کیا خوب کہا کیا خوب کیا!

آزاد عدلیہ کے آزادچیف جسٹس آف انڈیا ترتھ سنگھ ٹھاکر
ہندوستان ایک آزاد جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں اقتدار اعلی ملک کی آزاد عدلیہ ہوتی ہے جو بغیر کسی دباو کے ملک میں آئین کی بالادستی کو قائم رکھتی ہے۔ نئے چیف جسٹس آف انڈیا ترتھ سنگھ ٹھاکر نے بھی ۶ دسمبر بروزاتوار جب صحافیوں سے بات کی تو عدلیہ کی اسی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے بڑے ہی امید افزا بیانات دئیے ۔ انھوں نے اپنے بیانات میں کہا کہ ہمارے یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ جب تک قانون کی حکمرانی ہے تب تک عدلیہ آزاد ہے۔ جب تک عدالتیں حقوق اور ذمہ داریوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو ڈرنے کی ضرورت ہے۔ میں ادارے کی قیادت کررہا ہوں جو قانونی قواعدو اصول برقرار رکھتا ہے اور یہاں ہر شہری کے حقوق محفوظ رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم عوام کے مختلف طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنے کے اہل ہیں۔ میرا ادارہ شہریوں کے حقوق برقرار رکھنے کا اہل ہے۔ انھوں نے عدم رواداری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدم رواداری نظریاتی وسیاسی ہے اور سیاسی لوگ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اور ہمیں کسی چیز سے ڈرنا نہیں چاہیئے۔ یہ ملک تمام مذاہب کا ہے۔ یہ ملک ان کا بھی ہے جنھیں دیگر ملکوں میں ستایا گیا اور وہ یہاں آکر بس گئے۔ انھوں نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ انسانی دماغ میں کچھ خرابیاں ہوتی ہیں اور حیوانوں کی یہی جبلت ہے لیکن ایک ہمہ گیر معاشرے میں ایک دوسرے کے مذاہب کے تئیں باہمی احترام ہونا چاہئیے اور اسے ہی فروغ دیا جانا چاہیئے تبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا کا یہ بیان اگر عملی تطبیق سے خارج نہ ہو تو ہندوستان کے ایک روشن مستقبل کی تعمیر کے لئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ 7دسمبر بروز دوشنبہ کو یکساں سول کوڈ کے لئے داخل کی گئی عرضداشت کو خارج کرنا شاید ان بیانا ت کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی ہے۔ اسی لئے ہندوستان کا انصاف پسند طبقہ عدلیہ کے اس فیصلے سے کا فی خوش ہے۔ ہندوستان میں کچھ مخصوص لوگوں کی ایک شر پسند جماعت ایسی بھی ہے جو ہندوستان کی صحت مند فضا میں ہمہ وقت زہر گھولنے کا کام کرتی رہتی ہے۔ یکساں سول کوڈ کی پیٹیشن دائر کرنا شر پسندوں کی کچھ اسی قسم کی شرارت تھی۔ بی جے پی کے ایک مقامی لیڈر اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے نے یکساں سول کوڈ پر یہ عرضداشت داخل کی تھی کہ سپریم کورٹ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور ان کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے معاملے میں مداخلت کرے اور مرکزی حکومت کو یکساں سول کوڈ بنانے کی ہدایت دے۔ اشونی کمار کی ڈھٹائی بھی قابل دید ہے کہ انھیں ہندوستانی معاشرے میں صرف مظلوموں کی شکل میں مسلم خواتین ہی نظر آئیں۔ آئے دن بچھڑے طبقے کی خواتین کی ساتھ ہونے والا ظلم ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔ ہندو سماج میں رسوم وروایات کو زندہ رکھنے کے لئے جو خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے اس سے انھوں نے اپنی آنکھیں موند لیں‘ لیکن آزاد عدلیہ میں بی جے پی کے لیڈر کو منھ کی کھانی پڑی اور ان کی اس عرضداشت کو خارج کر دیا گیا۔ اس عرضداشت کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ترتھ سنگھ ٹھاکر کی زیر صدارت بنچ نے کہا کہ اس پر فیصلہ کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی سے دستور میں کافی وضاحت ہے۔ ایسی عرضداشتیں دائر کرنا وقت کی بربادی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر مسلم خواتین اس طرح کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں اور ان کے ساتھ مظالم ہو رہے ہیں تو خود مسلم خواتین کو عدالت میں آنا چاہیئے ‘ آپ کیوں پریشان ہیں۔ سپریم کورٹ نے پھٹکار بھی پلائی ۔ بڑے ہی سخت الفاظ میں کہا کہ اگر ایسی عرضداشتیں دائر کریں گے تو ہم عرضی گذار کے خلاف سخت کاروائی کریں گے۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں یکساں سول کوڈ پر چار بار بحث ہو چکی ہے جس میں سپریم کورٹ نے حکومت سے حلف نامہ پیش کرنے کو کہا تھا۔ دستور ہند دفعہ44کے بموجب یکساں سول کوڈ کے اختیارات حکومت کو دئیے گئے ہیں۔ سول کوڈ کے نفاذ سے پہلے حکومت کو ایوان سے منظوری لینی ہوگی تب کہیں جاکر اس کے نفاذ کی شکل بن سکتی ہے۔ اس میں عدلیہ کی عملداری بالکل بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے شرپسندوں کو یہ سبق ضرور ملا ہوگا کہ اب وہ آسانی سے آئین ہند کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر سکتے۔

نئے چیف جسٹس آف انڈیا ترتھ سنگھ ٹھاکر کی تقرری کا اعلان 18نومبر کو ہو چکا تھا ۔ جب 2دسمبر کو سابق چیف جسٹس ایچ ایل دتو ریٹائر ہوگئے تو3 دسمبر2015 کو حلف برداری کے بعد ان کا تقرر عمل میں آیا۔ نئے چیف جسٹس 4 جنوری 2017کو ریٹائر ہوں گے۔ جسٹس ترتھ سنگھ ٹھاکرکو ججی کا یہ پیشہ خاندانی ورثے میں ملا ہے۔ ان کے والد دیوی داس ٹھاکر ریاست آسام کے گورنر رہنے کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں۔ چیف جسٹس ترتھ سنگھ ٹھاکر نے اپنے وکالت کے کیریئر کا آغاز 1972 میں اپنے والد کے چیمبر کے ساتھ کیا۔ 1990 میں سینیئر ایڈوکیٹ ہوئے پھر16 فروری 1994 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر ان کی تقرری ہوئی۔ مارچ 1994 میں کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ان کا تبادلہ ہوا پھر ستمبر1995 میں ان کی تقرری مستقل جج کے طور ہوئی اور جولائی2004 میں دہلی ہائی کورٹ میں ان کا تبادلہ ہوا۔ 9 اپریل2008میں انھیں قائم مقام چیف جسٹس آف دہلی ہائی کورٹ بنایا گیا پھر اگست2008میں پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ 17نومبر2009کو سپریم کورٹ میں بطور جج ان کی تقرری عمل میں آئی۔ اب وہ انصاف کی سب سے اعلی کرسی پر فائز ہوئے ہیں۔

نئے چیف جسٹس آف انڈیا اپنے کچھ خاص فیصلوں کے لئے بھی معروف ہیں۔ کرکٹ انتظامیہ کی صاف صفائی میں ان کا اہم کردار ہے۔ آئی پی ایل کی اسپاٹ فکسنگ اور سٹہ بازی کا کیس بھی انھیں کے سپرد تھا۔ ان کی بنچ نے ہی یہ فیصلہ سنایا تھا کہ جسٹس آر ایم لودھا کی قیادت میں سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو بی سی سی آئی کی شفافیت اور جوابدہی کی نگہبانی کرے۔ سردھاچٹ فنڈ جعلسازی میں ان کی ہی بنچ نے سی بی آئی جانچ کا حکم صادر کیا تھا۔ اس جانچ کے بعدمغربی بنگال میں ممتا بنرجی سرکار کی کافی تھو تھو ہوئی تھی۔ نئے چیف جسٹس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے بے لاگ اور بے باک تجزیہ نگاری وبیان بازی کے لئے بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے بی جے پی انتظامیہ کو انتخابات کے قبل گنگا صفائی کے وعدے کی بھی یاد دہائی کرائی ہے اور بڑے ہی استہزائیہ انداز میں یہ کہا کہ اس کام کو مکمل کرنے کے لئے حکومت کو غالباً 200سال مزید درکار ہوں گے۔ نئے چیف جسٹس آف انڈیا کی بنیادی تعلیم اردو ہے اور وہ خود بھی سابق چیف جسٹس کاٹجو کی طرح اردو دوست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو زبان ہماری مشترکہ تہذیب ہے جس کا تحفظ ہم سب ہندوستانیوں کو مل کر کرنا ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنے سابقہ بیان میں انور جلال پوری کا تذکرہ بھی کیا جنھوں نے اردو زبان میں گیتا کا ترجمہ کیا ہے۔ عہدہ ملنے کے بعد سے اب تک چیف جسٹس ترتھ سنگھ ٹھاکر نے اپنے بیانات اور فیصلے سے انصاف کے ترازو کو کسی طرف جھکنے نہیں دیا ہے اور جو ہندوستانی معاشرے کے لئے بہت ہی امید افزا بھی ہے اور حوصلہ کن بھی لیکن آئندہ بھی جہاں بابری مسجد اور دوسرے بہت سے بڑے اور حساس مسئلے زیر بحث آئیں گے تو کیا چیف جسٹس اپنے انصاف کی یقین دہانی کے وعدے کی تکمیل کرپائیں گے۔
Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 11475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.