بنگلہ دیش:انسانیت دارورسن پر

سوال یہ ہے کہ ہے معتبر اندھیرا کیوں
یوں توخونخوارڈائن حسینہ واجدنے اپنے آقاؤں کے ایماء پراندھادھندانتقامی کاروائیوں میں مصروف ہے اورنجانے اس کی خون آشام پیاس کب بجھے گی لیکن وہ جنہوں نے اپنی زندگیوں کاسوداربِّ کریم سے کرلیاہووہ بھلااس ڈائن کے سامنے کیسے جھک سکتے ہیں۔میں ابھی اس حق وباطل کی کشمکش کے بارے میں سوچ رہاتھاکہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے چونکادیا اور دوسری طرف ڈھاکہ سے ملنے والی خبرنے چندلمحوں کیلئے مجھ پرسکتہ طاری کردیاکہ حسینہ واجدنے یوم سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پرانتہاپسندبنگالیوں اوربھارتی سرپرستوں کونظریہ پاکستان کے ایک اورسپاہی ''مطیع الرحمان نظامی''کی لاش کاتحفہ دینے کا پلان بنالیاہے۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں حسینہ واجد نے اپنی رہائش گاہ پراٹارنی جنرل محبوب عالم کو طلب کرکے ہدایات دیں کہ مطیع الرحمان نظامی کی وارکرائم ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف دائراپیل ،سپریم کورٹ سے ١٥دسمبرسے قبل مستردکرائے جانے کویقینی بنایاجائے کیونکہ ١٦دسمبرسے ''جشن آزادی''کی چھٹیاں منانے کیلئے سپریم کورٹ ٢٠دن تک بندرہے گی۔

ڈھاکہ میں موجودجماعت اسلامی کے ذرائع نے بتایاکہ مطیع الرحمان نظامی نے بنگلہ دیشی سپریم کورٹ میں نام نہادوارکرائم ٹریبونل کی طرف سے دی جانے والی سزائے موت کوچیلنج کررکھاہے جبکہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ پربھارت کے انتہائی گہرے اثرات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی نوازہندوچیف جسٹس سریندرکمارسنہا،امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مقدمے کی سماعت خودکررہے ہیں۔یہ بنگلہ دیش کے پہلے غیرمسلم چیف جسٹس ہیں جنہیں اسی سال ۱۷جنوری ۲۰۱۵ء کواس عہدے پرمقررکیاگیا۔ چیف جسٹس سنہا۲۰۱۳ء اور۲۰۱۴ء میں بھارت کے کئی دورے کرچکے ہیں ،جس کے بعدہی انہیں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کاسربراہ مقررکیاگیا۔ وہ چیف جسٹس بننے کے بعدبھی تواترکے ساتھ بھارت یاتراکامعمول جاری رکھے ہوئے ہیں۔اکتوبرمیں دورۂ بھارت کے دوران انہوں نے کشمیرکی تحریک آزادی کودہشتگردی قراردینے کے علاوہ پاکستان کے خلاف بھی کئی بیانات دیئے جوآج بھی ریکارڈپرموجودہیں جبکہ دنیامیں عدالت عالیہ کے سربراہ کے ایسے سیاسی بیان کی کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی ۔

واضح رہے کہ متنازع وارکرائم ٹریبونل کے ذریعے حسینہ واجدمسلسل ،نظریہ پاکستان کے سپاہیوں کوسزائے موت دلوارہی ہیں۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماء عبدالقادرملا کو۱۲ دسمبر ۲۰۱۳ ء،قمرالزمان کو۱۱/اپریل ۲۰۱۵ء اورعلی احسن مجاہداوربی این بی کے رہنماء صلاح الدین قادرکو۲۲نومبرکوپھانسی پر لٹکادیاگیاجبکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے٩١سالہ رہنما پروفیسرغلام اعظم کو۲۳/اکتوبر۲۰۱۴ء اورمولاناابوالکلام یوسف کو۹فروری ۲۰۱۴ء کودوران اسیری اذیتیں دے کرشہیدکیاجاچکاہے۔ڈھاکہ میں موجودہ ذرائع کے مطابق حسینہ واجد، مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جن اوررہنماؤں کو پھانسی دلانے کی تیاری کرچکی ہے،ان میں جماعت کے مرکزی شوریٰ کے رکن میرقاسم علی بھی شامل ہیں۔وہ بنگلہ دیش کے ایک بڑے میڈیاگروپ کے مالک ہیں۔ان کاایک ٹیلی ویژن چینل بھی ہے جوشیخ حسینہ کی حکومت بندکررکھاہے۔
تختۂ دارپرچڑھنے کے انتظارمیں مولاناعبدالسبحان نائب امیرجماعت اورجماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہرالالسلام بھی ہیں۔ مولانادلاورحسین سعیدی نائب امیرجماعت اسلامی کوبھی سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد ۱۴ستمبر۲۰۱۴ء کوان کی سزائے موت کوعمرقیدمیں تبدیل کردیاگیا۔ مطیع الرحمان نظامی پر۱۹۷۱ء میں۴۵۰ شہریوں کے قتل اورتین عورتوں کی عصمت دری کاالزام لگایاگیااور یہ بھی کہا گیاکہ انہوں نے ١٠ٹرک اسلحہ اپنے قبضے میں رکھاہواتھالیکن ان کا''بڑاجرم''یہ بتایا گیا کہ وہ متحدہ اسلامی جمعیت طلبہ کے آخری ناظمِ اعلیٰ تھے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ذرائع نے بتایاکہ بنگلہ دیشی عوام،پاکستان سے محبت کرتے ہیں اوروہ جانتے ہیں کہ حسینہ کی حکومت ان پرامریکااوربھارت نے مسلط کی ہے۔ان کو پاکستان سے بہت سی توقعات ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک نیوکلیرپاورہے جوشملہ معاہدے پر عملدر آمد کروا سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ۲۸/اگست ۱۹۷۳ء کودہلی میں ہونے والے شملہ معاہدے میں جس کے تحت دونوں ملکوں میں غداری کے مقدمات نہ چلانے کی ضمانت دی گئی تھی اورخود بھارت اس کاضامن تھا۔
علی احسن مجاہداور صلاح الدین قادرکی پھانسی کے بعدپورے بنگلہ دیش میں غم وغصے کی لہرہے اورملک بھرمیں شدید احتجاج ہورہاہے ۔ڈھاکہ میں بڑے پیمانے پرپولیس اور سیکیورٹی فورسزنے پہیہ جام ہڑتال کوروکاہواہے لیکن دیگرشہروں میں کاروبارِزندگی معطل جبکہ ڈھاکہ میں تعلیمی ادارے بندکرکے تمام امتحانات منسوخ کردئیے گئے ہیں ۔ اندرون ملک سے آنے والی گاڑیوں پرپابندی لگادی گئی ہے۔دوسری جانب حسینہ واجد سے ملاقات کے بعداٹارنی جنرل محبوب عالم نے میڈیاکے سامنے بڑی ڈھٹائی سے تسلیم کیاکہ انہیں وزیراعظم نے تمام ''جنگی مجرموں''خصوصاً مطیع الرحمان نظامی کوجلدازجلدپھانسی پرچڑھانے کے احکامات دیئے ہیں۔محبوب عالم کے حوالے سے بنگلہ دیشی جریدے ''امردیش'' نے بتایاہے کہ حسینہ واجدکی انتقامی لسٹ میں اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان نظامی اوردیگراسیررہنماؤں میرقاسم علی،اظہرالسلام اورمولاناعبدالسبحان کانام سرفہرست ہے۔ بنگلہ دیشی جریدے ''نیادیگانتا''نے عوامی لیگ کے ایک سنیئررہنماء کے حوالے سے انکشاف کیاہے کہ مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت پرعملدرآمد کے بعدحسینہ واجد،جماعت اسلامی بنگلہ دیش پرپابندی کے احکامات جاری کریں گی۔اس بارے میں وہ اپنے قریبی رفقاء اوربھارتی حکام سے مشاورت بھی کرچکی ہیں۔

بنگلہ دیش میں دی جانے والی سزاؤں کودلیل ،قانون اورانسانیت کے حوالے سے دیکھیں توبعض انتہائی اہم نکات اٹھتے ہیں۔حکومتوں کی غلط پالیسیاں اپنی جگہ،جن لوگوں نے دفاع پاکستان کی جنگ لڑی ،کیاانہوں نے غلط کیا؟جب یہ لڑائی ہوئی ،اس وقت پاکستان کی ریاست تھی،بنگلہ دیش کاکوئی وجودنہیں تھا۔پاکستان کی ریاست کے تحفظ کیلئے لڑناغلط کیسے ہوگیا؟اس وقت جوبھی ہوا،پاکستان میں ہوا،پاکستان کی سرزمین پرہوا۔ریاست پاکستان نے کوئی مقدمہ قائم نہیں کیاتوبعدمیں وجودمیں آنے والی ریاست کیسے مقدمات شروع کرسکتی ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے ۔۱۹مارچ ۱۹۷۲ء کوجب بنگلہ دیشی حکومت نے پاکستانیوں پرمقدمات چلانے کافیصلہ کیا،اس وقت پاکستان میں چارلاکھ بنگالی سرکاری ملازم موجود تھے۔پاکستان نے ان سب کوروک لیااوربھٹونے جواباًان سب پرمقدمات کی دہمکی دی۔ان میں کچھ اہم سرکاری عہدوں پربھی فائزتھے اوران پرمصدقہ الزام تھاکہ انہوں نے ریاست کے رازباغیوں کودیئے ۔کیاانہیں غداری کے الزام میں کٹہرے میں لاکھڑاکرناکوئی مشکل کام تھا؟لیکن پاکستان نے ایسانہیں کیا۔بنگلہ دیش نام کی تواس وقت کوئی ریاست ہی نہیں تھی ،وہ کیسے مقدمات کاآغازکرسکتی تھی؟انسانیت کے نام پرمقدمہ چلایاگیاتوکسی مقدمے میں مکتی باہنی کوبھی کوئی سزاسنائی گئی؟کیاوہ وہاں پھول بیچنے آئے تھے؟ پاکستان نے مکتی باہنی کے مظالم کوکبھی بھی صحیح طورپربیان نہیں کیا مبادا کہیں اشتعال میں مغربی پاکستان میں مقیم چالیس لاکھ بنگالی انتقام کانشانہ نہ بن جائیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ مکتی باہنی کوئی صوفیوں کی انجمن تھی!

یہ بھی دیکھناچاہئے کہ بنگلہ دیش کن حالات میں اقوام متحدہ کارکن بنا۔بھٹو صاحب نے چین سے کہاکہ بنگلہ دیش ہمارے قیدیوں پرجنگی مقدمات قائم کرنا چاہتاہے اس لئے ان کی رکنیت کوویٹوکردیاجائے تاکہ اس پر دباؤ بڑھے۔ ۲۵اگست ۱۹۷۲ء کوچین نے ویٹوکردیاچنانچہ بنگلہ دیش کورکنیت نہیں مل سکی۔اس پردباؤ بڑھ گیاچنانچہ بعدمیں معاہدہ ہواکہ کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی، پھر پاکستان نے بنگالیوں کوواپس جانے کی اجازت دی اوربنگلہ دیش نے بھی ایسی کوئی کاروائی نہیں کی ۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے مقامی ''جنگی جرائم کے ٹریبونل''کی طرف سے جماعت اسلامی کے ایک درجن سے زائدرہنماؤں کی سزاؤں پرعملدرآمد کیاجا چکاہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اورمعروف جیورسٹ اورہاؤس آف لارڈزکے رکن ایلکس کارلائل نے بنگلہ دیشی عزیراعظم اورحکمران عوامی لیگ پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ حسینہ واجد نے طویل عرصے سے بنگلہ دیشی عوام کی خواہشات اورانسانی حقوق کااحترام ترک کردیاہے۔بین الاقوامی برادری کوفوری طورپرپھانسیوں کے روکنے اوران کی حکومت میں اصلاحات کیلئے دباؤ ڈالنا چاہئے۔انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل ظلم وجبرکامرکزبن گیاہے ۔حالیہ پھانسیوں پر ہیومن رائٹس واچ ایشیاکے ڈائریکٹر ریڈایڈمنز کا کہناتھا:ضروری ہے کہ جرائم کاارتکاب کرنے والوں کااحتساب کیاجائے لیکن مقدامات کی سماعت منصفانہ اوربین الاقوامی معیارکے مطابق ہونی چاہئے۔ان کابنگلہ دیشی حکومت کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہناتھا:غیرمنصفانہ مقدمات اصل انصاف فراہم نہیں کر سکتے۔

حسینہ واجدکی پاکستان دشمنی انتہاء کوپہنچی ہوئی ہے کہ اس نے نسلی تعصب کے بے تاج بادشاہ مودی کوڈھاکہ یونیورسٹی میں دعوت دی اوراسے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کوڈھاکہ پلٹن میدان میں اتاری گئی تصویرکاالبم کاتحفہ پیش کیا۔اس موقع پردونوں رہنماؤں نے دوقومی نظریہ کے خلاف خوب ہرزہ سرائی بھی کی۔ لیکن اب چاردہائیوں کے بعدکس کے ایماء پرنفرت اورانتقام کاکھیل کھیلاجارہاہے جوبین الاقوامی معاہدے کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ظلم تویہ ہے کہ جس طرح یہ کاروائی چلائی جارہی ہے اس کاانصاف سے دورکاتعلق بھی نہیں۔

دکھ اس بات کاہے کہ پاکستان کی جانب سے مؤثرکوششیں کی جاتیں تو صلاح الدین قادرچوہدری اورجماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہدکی پھانسی روکی جاسکتی تھی۔بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھی اعتراف کیا کہ دونوں رہنماؤں کوبین الاقوامی سطح پرحمائت حاصل تھی اوران پھانسیوں کی وجہ سے حسینہ واجد کیلئے مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ذرائع کے مطابق اگر پاکستان اب بھی سفارتی کوششیں کرے تو مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کو روکاجاسکتاہے تاہم پاکستان کی حکومت اورسیاسی رہنماؤں کوعالمی برادری کی توجہ بے گناہ انسانی خون پینے والی ڈائن کے کرتوتوں کی طرف مبذول کرانے کیلئے فی الفور امریکا ،چین،برطانیہ، سعودی عرب اوردیگر کئی ممالک سے رابطے کرنے ہوں گے اورمعذرت خواہانہ روّیہ ترک کرکے ان افراد کی سزائے موت کایہ ظالمانہ سلسلہ ختم کرواناہوگا۔
سوال یہ نہیں کیوں نور کی ہے بے قدری
سوال یہ ہے کہ ہے معتبر اندھیرا کیوں
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 352122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.