گذشتہ کچھ دنوں قبل پنجاب کے ضلع ترن تارن میں سکھوں کی
مقدس کتاب گروگرنتھ کے ساتھ بے ادبی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے خلاف
ہندوستان میں بھی احتجاجی مظاہر ہے ہوئے اورہندوستان سے زیادہ احتجاجی
مظاہر ہ پاکستان کے سکھوں نے مودی حکومت کے خلاف کیا ۔ یہ سکھ قوم کا اتحاد
ہے جس کے بارے میں بجا طور پر کہاجاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر
کسی سکھ کے پاؤں میں کانٹا چبھتا ہے تو سکھوں کو فورا اس کا احساس ہوتا ہے
اور وہ بحیثیت قوم اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔چند سالوں قبل امریکہ کے ایک
گردوارہ میں ہوئی فائرنگ میں پانچ سکھ مارے گئے ۔یہ خبر جیسے ہی اس وقت کے
وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ملی انہوں نے صدر اوبامہ کو فون کرکے ضروری
کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ۔
کیا یہ جذبہ آج اس قوم میں بھی موجود ہے جس کی پوری تعلیم ہی جاں نثار ی پر
مبنی ہے ۔ جنہیں قرآن و حدیث میں اتحاو داتفاق قائم کرنے اور آپس میں ایک
دوسرے کا تعاون کرنے کی ہدایت سب سے زیادہ دی گئی ہے۔ جن کی تعبیر دو قالب
ایک جسم سے کی گئی ہے ۔جس قوم کے پاس یہ مثالیں موجود ہے کہ جب انہیں پیاس
کی شدت میں پانی پیش کیا گیا تو انہوں نے خود پینے کے بجائے اپنے دوسرے
بھائیوں کو پیش کردیا اور خود شدت پیاس کی تاب نہ لاکر موت کی آغوش میں چلے
گئے ۔
دنیا کے مسلمانوں کی بات چھوڑیئے خود ہندوستان کا جائز ہ لیجئے جہاں
مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جاچکی ہے ۔ کب ،کس کا ، کہاں اور کس طرح قتل
کردیا جائے کوئی نہیں جانتا ۔ آسام سے گجرات اور کشمیر سے کنیاکماری تک
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزماحول ہے حکمراں جماعت مجرموں پر لگام کسنے اور
انہیں کیفرکردار تک پہونچانے کے بجائے پس پردہ حمایت کررہی ہے؛ لیکن اس کے
باوجود مسلمان خواب خرگوش میں مدہوش ہیں ۔ انہیں اپنے بھائیوں کے جلتے ہوئے
مکانات نظر نہیں آرہے ہیں ۔ پتہ نہیں کب احساس شعور بیدا ہوگا؟ ۔۔۔
ہندوستان کے مسلمانوں کا۔۔۔ قائدین ملت کا۔۔۔دانشواران کا ۔۔۔ ادبا، شعرا ء
مصنیفین ، صحافی اور ایوارڈ یافتگان کا۔۔۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بیٹھے
مسلم رہنماؤں کا ؟؟؟اگر کسی کو یہ لگتا ہے اخلاق جیسامعاملہ عام مسلمانوں
کا ساتھ ہوگا قائدین ، ممبران پارلیمنٹ ،ملی رہنمااور بڑے مقام پر فائر
مسلمانوں کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ اس طرح کی
خوش فہمی میں رہنے کے بجائے احسان حعفری کے ساتھ پیش آئے واقعہ پر ایک نظر
ڈال لیں جو یہاں کے ایم پی تھے کوئی عام آدمی نہیں یا پھر حال ہی میں جموں
و کشمیر کے ایم ایل اے انجنیئر رشید پرکے ساتھ جو کچھ باربار ہورہا ہے اس
کو نگاہوں میں تروتازہ رکھیں ۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر بتا یہ قافلہ لٹا ہے کیوں
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
تاریخ کے اور اق بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا ماضی روشن و تابناک رہاہے ۔ یہ
واحد قوم ہے جس نے دنیا کے بیشتر حصے پر حکومت کی ہے ۔اس کے دورا قتدار میں
عد ل و انصاف کی نئی روایت قائم ہوئی ہے ۔ غریبوں ، مظلوموں اور سماج کے
پسماندہ طبقہ کو مکمل حق ملا۔ گڈ گورننس کی جو مثال مسلمانوں نے قائم کی ہے
وہ دنیا کی کوئی بھی قوم نہیں پیش کرسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے
نامور حکمرانوں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے کم تعداد میں ہونے کی باوجود بھی
پوری دنیا پر حکومت کی ہے ۔ اقلیت میں رہ کراکثریت پر حکمرانی کی ہے ۔ اس
کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ حکمراں عدل و انصاف کے پیکر تھے ، مذہبی
رواداری کے قائل تھے ۔ مسلکی تشدد اور مذہبی اختلاف سے دور رہتے تھے۔کسی
بھی معاملے میں مذہبی تفریق نہیں کرتے تھے ۔ایک جسم دو قالب بن کررہتے تھے۔
آج امت مسلمہ زوال وانحطاط سے دو چار ہونے کا رونا رورہی ہے ۔ ہر پریشانی
کا الزام امریکہ پر ڈال رہی ہے ۔ اپنی تباہی اور بربادی کے اساب کا تجزیہ
کرنے کے بجائے امریکہ اور یور پ کو ذمہ دار ٹھہراہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے
امت مسلمہ اس زوال کے لئے خود ذمہ دار ہے ۔ آپسی انتشار اور مسلکی اختلاف
دنیا بھر میں مسلمانوں کے زوال کی بنیادی وجہ ہے ۔ جس دن مسلمانوں قرآن
تعلیمات کو سینے سے لگالیں گے اور اتحاد و اتفاق کی را ہ پر گامزن ہوجائیں
گے اسی دن مسلمانوں کی تاریخ زوال سے عروج میں تبدیل ہوجائے گی قرون اولی
کی مثال ہمارے سامنے نمایاں ہوجائے گی۔ دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر مسلم
قوم سرخرو ہوجائے گی ۔ امریکہ اور یورپ جیسی طاقتیں مسلمانوں کے اتحاد کے
سامنے خش و خاشاک ثابت ہوں گی ۔بس اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ مسلمان
اتحاد و اتفاق کے بندھن میں بندھ جائیں ۔ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں کہا
:و اعتصمو بحبل اﷲ جمعیا و لاتفرقوا۔ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور
آپس میں تفرقہ پیدا مت کرو۔
مشہور مجاہد آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محموحسن دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ نے
مالٹا کی جیل سے واپسی پر کہاتھا کہ جیل میں مسلمانوں کے اسباب زوال پر غور
کرنے کے بعد دو باتیں میرے سامنے منکشف ہوئیں ۔ایک یہ کہ مسلمان قرآنی
تعلیمات سے روگردانی کرچکے ہیں ۔ دوسرے یہاں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و
اتفاق نہیں ہے ۔یہی دونوں چیزیں عالمی سطح پر مسلمانوں کے زوال کی بنیای
وجہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ اتحاد و اتفاق سب سے بڑی دولت ہے ۔ مسلمانوں کی کامیابی اور
ترقی آپسی اتفاق کے بغیر ناممکن ہے ۔ میں اپنے آپ میں شرمندہ ہوں کہ جس قوم
نے پوری دنیا کو اتحاد کا در س دیا ہے اور دوسری قومیں جس کے اتحاد کی طاقت
وقوت کی مثالیں دیا کرتی تھیں آج اسی قوم کو اتحاد قائم کرنے کی دعوت دیتے
وقت مجھے کسی اور قوم کی مثالیں دینے پڑرہی ہے۔
متحدہوتو بدل ڈالودنیا کا نظام
منتشر ہوتو کٹو ،مرو، شورمچاتے کیوں ہو |