دنیا بھر کے مسلمان مجسمہ حیرت بنے ہوے ہیں کہ وہ نہ صرف
دہشت گردی کے عفریت کی زد میں ہیں بلکہ ان کو پروان چڑھتی دہشت گردی کا ذمہ
دار بھی قرار دیا جا رہا ہے اور مغربی و یورپی ممالک میں مقیم مسلمان
خاندان اس باطل تصور کے بھیانک نتائج کا بھی سامنا کر رہے ہیں جہاں ان کے
جذبات مجروح کیے جا رہے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے غیر مسلم مسلمانوں
کی اقدار کا تمسخر اڑاتے ہیں اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی مذموم
کوشش کرتے ہیں۔اس تکلیف دہ پہلو کو مد نظر رکھتے ہوے مسلمانوں کو بصیرت کے
دریچے وا کر کے ٹھنڈے دماغ سے غور و فکر کی ضرورت ہے آخر کیا وجہ ہے کہ ایک
جانب تو مسلمان ہولناک دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوے ہیں اور دوسری جانب پوری
دنیا کے غیر مسلم مسلمانوں کو شک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کو دہشت
گردی کی نرسری قرار دیتے ہیں لیکن ہم مسلمان دنیا کو باور کروا دینا چاہتے
ہیں کہ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکہ جو اس وقت دنیا میں سب سے طاقت ور ملک
ہے داعش یا اس قماش کی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے سامنے بے بس نہیں ہے بلکہ
وہ سوچی سمجھی سازش اور مکارانہ حکمت عملی کے تحت اسلامی ممالک کی تباہی و
بربادی کا کھیل کھیلنیمیں مصروف عمل ہے۔وہ پہلے مسلم نام سے مماثل دہشت گرد
گروپ تشکیل دیتا ہے اس کو پروان چڑھاتا ہے اور اس کی دہشت گردانہ اور سفاک
کاروائیوں کو میڈیا کی زینت بنوانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور
پھر دہشت گروں کی سرکوبی کی آڑ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ٹارگٹ زدہ
اسلامی ملک کو نیست و نابود کر کے اس کے وسائل پر قابض ہو کر اپنے مذموم
عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
غور طلب بات ہے امریکہ اور یورپی ممالک اک عرصہ تک تو داعش کے ٹھکانوں سے
بے خبر رہے اور جونہی پیرس پر حملہ ہوا داعش سے متعلق معلومات کی گویا
پٹاری کھل گئی طرح طرح کے ثبوت منطر عام پر آنے لگے ملزموں کے پاسپورٹ تک
جائے واردات سے برآمد ہو گئے اور امریکہ بہادر و یورپی ممالک نے دہشت گردی
کے رونما ہونے والے اس واقعہ کے تانے بانے شام کی سر زمین سے جوڑ کر اس پر
ہلہ بول دیا اور گولہ بارود کی برسات شروع کر دی ۔ ان حملوں کے نتیجے میں
کوئی دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے نہ پہنچے لیکن یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ
ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ اور معصوم شامی باشندے موت کی وادی میں محو
سفر ہیں۔جو کھیل افغانستان اور عراق میں رچایا گیا اب وہی کھیل شام میں
کھیلا جا رہا ہے جبکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت ان
عیار اور مکار مسلم دشمنوں کا حقیقی چہرہ دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ ابھی تک
بیشتر اسلامی ملک اور مسلم تنظیمیں امریکہ کے اشاروں پر عمل پیرا ہیں اور
امریکہ کے موقف کو من و عن درست تصور کرتی ہیں۔سوچنے کی بات ہے نائن الیون
حملوں سے لے کر فرانس کی دھرتی پر ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں کتنے
غیر مسلم جاں بحق ہوے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ان چند افراد کے بدلے
لاکھوں افغانی،عراقی اور شامی باشندے جس بے دردی اور سفاکی سے کچلے جا رہے
ہیں اس کا حساب کون دے گا اور کون لے گاایک سوچ طلب سوال ہے۔مسلمانوں کے
گرد سازشوں کا جال اس مہارت سے ترتیب دیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی تباہ
کاریوں کا نشانہ بھی مسلمان ہیں اور ان قبیح وارداتوں کی ذمہ داری بھی
مسلمانوں کے کاندھوں پر ڈالی جا رہی ہے جو کسی صورت بھی مناسب طرز عمل نہیں
ہے کیونکہ مسلمان تو خود دہشت گردی کی ہولناکیوں سے متاثر ہ قوم ہے۔دہشت
گردی کی آڑ میں ہنستے بستے مسلم ممالک نیست و نابود ہو رہے ہیں ۔کھنڈرات
میں تبدیل ہو رہے ہیں اور ستم بالائے ستم کہ ہر سمت دہشت گردی کے حوالے سے
مسلمان غیر مسلموں کی زہر آلود فقرہ بازی کی بھی زد میں ہیں۔
دہشت گردی کے عوامل اور اس کے پشت پناہوں سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا
کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ عقلی اور منطقی دلیلوں کی روشنی میں اور بصیرت کی
آنکھ سے معاملے کا کھوج لگانے سے یہ سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ دہشت گردی کی
درپیش فضا کا فائدہ کس نے اٹھایا۔ کون ہے جو دہشت گردی کی آڑ میں مسلمان
ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ان کے گھر گھس آیا ہے ان کے وسائل پر قابض ہے
ان کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو استوار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا
ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کی وجہ سے نا قابل تلافی نقصان کس کا ہوا ہے ۔
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ سازش کے تانے بانے اس عمدگی سے پروئے گئے ہیں کہ
مسلمان ان سازشوں کے جال میں کلی طور پر جکڑ چکے ہیں اور دشمن مسلمانوں کو
مسلسل نشانہ بنائے ہوے ہے اور بظاہر مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈے سمیت
مجموعی تشخص کو مسخ کرنے میں سرخرو دکھائی دیتا ہے۔دشمن دہشت گردی کی آگ کو
ہوا دینے میں اک عرصہ سے مشغول ہے اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے
مسلمانوں کی صفوں میں سے ہی چند لالچی اور حریص یا پھر غریب اور مجبور
افراد کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنے مفادات کو پروان چڑھانے میں مگن ہے اور
وہ بظاہر اپنے اس مذموم ارادہ میں کامیاب بھی ہے ۔
یاد رہے امریکہ میں نائن الیون کو رونما ہونے والے دہشت گردی کے بد ترین
واقعہ کے بعد امریکہ نے القاعدہ اور طالبان کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا
اور پھر چشم فلک گواہ ہے کہ افغانستان پر گولہ باری کا وہ طوفان برپا ہوا
کہ پہاڑ بھی روئی کی طرح فضا میں بکھرنے لگے اور ہزاروں بے گناہ اور بے
تقصیر لوگ لقمہ اجل بن گئے اور وہ فورس جس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے یہ
سفاکانہ عمل دہرایا گیا آج بھی پوری شدو مد سے افغانستان کی سر زمین پر
اپنی متشدد کاروائیاں جاری رکھے ہوے ہے اور پورے طمطراق سے افغان حکومت کو
چیلنج کر رہی ہے جبکہ افغان حکومت بشمول امریکہ ان سے مذاکرات کی متمنی
ہے۔اسی طرح عراق کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے عراق کو نیست و نابود کر دیا
گیا ۔عراق کے وسائل پر قبضہ تو کر لیا گیا لیکن اس کے حالات آج تک نہ سدھر
سکے اور ہنوز خانہ جنگی کا عمل جاری ہے ۔اور اب باری شام کی ہے۔ بشار الاسد
کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے امریکی چالوں اور سازشوں کا بازار گرم ہے
ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت شام کی آزادی اور خود مختاری کو تا ر
تار کرنے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے اور اس سلسلہ کا آغاز داعش پر
حملوں کی صورت ہو چکا ہے۔ امریکہ شام میں قیام کر کے مشرق وسطیٰ اور ایشیا
کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے ۔خلیجی ممالک پر نظررکھنے کے علاوہ ایران اور روس
کی سر گرمیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے بھی اسے ایسے ہی کسی پلیٹ فارم کی ضرورت
تھی جو اس نے داعش کا فتنہ کھڑا کر کے حاصل کر لیا ہے اور اب دیکھیے اس کی
اگلی منزل کیا ہو گی۔ ان حقیقتوں کے تناظر میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ
اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پا کر اور فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر
اتحاد اور اتفاق کی کشتی میں سوار ہو کر ایسا جامع اور مربوط لائحہ عمل طے
کریں جس سے وہ امریکی بالا دستی کا کوئی توڑ کر سکیں۔ |