ایک فقیر فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا کھاتا
ہے جب بِل دینے کی باری آتی ہے تو فقیر کہتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں
ہوٹل مینجر پولیس بلوا کر فقیر کو اس کے حوالے کر دیتا ہے ہوٹل سے باہر جا
کر فقیر پولیس والے کو پچاس روپے دے کر مُک مُکا کر لیتا ہے یوں وہ اس
کرپشن کو بزنس کا نام دے کر نظیر اکبر آبادی صاحب کے درج ذیل شعر کی تشریح
مکمل کرتا ہے جو کہ آج تک میری ناقص عقل میں نہیں آئی!
کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے
روٹی کھلا روٹی ملے پانی پلا پانی ملے
کلجگ نہیں کر جگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خُوب سودا نقد ہےِ اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
ہر سال 9 دسمبر کا دن بین الاقوامی انسداد بد عنوانی کے نام سے منایا جاتا
ہے جس میں رشوت ستانی کے تدارک اور مختلف ذرائع سے جو گھوٹالے کئے جاتے ہیں
کی روک تھام کے لئے کنونشن اور سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ عوام کو
شعور اور آگاہی فراہم کی جائے کہ ان خرافات کا تدارک کیسے ممکن بنایا جائے
اتفاق سے مجھے بھی ایک ایسے ہی سیمینار میں جانے کا شرف حاصل ہوا جسکا
موضوع ’’ بد عنوانی کی روک تھام کے لئے کردار سازی کیسے کی جائے؟‘‘ جو کہ
مُلک کی اُبھرتی ہوئی درسگاہ ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان او رپاکستان
فیڈرل یونین آف کالمسٹ جس کے چیئرمین نامور کالم نگار اور فلاحی کارکن جناب
شہزاد چوہدری صاحب ہیں کے باہمی اشتراک سے منعقد کی گئی جس میں مُلک کے
مایہ ناز کالم نگارجن میں شہر آشوب والے جناب سجاد میر صاحب، جمہور نامہ کے
دبنگ رؤف طاہر صاحب ، جناب ڈاکٹر مہدی حسن صاحب جو کہ پاکستانی صحافت میں
بائیں بازو والے صحافی مانے جاتے ہیں، کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز بے نیازیاں
والے جناب پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان نیازی صاحب مدعوِ خاص تھے ۔ یہ تو تھا
تقریب کا چیدہ چیدہ حال جس میں ہر کسی نے اپنی اپنی زبان و بیاں میں بد
عنوانی کی روک تھام کے لئے تقریریں کی جو کہ بلا شبہ لائق تحسین اور وقت کی
ضرورت ہے کیونکہ کرپشن کی جڑیں ہمارے بہت اندر تک دھنس چُکی ہیں جس کی بیخ
کنی کے لئے ایسے سیمینار اور دوسرے اقدامات کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے
اور اس سیمینار میں خاص کر نوجوان طبقے کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی کیونکہ
یہ نوجوان ہی اب ہمارا کُل سرمایہ ہیں جو کہ اینٹی کرپشن کی تقریب میں
کرپشن کرتے دکھائی دیئے بقول ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی صاحب!
خالص کہاں اب کوئی نوالہ
اینٹوں کو پیسا مرچوں میں ڈالا
دُنیائے زر میں اِک شور شر ہے
ہر سُو ہے مظہر گڑبڑ گھٹالہ
یہ کوئی تنقیدی پہلو نہیں ہے بلکہ نوجوان نسل کو ہوش میں لانے کی ایک سعی
کوشش ہے جو کہ ہمارے مستقبل کے درخشاں ستارے ہیں پر نہ جانے کیوںیہ ستارے
کسی اور درخشاں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے خالی رشوت
لینا یا دینا ہی کرپشن کے ذمرے میں نہیں آتا ‘ اپنا کام پوری ذمہ داری سے
نہ نبھانا، کام نہ کرنے کی تنخواہ لینا، بیواؤں ویتیموں کا مال کھانا، کسی
کی حق تلفی کرنا، بنا سفارش کے نوکری نہ دینا، مہنگائی بڑھاتے رہنا اور
تنخواہیں نہ بڑھانا، تقریروں میں بلند بانگ دعٰوے کرنا اور اصل میں لا حاصل
رہنا یہ سب کے سب کرپشن کی ہی قسمیں ہیں اور یہ کرپشن خالی سیمینار منعقد
کرنے سے ختم نہیں ہو گی اس کے لئے ہم سب کو انفرادی طور پر کام کرنا ہو گا
جیسے کہ کرپشن بھی ہم انفرادی طور پر کرتے ہیں جس کی شروعات ہمیں اپنے گھر
سے ، پھر محلے سے اور اس کے بعد وسیع پیمانے پر شروع کرنی ہو گی اور یہ تب
ہی ممکن ہے جب فرد اس بات کا عائدہ کر لے کہ وہ اپنے آپ کے ساتھ مخلص رہے
گا کیونکہ جس کا ضمیر مُردہ ہو جائے تو ایسے شخص پر کسی سیمینار یا تقریب
کا اثر نہیں ہوتا ۔ ہمارے گھروں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کی بیوی اپنے
کمرے کی صفائی کر کے دوسرے کے کمرے کے آگے کُوڑے کا ڈھیڑ لگا دیتی ہے کیا
یہ کرپشن نہیں؟ ہمارے گھر کے بچے سودا سلف لینے جایءں تو کم پیسوں کا لے کر
باقی میں ڈنڈی مار جاتے ہیں کیا یہ کرپشن نہیں؟ دُودھ والا خالص پیسے لے کر
ملاوٹ والا دُودھ دیتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ میٹر ریڈرغلط ریڈنگ لے کر
زائد بل بھجواتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ ملازم پوری تنخواہ لے کر آدھا کام
کرتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ ملازمت دینے والا زیادہ کام لے کر کم اُجرت
دیتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟پھل فروش تازہ پھل کے پیسے لے کر گلے سڑے پھل
تھما دیتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ پٹرول والا لیٹر کے پیسے لے کر پونا لیٹر
پٹرال ڈالتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ سُنارخالص سونے کے پیسے لے کر ملاوٹ
والا سونا دیتا ہے کیا یہ کرپشن نہیں؟ اگر یہ کرپشن نہیں تو پھر کرپشن کس
بلا کا نام ہے؟ کیا جو حکومت کرے وہی کرپشن ہے اور جو ہم اپنی اپنی جگہ
کریں وہ ہمارا حق ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ حق سب کو ملنا چاہیئے پھر ہم
کو حکومت کو کوسنا نہیں چاہیئے کیونکہ حکومت بھی تو وہی کر رہی ہے جو ہم سب
انفرادی طور پر کر رہیں ہیں آپ کم پیسوں میں زیادہ کی خواہش رکھتے ہیں اور
حکومت زیادہ پیسوں میں کم دینے کی خواہش رکھتی ہے اس حمام میں سبھی ننگے
ہیں کوئی ضمیر کا سودا کرتا ہے اور کوئی ضمیر والے کا کیونکہ لینے والا بھی
مجبور ہے اور دینے والا بھی بقول شاعر!
دے دے رشوت کا مال چُپکے سے
کر دے مجھ کو نہال چُپکے سے
ہے ’’کرپشن‘‘ کا’’ آپشن‘‘ اچھا
اس کو کر استعمال چُپکے سے
شور کرکے کیا اسے ڈس مس
ہو گیا وہ بحال چپکے سے
ممتحن سے جو کر لیا سودا
حل ہُوا ہر سوال چُپکے سے
یہ با لکل بھی نہ سمجھئے گا کہ میں صرف حکومتی طرفداری کا پیکر ہوں بلا شبہ
حکومت بھی اِس کارِخیر میں برابر کی شریک ہے جس کا تازہ ثبوت ڈالر حسینہ ہے
جس کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس کے کچھ ہی عرصے بعد خبر آئی کہ
ایان علی کو گرفتار کرنے والے کسٹم انسپکٹر چوہدری اعجاز کو ڈکیتی کے دوران
نا معلوم افراد نے قتل کر دیا یوں تب سے لے کر آج تک عدالت میں حیلے بہانوں
سے تاریخ پہ تاریخ لی جا رہی ہے تا کہ کرپشن کرنے والوں کو سزا سے بچایا جا
سکے قارئین اس طرح کے کئی ہزار واقعات ہیں جن میں کرپشن کرنے والوں کو کبھی
سزا نہ ہو سکی یہاں کا عجب دستوُر ہے جس سے چھوٹا جُرم ہو جائے اُس کو
سرکاری نوکری نہیں ملتی اور جو بڑے بڑے جُرم کرتا ہے وہ جیل میں بیٹھا
بیٹھا سیاستدان بن جاتا ہے اور یہی سب سے بڑی کرپشن ہے کہ ہم اپنی خُود
احتسابی نہیں کرتے یقین مانئے جس دن سے ہم نے یہ عہد اپنے آپ سے کر لیا کہ
میں کبھی کرپشن نہیں کرُوں گا اُس دن پاکستان کے وارے نیارے ہو جائیں گے
اور جس طرح دُشمن ہمارے پیارے آقا ﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پُکارتے
تھے اُسی طرح اُنہی آقا حضرت محمدؐ کی اُمت کو بھی صادق اور امین پُکاریں
گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو کرپشن ختم کرنے اور ہر دن خود احتسابی کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین! میں بھی چلتا ہوں کہ میز پر چائے بسکٹ نامی کرپشن
میرا انتظار کر رہی ہے اس لئے میں نے آج ہی سے اس کرپشن کو ختم کرنے کا سوچ
لیا ہے اور امید کرتا ہوں کہ جب تک ساری کی ساری کرپشن ختم نہیں کر دیتا
وہاں سے نہیں ہِلوں گا اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو!
حیران ہوں میں کہ خستگئی راہ کے سبب
منزل پہ کیسے پہنچے گا یہ کارواں تیرا
سڑکوں کی ٹُوٹ پُھوٹ سے زیادہ ہے فکر یہ
آئین ہے شکار یہاں ٹُوٹ پُھوٹ کا |