بہت دور نہیں صرف چند سالوں پر محیط ہے ،وہ
زمانہ جب میرے والدین جوان ہوا کرتے تھے اور میں بچہ تھا، آج میں جوان ہوں
مگر میرے والدین نہیںکیونکہ ہر ایک کا وقت متعین ہے اُسے واپس اللہ کے ہاں
جانا ہے ہمیشہ ابدی زندگی کیلئے۔۔!!میں یہاں اپنے کالم کو عنوان کی جانب
لیئے جاتا ہوں سیاست سے پہلے زمانہ اور پھر سیاست کے اثرات کا ذکر کرونگاہر
زمانے میں سیاست رہی ہے لیکن سیاسی ڈھنگ اور طریقہ کار جدا جدا رہے ہیں ۔پاکستان
بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے چند سالوں کا اگر سیاسی مطالعہ کیا جائے
تو ہمیں تحریک خلافت سے لیکر تحریک پاکستان تک مسلم سیاسی لیڈران، حکمران
اور کارکنان کی عملی اقدامات،بیانات اور رہن سہن کا عکس انتہائی سادہ اور
شفاف نظر آتا ہے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی
جوہر جبکہ ،علامہ اقبال کی شخصیت براہ راست سیاست میں نہ تھی لیکن انھوں
نےاپنی شاعری اور خیالات سے سیاسی میدان کو گرمائے رکھااور اصلاحی راہیں
بھی دکھاتے رہے۔ ۔۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی عظیم ماہرانہ سیاسی
بساط سےمسلمانوں کیلئے انتہائی ظالم قوم انگریز اورہندوؤں سے ایک الگ
آزاد اسلامی ریاست کا حصول ممکن بنایا، پاکستان جب بنا تھا تو اسے ایسے
علاقے دیئے گئے جو زیادہ تر ویران و بنجر تھے چند ایک شہر کے سوا پاکستان
بیابان تھا لیکن ہجرت کرنے والوں نے یہاں کے باسیوں کیساتھ ملکر پاکستان کی
ترقی و تمدنی ، تعلیم و تربیت کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس سے چند ہی عرصہ ہی
میں پاکستان پروان چڑھنے لگا۔۔ چالیس سال قبل اسی پاکستان میںایسا وقت بھی
رہا ہے جب یہاں چراغ سے چراغ جلا کر تےتھے،ایک گھر کے چو لہے سے پورے گاؤں
اور اس سے پہلے پورے شہر کے چو لہے جلا کر تے تھے کیونکہ اُس وقت سب مل جل
کر رہتے تھے، ایک بزرگ سب کا بزرگ تھا، ایک کی اولاد سب کی اولاد کے برابر
سمجھی جاتی تھی ،جب اجتمائی نظام تھا تو ہر ایک دوسرے پر نگراں تھا، دروازے
تو گھروںکے تھے مگر کواڑ اور کنڈی یا تالہ اکثر گھروں میں نہیں تھا صرف یہی
نہیں بلکہ بازاروں اور اسٹورویج میں بھی تالے پڑنے کا رواج نہ تھا، سادہ
گھر اور لباس تھے مگر صاف ستھرے اور شفاف۔۔۔ خاندانی روایات اور تہذیب و
ادب ہر عمر میں پائی جاتی تھی، تعلیم ایسی کہ علم کی شمع روشن تھی اور
لفظوں سے مورتی بکھرتے تھے، ہر طبقہ ایک دوسرے کا نہ صرف احترام بلکہ جذبات
کاخیال رکھتا تھا،بڑی سے بڑی بات کو بھی انتہائی سلیقے سے سلجھایا جاتا تھا،
رنگ و نسل کا کوئی فرق نہ تھا، محبت و پیار کا معاشرہ تھا، احساس انسانیت
کا یہ عالم کہ ہر روز ایک دوسرے کے ہاں کھانے تقسیم کیئے جاتے تھے اورپاس
پڑوسی کی پریشانی پر پورا محلہ یکجا ہوکر پریشانی کو ختم کرنے کیلئے اپنا
اپنا کردار ادا کرتے تھے، مساجدیں کچی لیکن نمازی پکے تھے،قاری قرآن دل سے
تلاوت کرتے تھے جو دل سمیت روح میں سما جاتی تھیں، مذہبی اسکالرز اور علما
کرام قرآن و سنت کی تفسیر بیان کرتے تھے لیکن کسی بھی فرقہ و مسلک پر
تنقید نہیں کرتے گویاہر فرقہ و مسلک اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق آزادانہ
مذہبی روایات کی تقریبات ادا کیا کرتے تھے اور ایک جگہ رہتے ہوئے ایک دوسرے
مسلک کا احترام عام تھا۔۔۔۔میرے والدین کے دور میں اسی پاکستان میں انسانیت،
اخلاقیات، شرم و حیا، ادب و تہذیب، محبت و پیار ،خلوص و اخلاص،
یکجہتی،اتحادواخوت پنہا تھیں ، اُس دور میں پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا
ایک مشرقی پاکستان دوسرا مغربی پاکستان۔ افسوس کہ بھارت نے مشرقی
پاکستانیوں اور مغربی پاکستانیوں کے درمیان ایک ایسی فضا پیدا کی جس سے ان
میں نا انصافی کے سبب نفرتوں نے جنم لیا ،بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سازش نے
اس نفرت کو مزید پڑھوان چڑھایا،احمدیوں نے اور اُس وقت کے سیاستدانوں کی
بہت بڑی خامی، منافقت اور خود غرضی نے بھارتی اس عزائم کی تکمیل کیلئے راہ
ہموار کردی، بھارت کی ہندو مذہبی انتہاجماعت مکتی باہنی نے پاکستانی افواج
کا لبادہ اوڑھ کر پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کی کامیاب کوشش کی اور اپنی
کوشش میں کامیاب ہوگئے۔۔ چالیس سال تک سابقہ مشرقی پاکستان جوآج بنگلہ دیش
اورسابقہ مغربی پاکستان جو آج اسلامی جمہوریہ پاکستان اس حقیقت کو جان نہ
سکا ۔۔ حالیہ دنوں میں نریندر مودی حکومت جو انتہا پسند بھارتی حکومت ہےاس
نے اس وقت کے راز کو افشاں کردیا ہے کہ بنگلہ دیش کو بنانے کیلئے انھوں نے
سازش تیار کی تھیں، یاد رہے کہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے سیاستدان اور
سیاسی لیڈران بھی پاکستان کے منقسم ہونے کے برابر مجرم ہیں، ان مجرموں میں
اُس وقت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا، نو ستارہ جماعتوں کا رول بھی کچھ خاص نہیں رہا
کیونکہ وہ احمدیوں کی چال کو نہ سمجھ سکے اور احمدیوں نے مکتی باہنی کیساتھ
ملکر ان کے عزائم کی تکمیل میں فنڈنگ کیساتھ کیساتھ مکمل تعاون کیا۔بھٹو
طبعی و اقتدار کے نشے میں اس قدر دھت رہتا تھا کہ اس کی سیاسی بساط کا
اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ بزرگوں کاکہنا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پھر
خان لیاقت علی خان کی جلد شہادت کے بعد پاکستان میں سیاست گندے ہاتھوں چلی
گئی یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کا نام لینے والوں کا جس قدر جمہوریت کا جنازہ
نکالاشائد ہی کسی نے نکالا ہو ، پاکستان کی عوام اول عرصے میں پہلے پہل
اپنے نفیس، سچے ،ایماندار اور عزت نفس رکھنے والے با کردار سیاست دان سے
مستفید تھی لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ سیاست رہی نہ عوامی
خدمت۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد گیارہ سالہ جنرل ضیا الحق کا تاریک دور گزرا
،انھوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ امریکہ کی غلامی میں اس قدر بڑھ گئے کہ
پر امن ملک کو دورے کی جنگ میں جھونک ڈالا! اوپر سے اس ملک کے ایسے باشندوں
کو پناہ دے ڈالی جو جرائم، منشیات اور بد اخلاقی سطح پر فائز تھے ، پناہ
گیر افغانیوں نے ریاست پاکستان میںضیا الحق کے دور میں اسلحہ کلچر کو بھی
معتارف کرایا اور اسی دور میں دو نئی سیاسی جماعت کا بھی آغاز ہوا جن کے
اقتدار کے احوال میں کیا بیان کروں میرے قائرین خود مجھ سے زیادہ جانتے
ہیں۔بھٹو کے انتقال کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ ان کی صاحبزادی
بینظیر بھٹو نے سنبھالی لیکن وہ عورت کے ناطے کم فہم اور دور اندیش نہ ہونے
کے سبب اپنوں کی غفلت کے باعث ہلاک ہوئیں۔ان کی ہلاکت سے سب سے زیادہ کس کو
فائدہ پہنچا یہ بھی میرے قائرین مجھ سے زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں!! میرے
والد علی گڈھ یونیورسٹی سے گریجویشن پاس کیئے ہوئے تھے اور تحریک پاکستان
میں مسلم اسٹوڈینٹ کے سرگرم کارکن بھی رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ سیاست ایک
بہت اہم حصہ ہے اچھی سیاست سے اچھی ریاست قائم ہوتی ہے اور بری سیاست سے
ریاست میں بے امنی ، شورش اور انارکی پھیل جاتی ہے ، مہنگائی، ظلم و ستم،
نا انصافی، حق تلفیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں ،میرٹ کا قتل ہوجاتا ہے اور
معاشرہ پرگندہ ہوجاتا ہے ۔۔!! آج میرے والد ین نہیں لیکن ان کی نصیحت اور
باتیں یاد آتی ہیں وہ بہت ایماندار، سچے اور پاکستان کے مخلص شہری تھے،
والد صاحب کا کہنا تھا کہ اگر تم ایسا زمانہ دیکھو کہ ظالم ، جھوٹے، مکارو
فریبی، دھوکے باز ، ہوس کے مارے، حرص ولالچ کے متوالے، ضدی اور انا پرست،
بغض و عناد اور کینہ و نفرت رکھنے والے، ظلم و ستم اوربربریت ڈھانے والے،
منافقت،مکار ی و کمینہ پن رکھنے والے، حق تلفیاں کرنے والےسیاسی جماعت اور
سیاستدان کا زمانہ دیکھو تو ہر گز انہیں منتخب نہ کرنا کیونکہ ایسے لیڈر
اور سیاسی جماعتیں ملک کو کھوکھلا کردیں گی اگر تم میں سے لوگوں نے ان کے
مکارپن آنسو،مظلومیت کے دھکاوے میں آکر ووٹ دے ڈالے تو پھر روتے ہی رہوگے
اور اپنے نصیب کو کوستے رہوگے!! انتخابات میں خاندان، برادری، ذات پات،
لسانیات، مسلک، فرقہ بندی،ضمیر فروشی کیساتھ حصہ لینے والو کس طرح روشن
تابناک، ترقی یافتہ پاکستان بناسکوگے۔ مورثی ہو یا غیر مورثی غیر اخلاقی
کرداروں پر مشتمل لوگوں کا انتخاب ہی تمہاری بربادی ہے۔ اپنے ووٹ کا صحیح
استعمال نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی بہتری کی علامت ہے ۔پاکستان میں اب
ایک نیا ٹرن چل نکلا ہے ، ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت پر نا صرف
الزامات کی بارشیں کرتی ہیں بلکہ جھوٹے اقدامات کے تحت چھاپے اور قید کے
معاملات کیئے جاتے ہیں، کوئی دودھ کا دھلا نہیں اگر آپریشن کرنا ہے تو ہر
اس برائی کے خلاف کیا جائے جو کہیں بھی پنپ رہی ہو چاہے اس میں من پسند
سیاسی جماعت ہو یا بیورو کریسی لیکن افسوس در افسوس موجودہ حالات میں ایسا
نہیں دیکھا جارہا ہے یہاں قومیتی بنیاد پر اور لسانی نفرت پر آپریشن
مستقبل قریب میں کوئی اچھا اقدام نہیں لائے گا۔ پاکستان اس وقت تک ترقی و
کامیابی کی جانب رواں دواں نہیں ہوسکتا جب تک کہ سیاسی جماعتوں کے عسکری
ونگ کا خاتمہ شفاف اور غیر جانبداری بنیاد پر کیا جائے ،اگر ایم کیو ایم
میں عسکری ونگ کا خاتمہ کیا جانا لازم ہے تو پی پی پی ، پی ایم ایل نون، اے
این پی، ایم کیو ایم حقیقی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، پی ایم ایل کیو، پی
ایم ایل فنگشنل گویا ہر وہ سیاسی و لسانی اور مذہبی جماعت جس میں عسکری ونگ
کی خفیہ اطلاعات موجود ہوں ان سب کا احتساب اور آپریشن کرنا پاکستان کی
سلامتی و کامیابی و ترقی کی ضمانت ہے بصورت کسی ایک کو نشانہ بنانا سراسر
زیادتی، نا انصافی اور حق تلفی ہے۔پاکستان میں سب سے پہلے پولیس کے محکمہ
کو ختم کردینا چاہیئے یا پھر اسے مکمل سیاست سے آزاد کرکے ان کی اصلاح و
تربیت کے بعد وطن عزیز کے شہریوں کی خدمات میں صرف کردینی چاہیئے اور
سیکیورٹی کیلئے تمام اہم شخصیات کو نجی سیکیورٹی تک پابند کردینا چاہیئے
پھر دیکھئے گا کہ پاکستان کے تمام شہر کس طرح پر امن و کرپشن سے پاک
ہوجائیں گے اس میں پاکستان رینجرز کی طرح آرمی کے بہادر افسروں کی تعنیات
صرف چند ماہ کیلئے کی جائیں تاکہ وہ بہتر تربیت کیساتھ کیساتھ بہترین جوان
بناسکیں۔ ہر وہ ادارے جو پاکستان کی بقا اور محبت کرتے ہیں یقینا پاکستانی
کے اندورنی ایجنڈنوں کے خاتمے کیلئے یکساں اصول اپنائیں گے۔ اللہ پاکستان
کی حفاظت کرے اور دشمنوں کے مقابلے میں ہمارے اداروں کو کامیابی سے ہمکنار
کرے آمین ثما آمین۔ |