تھی ،
تند و تیز بیانات اور الزامات کا موسم تھا ۔جنگ کی دھمکیاں، مذاکرات کا
تعطل اور پھر بھارت نے پاکستان کے لئے فضائی راستہ بند کر دیئے تھے۔ یہ وہ
دن تھے جب بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کے لئے پاکستان کی سرحدوں پر 5
لاکھ فوج تعینات کر رکھی تھی ۔ لگتا تھا بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا ۔
بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے خود ساختہ منصوبے کی آڑ میں بھارت پاکستان کو
جنگ کی دھمکیاں دے کر دبائو میں لانا چاہتا تھا ۔ بھارتی سٹیبلشمنٹ کی
خواہش تھی کہ کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے پرجوش حامی جنرل پرویز مشرف کو
سبق سکھایا جائے ۔ اسے تنہا کر دیا جائے اور جنگ سے ڈرایا جائے،بھارتی
قیادت کے بیانات میں بھی یہ تکرار موجود تھی بات چیت نہیں ہو گی، ملاقات
نہیں کریں گے ،پاکستان کو سبق سکھائیں گے ۔ جنرل ( ر )پرویز مشرف پڑوسیوں
کے ساتھ کشیدگی کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات سے آگاہ تھے ۔ بھارتی فضائی
پابندیوں کے باعث پرویز مشرف کو کولمبو کے راستے پہلے بنگلہ دیش جانا پڑا
اور وہاں سے کٹھمنڈو پہنچے تھے۔4 تا 6 جنوری 2002 کو نیپال کے دارالحکومت
کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس کے موقع پر کشیدگی کی وجہ 2001 میں
بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کی وجہ سے تھی ۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ
کی بنیاد پر بھارت کا الزام تھا کہ پاکستان کی ایما پر کشمیری مجاہدین نے
حملہ کیا ہے ۔ اسی ناکردہ جرم میں پروفیسر عبدلرحمان گیلانی کو بھی دھر لیا
گیا تھا سزا ہوئی مگر پھر عدالت میں بے گناہ قرار پائے۔ حالات ، واقعات نے
اس تصویر کا یہ رخ بھی دنیا کو دکھایا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان
کو دباو میں لانے کی بھارتی خفیہ اداروں کی سازش تھی ۔4 جنوری 2002 کو
گیارہو یں سارک سربراہ کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں شروع ہوئی
تو پاکستان کا فوجی کمانڈر سارک سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر
رہا تھا۔بھارت کی نمائندگی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کر رہے تھے ۔
سربراہ کانفرنس شروع ہونے پر لوگوں کی نگاہیں واجپائی اور پرویز مشرف پر
تھیں ۔ غیر ملکی سفارت کار دیکھنا اور سننا چاہتے تھے کہ بھارت اور پاکستان
کے یہ دونوں رہنما اپنی تقریروں میں کیا کہیں گے اور کیا یہ دونوں سربراہ
اس خطے میں آئندہ جنگ نہ کرنے کا عہد کرکے اس خطے کو امن کا گہوارہ بنانے
کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف تقریر کرنے آئے
تو انہوں نے بڑے واضح اور پرزور انداز میں کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ہر
سطح پر اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور کشمیر سمیت تمام مسائل اور
معاملات پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہے پاکستان امن پسند ملک ہے
اور سارک کے تمام ممالک کے ساتھ ام کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تاکہ ہم سب مل کر
اقتصادی ترقی کے ذریعہ اس خطے میں پائی جانے والی غربت ، محرومی اور تنگ
دستی کو ختم کر سکیں ۔ جنرل پرویز مشرف تقریر کے ختتام پر اپنی نشست پر
بیٹھنے کے بجائے سیدھے اٹل بہاری واجپائی کی نشست کے پاس پہنچ گئے ۔گھٹنوں
کے درد میں مبتلا اٹل بہاری واجپائی کو یہ امید نہیں تھ کہ مشرف ایسا
کریںگے کیونکہ جب وہ واجپائی کی نشست کے پاس پہنچے تو وہ اونگھ رہے تھے ۔
واجپائی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ گٹھنوں کی درد کی پروا نہ
کرتے ہوئے اپنے نشست سے اٹھ کر مشرف سے ہاتھ ملایا جائے اور پھر دنیا نے
ٹیلی وژن سکرینوں پر دیکھا کہ دو حریف ملک کے سربراہان مملکت ہاتھ ملا رہے
تھے ۔دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا اور دنیا کو یہ پیغام
دیا کہ جوہری طاقت کے حامل یہ ملک بات چیت سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ۔۔
اس منظر کو دیکھ کر کانفرنس ہال میں موجود دوسرے سربراہان مملکت نے بھی
تالیاں بجا کر ستائش کی ۔ یہ 13 سال پہلے کی بات ہے آج حالات مختلف ہیں مگر
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور مذاکرات کی معطلی کا باب ابھی ختم
نہیں ہوا ۔ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں 2014 میں بھی 2002 والی کشیدگی
موجود تھی ۔ فرق صرف یہ تھا کہ بوڑھے واجپائی کی طرح مودی اونگھنے کے بجائے
اپنے منہ کے آگے کتاب رکھ کر نواز شریف سے انکھ نہ ملانے کی کوشش کر رہے
تھے ۔ پاکستانی قوم کے نمائندے میاں محمد نواز شریف نے کٹھمنڈو سارک سربراہ
کانفرنس 2014 میں اپنی تقریر کے بعد بھارتی قوم کے نمائندے نریندرا درمو
داس مودی کی نشست کے قریب سے گزرے تو مودی جان گئے تھے کہ نواز شریف بھی
پرویز مشرف کی طرح اقدام کر سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے منہ کے آگے کتاب
رکھ لی تھی تاکہ اگر نواز شریف اور ان کی آنکھیں دوچار نہ ہو جائیں ، انہیں
واجپائی والی تاریخ دہرانی نہ پڑے ۔ مغربی خبرساز اداروں کے فوٹو گرافر زنے
مودی کی نشست کے پاس سے گزرتے ہوئے نواز شریف کی ایسی تصویر کیمرے کی آنکھ
میں قید کر لی تھی جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ نواز شریف بھی مشرف کی تاریخ
دہرانا چاہتے تھے ۔ حالانکہ نواز شریف دو روز پہلے کہہ چکے تھے کہ بات چیت
کا دروازہ انہوں نے بند کیا ہے ۔ بات چیت کے لئے انہیں ہی پہل کرنی ہو گی ۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی یہ کہتے رہے کہ ہم نے بات چیت کی کوئی درخواست
نہیں کی ۔ مغربی خبر ساز اداروں نے نواز شریف کی ایسی تصویر جاری کی جسے
دیکھ کر لگتا ہے کہ نواز شریف مودی سے ہاتھ ملانے کے لئے بے تاب ہیں۔ ان کی
نشست کے آر پار چکر لگا رہے ہیں اور مودی میاں نواز شریف کی کوئی پزیرائی
نہیں کر رہے مغربی خبر رساں اداروں نے دراصل پاک بھارت کشیدگی کی کہانی میں
نواز شریف کی تضحیک کا پہلو نکال لیا تھا ۔ پاکستان میں جو بھی حالات ہوں
نواز شریف 18 کروڑ پاکستانیوں کے نمائندے ہیں ۔ سارک سربراہ کانفرنس میں وہ
مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہے تھے نہ ہی اپنے لاہور کے انتخابی حلقے کی بلکہ
وہ پاکستانی قوم کی نمائندگی کر رہے تھے۔ چنانچہ مجھے اور میرے دوستوں کو
نواز اور مودی کی تصویر میں پاکستانی قوم کی تضحیک کا پہلو نظر آیا ۔ یہ دو
ٹوک بات ہے کہ مسائل کا حل بات چیت سے ہونا ہوتا ہے لیکن مدمقابل لومڑی
جیسا ہوشیار ہو تو بات چیت سے پہلے ڈرانے دھماکے کی بھی کوشش کرتا ہے تاکہ
بات چیت میں اپنے مطلب کے نتائج حاصل کئے جا سکیں ۔کھمنڈو میں 2014 کی سارک
سربراہ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں نواز شریف کا مودی سے آمنا سامنا ہوا
تھا کچھ لمحوں کی ملاقات ہوئی تھی ۔پاکستانی نجی ٹیلی وژن چینلز میں کچھ
لمحوں کی اس ملاقات کو ایسے بیان کیا جا رہا تھا جیسے کوئی بڑا معرکہ ہوگیا
ہے ۔نواز شریف اگر کہہ رہے ہیں کہ وہ ملاقات کے لیے بے تاب نہیں تو یہ
پاکستانی قوم کے وقار کی علامت ہونی چاہیے تھی ۔ ہو سکتا ہے کل پاکستان اور
بھارت کے درمیان بات چیت کا عمل بھی شروع ہو جائے تلخیاں ختم ہو جائیں
ناراضگی دور ہو جائے مگر نواز شریف اور مودی کی تصویر تاریخ کا حصہ بن گئی
ہے ۔ دنیا اس تاریخ کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس تاریخ کو بدلا
جا سکتا ہے ۔ این ڈی ٹی وی کی خاتون بھارتی صحافی برکھا دت کی کتاب stories
from Indian fualt lines نومبر2015 میں شائع ہوئی ۔ برکھا دت نے کتاب میں
انکشاف کیا ہے کہ2014 کی سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستان بھارت
وزرائے اعظم کی خفیہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔ برکھا دت کا دعوی ہے کہ وزیر
اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 کی سارک کانفرنس میں صرف
ہاتھ نہیں ملایا بلکہ سائیڈلائن پرخفیہ ملاقات بھی کی۔انہوں نے اپنی کتاب
میں لکھا ہے کہ دونوں رہنماں کی خفیہ ملاقات کا انتظام بھارتی اسٹیل
ٹائیکون سجن جندل نے کیا تھا۔برکھا دت نے اپنی کتاب میں بڑی وضاحت سے
انکشاف کیا ہے کہ سارک کانفرنس سے قبل نریندر مودی نے سجن جندال کو اپنے
دفتر بلا بھیجا تھا تاکہ وہ نیپال میں سارک کانفرنس کے دوران ان کی نواز
شریف سے خفیہ ملاقات کو ممکن بنائیں ۔چنانچہ سارک کانفرنس کے موقع پر دونوں
رہنماں نواز شریف اور مودی کی سرکاری ملاقات تو چند منٹ میں ہی اختتام کو
پہنچ گئی تھی لیکن جندال کی طے کردہ خفیہ ملاقات نیپال کے ایک ہوٹل میں ایک
گھنٹے تک جاری رہی۔ملاقات کے دوران نوازشریف اورنریندر مودی نے دوطرفہ
تعلقات کی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ملاقات میں مودی نے
نوازشریف سے کہا چند مجبوریوں کی وجہ سے باضابطہ مذاکرات نہیں ہوسکتے لہذا
دونوں وزرائے اعظم نے فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں جہاں مناسب
موقع ہوغیررسمی ملاقات کی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے نیپال
میں سارک کانفرنس کے دوران مودی نواز شریف خفیہ ملاقات کی تردید کی ہے ۔
نیپال کی خفیہ ملاقات کا شوشہ دراصل پاکستان میں فوجی اور سول قیادت کے
درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش لگتی ہے اس لیے کی برکھا نے لکھا ہے کہ
ملاقات میں پاکستانی وزیراعظم نے مودی سے کہا تھا کہ پاکستانی فوج نے میرے
ہاتھ سے تمام اختیارات لے لیے ہیں، اگر آپ کو میرے ساتھ معاملات چلانے ہیں
تو افواج پاکستان کو کمزور کرنا ہو گا۔ برکھا بے باک خاتون ہیں ، برکھا دت
نے اپنی نئی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ انھیں بچپن میں جنسی زیادتی
کا نشانہ بنایا گیا تھا۔برکھا دت نے اس کتاب میں اپنے قصور وار کو ایک
'شیطان' قرار د یتے ہوے کھا ہے کہ میری عمر ابھی دس سال بھی نہیں تھی، وہ
شخص ہمارے دور پرے کا رشتے دار لگتا تھا جو مختصر عرصے کے لیے ہمارے گھر
رہنے آیا تھا۔نیپال کی خفیہ یا مختصر ملاقات کے بعد بھی نواز مودی ملاقا
تیں ہوئی ہیں ، امریکہ میں دونوں رہنماوں کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی تھی
تاہم گزشتہ دوں پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں بارے عالمی کانفرنس کے دوران
مختصر ملاقات اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ مودی نے مشرف کی تاریخ دھرائی تھی
۔ کانفرنس کے موقع پر مودی نواز شریف کے پاس آئے تھے دونوں کے درمیان مختصر
بات چیت ہوئی َ ۔اللہ کرے ملاقاتیں چاہے خفیہ ہوں یا اعلانیہ جاری رہیں
تاکہ دونوں ملک کشیدگی سے نکل کر ترقی کے راستے پر گامزن ہوں۔ |