قومی و سیاسی و عسکری قیادت نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ
کراچی میں جاری ٹارگٹڈ اپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک جاری رکھا جائیگا
اور اسکی راہ میں حائل کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی‘ اپریشن منطقی
انجام تک پہنچانے کیلئے اقدامات بروئے کار لائے جائینگے۔ گزشتہ روز کراچی
میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ
فیصلہ بھی کیا گیا کہ کراچی میں دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن میں سندھ
رینجرز بدستور خدمات سرانجام دیتی رہے گی اور اپریشنل اختیارات کے تحت
جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائیاں جاری رکھے گی۔ وزیراعظم نے سکیورٹی
اداروں کو حکم دیا کہ جے آئی ٹیز میں جن ملزموں نے دہشت گردوں کی نشاندہی
کی اور جو عناصر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے سمیت دہشت گرد تنظیموں کے
معاون‘ سہولت کار اور مالی مددگار ہیں‘ انہیں اور انکی سرپرستی کرنیوالوں
کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ اس حوالے سے کوئی دباﺅ یا سمجھوتہ قبول نہیں
کیا جائیگا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے وفاق‘ عسکری قیادت‘ سکیورٹی ادارے
اور صوبائی حکومتیں متحد ہیں۔
کراچی میں امن و امان کی صورتحال جنرل (ر) مشرف کے دور سے ہی مخدوش ہے جب
وہاں مفادات اور ایک دوسرے کو سہولت دینے کی سیاست سے بھتہ اور لینڈ مافیا
کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور جرائم پیشہ عناصر کو اپنے عزائم میں تقویت
حاصل ہوئی۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور گھیراﺅ جلاﺅ پر مبنی دہشت گردی کے
کلچر نے بھی مشرف دور میں ہی جڑیں پکڑی تھیں جبکہ علاقائی‘ لسانی اور مذہبی
تفرقہ بازی بھی مشرف دور کی جانب سے ملنے والی ڈھیل کا ہی شاخسانہ ہے جس
کیلئے مشرف کے اپنے مقاصد تھے چنانچہ وہ بھتہ اور لینڈ مافیا اور لسانی
بنیاد پر نشوونما پاتے گروپوں کی اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے سرپرستی
کرتے رہے مگر بعدازاں سول سیاسی حکومتوں نے بھی مشرف دور کی ودیعت کی گئی
ان خرابیوں کو دور کرنے کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور خود بھی جرائم پیشہ
عناصر اور ٹارگٹ کلرز کی سرپرستی کی روش اختیار کرلی۔ سندھ کے اقتدار میں
پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم متحدہ اور اے این پی طویل عرصہ تک حلیف رہیں اور
بھتہ مافیا‘ ٹارگٹ کلرز سمیت ہر قسم کے جرائم پیشہ عناصر ان تینوں پارٹیوں
کی چھتری کے نیچے ہی فروغ پاتے کراچی کا امن و امان تباہی کے دہانے تک
پہنچاتے رہے۔ وہ حکومت اور اسمبلیوں میں ایک دوسرے پر جرائم پیشہ عناصر کی
سرپرستی کے الزامات بھی عائد کرتے رہے اور ان عناصر کیخلاف فیصلہ کن اپریشن
کے حوالے سے بھی گومگو کا شکار رہے جبکہ پیپلزپارٹی کے سابق دور میں جرائم
پیشہ عناصر کیخلاف کئی پولیس اپریشن حکومتی دباﺅ پر ہی ختم کئے گئے۔ چنانچہ
مشرف سے پیپلزپارٹی کے دور تک کراچی میں ہزاروں بے گناہ افراد ٹارگٹ کلنگ
اور دہشت گردی کا نشانہ بنے‘ اربوں روپے مالیت کی سرکاری اور نجی املاک کا
نقصان ہوا اور کراچی کے عوام عملاً گھروں میں محصور ہو کر اپنے شہر کی
روشنیوں اور امن کو ترس گئے۔
2013ءکے انتخابات کے بعد میاں نوازشریف نے اقتدار سنبھالا تو امن و امان کے
حوالے سے سب سے پہلے کراچی پر ہی توجہ دی جہاں اس وقت فرقہ ورانہ کشیدگی
اور لسانی بنیادوں پر قتل عام جاری تھا۔ وزیراعظم نے اپنے اقتدار کے دو ماہ
بعد ہی کراچی کے مسئلہ کے حل کیلئے وہاں جا کر تمام سٹیک ہولڈرز بشمول
تاجروں‘ صنعت کاروں‘ دانشوروں اور سول حکام کی کانفرنس طلب کی اور اسکی
طویل نشستوں میں ہونیوالی مشاورت سے کراچی میں رینجرز اور پولیس کے اشتراک
عمل سے ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا جو بعدازاں صرف رینجرز اپریشن تک محدود
ہو کر رہ گیا۔ وزیراعظم کے اپنے بقول اس اپریشن کو شروع ہوئے 27 ماہ گزر
گئے ہیں اس لئے اب سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس اپریشن کے
متعینہ اہداف پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔ چونکہ دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے
کراچی اپریشن کے ایک سال بعد شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان کا اپریشن
ضرب عضب بھی شروع ہو گیا تھا اس لئے فوجی اپریشن کے کراچی اپریشن پر بھی
اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے اور رینجرز کے ذریعے جاری یہ اپریشن بھی عسکری
اداروں کی کامیابیوں کے کھاتے میں پڑنے لگا۔
آپریشن ضرب عضب کی طرح کراچی اپریشن کی کامیابیاں بھی عسکری قیادت کے کریڈٹ
میں جانے لگیں تو حکمران مسلم لیگ (ن) بھی اس اپریشن کے حوالے سے گومگو کا
شکار نظر آئی اور کراچی سمیت ملک میں قیام امن کیلئے آرمی چیف کی فعالیت
سول قیادتوں کو کھٹکنے لگی اور اس فعالیت کیخلاف حکومتی اور اپوزیشن
جماعتوں کی قیادتوں کے مابین غیراعلانیہ اتحاد کی فضا ہموار ہونے لگی‘ آج
بھی بالخصوص کراچی اپریشن کے حوالے سے ملک ایسی ہی کیفیت سے دوچار نظر آتا
ہے۔ متحدہ اور پیپلزپارٹی کراچی اپریشن کو انتقامی کارروائی سے تعبیر کررہی
ہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کی جانب سے بھی دہشت گردی کی جنگ
میں سول اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحے پر ہونے کے دعوﺅں کے باوجود کراچی
اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے معاملہ میں عملیت پسندی کا فقدان نظر
آتا ہےچنانچہ اب خدشہ ہے کہ متحدہ کے لارڈمیئر کی جانب سے کراچی اپریشن میں
رکاوٹیں پیدا کرنے کے حربے اختیار کئے جائینگے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی
رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملہ میں پھر اپنے تحفظات کی بنیاد پر
گومگو کا شکار نظر آتی ہے جس پر پہلے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں
نے باور کرایا کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات اور توسیع کی ریکوزیشن
نہ دی تو رینجرز کو سندھ سے واپس بلوالیا جائیگا اور پھر معاملے کو سلجھانے
کیلئے گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف کو خود کراچی جانا پڑا ۔ رینجرز کے
اختیارات میں توسیع کیلئے پیپلزپارٹی کی جانب سے جس نوعیت کا ردعمل سامنے
آرہا ہے اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سندھ کی یہ حکمران جماعت کراچی میں
آپریشن جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔
اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پھر کراچی میں رینجرز اپریشن جاری رکھنا
ناممکن ہو جائیگا اوراس اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر اسکی بساط
لپیٹی گئی تو لازمی طور پر اسکے منفی ا ثرات افواج پاکستان کے آپریشن ضرب
عضب پر بھی مرتب ہونگے۔
کراچی کی بدامنی نے ملکی معیشت کو اب تک جتنا نقصان پہنچایا ہے اور وہاں
سیاسی جماعتوں کی چھتری کے نیچے موجود جرائم پیشہ عناصر کے جس طرح دشمن ملک
کی ایجنسی ”را“ کے آلہ¿ کار بننے کی نشاندہی ہو رہی ہے‘ اسکے پیش نظر تو اب
کراچی اپریشن کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ
اب ملک کی سلامتی کا بھی سوال ہے۔ اگر سندھ حکومت اس اپریشن میں تعاون نہیں
کریگی تو سندھ میں بادل نخواستہ گورنر راج کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے
اس لئے بہتر یہی ہے کہ ملک کی سلامتی اور امن و امان کی مستقل بحالی کی
خاطر تمام سیاسی اور عسکری قیادتیں کراچی اپریشن اور اپریشن ضرب عضب پر
خلوص دل کے ساتھ یکسو ہو جائیں۔ |