عالم ِاسلام کے حالات اور تیسری عالمی جنگ
کے خدشات
پُرامن عرب بہاریہ کی لہرکو مسلمانوں کی باہمی جنگ میں تبدیل کردینا اسلام
دشمنوں کی کامیاب سازش
شام و عراق میں جاری جنگ اور اس کے عالمگیر اثرات کو دیکھتے ہوئے اس وقت
دنیا کے مختلف گوشوں سے تیسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا
رہے ہیں۔ جیسا کہ چند دنوں قبل عیسائیوں کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما پوپ
فرانسس نے بھی واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اس وقت دنیا کو تیسری عالمی جنگ
کے خطرات درپیش ہیںجس کے سد باب کے لیے انھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو
باہم صلح و مصالحت سے کام لینے کی تلقین کی تھی۔ اگراس پہلو پر سنجیدگی سے
غور کیا جائے کہ بالآخر عالمی جنگ جیسے حالات بننے کے پیچھے کے وجوہات کیا
ہیںتو واضح طور پر دو باتیں سامنے آتی ہیں، سب سے پہلی وجہ مغربی طاقتوں
کی اسرائیل نوازی ہے جبکہ دوسری اہم وجہ استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم ۔
در اصل شام و عراق جنگ کے علاوہ بھی دیگر عرب ممالک میں اس وقت جو حالات
ہیں اس کی شروعات عرب اسپرنگ یا عرب بہاریہ سے 2010میں ملک تیونس سے ہوئی ۔
آمرانہ حکومتوں کے خلاف جمہوری مطالبات پر مبنی احتجاجی جلوس اور دھرنوں
تک محدود عرب بہاریہ کی یہ لہر اس وقت تک ایک پُرامن لہر تھی جب تک کہ
اسرائیل نواز مغربی طاقتوں کو اسرائیل کے تحفظ کے تعلق سے خدشات نہ لاحق
ہوئے ۔ جب ان طاقتوں کو لگا کہ یہ پُرامن احتجاجی لہرمغربی طاقتوں کی قائم
کردہ ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کے خاتمہ پر منتج ہوسکتی ہے تو ان
طاقتوں نے اپنی ریشہ دوانیاں اور دخل اندازی شروع کردی ۔ایک جانب جہاں
اسرائیل کے تعلق سے پیدا ہوئے خدشات نےان خود ساختہ جمہوریت نواز مغربی
ممالک کو اس جمہوری لہر کے خلاف کھڑا ہونے پر مجبور کردیا تو وہیں دوسری
جانب عرب کے خاندانی بادشاہوں کے بھی ہوش اڑا دیے ،کیوں کہ مغربی ملکوں کے
ساتھ ساتھ عرب کے خاندانی آمروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جمہوری نظام
حکومت اپنے آپ میں کوئی ایسا فکسڈ،ٹھوس اورغیر لچکدار نظام نہیں ہے جس میں
خطے اور عوام کی تبدیلی سے کوئی بدلاؤ نہ واقع ہو۔در اصل جمہوریت تو خطے
کی اکثریتی عوام ،ان کے تہذیب و تمدن ، ان کے رجحانات اور ان کی مرضی و
منشا کی رنگ میں رنگا ہوا نظام حکومت ہے اور اگر اس انقلابی لہر کے نتیجے
میں مسلم اکثریتی عرب ممالک میں بھی اسلام مائل جمہوری نظام قائم ہوجاتا تو
وہاں نہ تو فلسطینیوں کی زمین غصب کرکے مغرب کے پیدا کردہ اسرائیل کے لیے
کوئی جگہ ہوتی اور نہ ہی خاندانی بادشاہوں کے لیے کوئی گنجائش ہوتی۔یہی وجہ
ہے کہ عرب بہاریہ کی لہر جب تیونس سے نکل کر یمن سے ہوتے ہوئے مصر میں داخل
ہوئی اور مغرب و اسرائیل نواز مصری حکومت کی بنیادیں اکھڑ گئیں تو مغربی
طاقتوں کے ہوش اڑ گئے۔عرب میں یکے بعد دیگرے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کےجانے
سے اسرائیل نوازطاقتوں کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ اگر یہ لہر یوں ہی اپنی اصل
اسپرٹ کے ساتھ چلتی رہی اور اسرائیل کے قرب و جوار میں عرب عوام کی منشا
اور مرضی کے موافق جمہوری حکومتیں قائم ہوگئیں تو ایک نہ ایک دن اس علاقے
سے صہیونیوں کو اپنا بوریا بستر ہر حالت میں سمیٹنا پڑے گااور انھیں اس
سرزمین کو ان کے اصل حقداروں یعنی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے خالی کرنا
ہوگا اور اس طرح سے عرب خطے میں مغربی ممالک کے مفادات کا بھی صفایا ہوجائے
گا۔ جس کے بعدمغربی طاقتوںنے جہاں ایک طرف مصر میں عرب بہاریہ کے نتجے میں
وجود میں آنے والی منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹ کرواکر دوبارہ اسرائیل نواز
کٹھ پتلی حکومت کھڑی کردی تو وہیں دوسری طرف لیبیا میں داخل ہوچکی اس لہر
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ملکوں نے پُرامن احتجاجی عوام کو مصلح کرکے اپنے
دیرینہ حریف معمر قدافی سے بدلہ لینے کا کام لیاجس میں ان کو کامیابی بھی
ملی لیکن وہاں ابھی اپنی کٹھ پتلی حکومت کا سکہ چلانے میں کامیاب نہیں
ہوسکے ۔دوسری جانب یمن میں بھی احتجاجی عوام کو علی عبدللہ صالح کی کٹھ
پتلی حکومت سے ملی نجات کو بھی ان طاقتوں نے دھیرے دھیرے خانہ جنگی میں
تبدیل کردیا اور بعد میں ایران اور پھر سعودی عرب کی مداخلت نے یمن میں
عوام کو ملی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرتے ہوئے اسے شیعہ سنی کی جنگ
میں تبدیل کردیا۔ اسرائیل نواز امغربی ملکوں اور چند دیگر ممالک کو اصل
پریشانی تب ہوئی جب عرب بہاریہ کی یہ لہر مصر سے ہوتے ہوئے شام میں داخل
ہوگئی۔چونکہ شام اسرائیل کا پڑوسی ملک ہے اور اس کی طویل سرحد اسرائیل سے
ملتی ہے،اس لیے وہاں ہلچل پیدا ہونے کا مطلب تھا مسلمانوں کے روایتی دشمن
اسرائیل کے ایوانوں میں کھلبلی مچنا۔شام میں تبدیلی آنے کا مطلب تھا
اسرائیل کے ایک نیا چیلنج کھڑا ہونا۔ چونکہ شام کی اسد حکومت سے ایک طرف
ایران اور اس کے ہمنوا گروپ حزب اللہ کے مفادات بھی وابستہ تھے اس لیے شام
میں ایران اور اسرائیل نواز طاقتوںکے درمیان پنجہ آزمائی ہونا طے تھی
۔لہٰذا دونوں نے شام میں چل رہی عرب بہاریہ کی اس لہر کے رخ کو اپنے اپنے
حق میں موڑنے کی کوشش کی۔چونکہ مغربی ممالک لیبیا میں پُرامن احتجاجی لہر
کو مسلح کرکے اپنا مقصدکو حاصل کرنے کا کامیاب تجربہ کرچکے تھے، اس لیے
انھوں نے شام میں بھی اسی تجربے کو دہراتے ہوئے احتجاجیوں کو آنکھ بند
کرکے مسلح کیا اور دوسری طرف ایران اپنے حلیف گروپوں کے ساتھ اسد حکومت کو
بچانے کے لیے سرگرم ہوگیا لیکن چونکہ اس ایرانی اتحاد کا مقابلہ دولت اور
وسائل سےمالا مال مغربی ممالک کے اتحاد سے تھا اس لیے ایران کو ہتھیاروں
اور وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے افرادی قوت کے ساتھ میدان میں کودنا
پڑا۔ ایران و حزب اللہ کے جنگ میں کودتے ہی اس جنگ میں شیعہ سنی کے تنازع
کا شوشہ بھی جڑ گیا۔ دوسری جانب مغربی ممالک کے ذریعہ ہتھیاروں کی اندھا
دھند سپلائی نے داعش کی شکل میں جنگ کے ایک اور طاقتور فریق کو جنم دیا گیا
۔ ایران نے بھی اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنے حلیف ملک اور امریکہ
کے روایتی حریف روس کو بھی اس جنگ میں کھینچ لیا۔جس کے بعد روسی اتحاد سے
مقابلے کےلیےمغربی اتحاد کو محض ہتھیاروں کی سپلائی اور صرف امریکی حملوں
کی پالیسی ناکافی اور ناکام ہوتا دکھائی دیاجس کی بھرپوئی کے لیے پیرس
حملوں کو بہانہ بنا کر کر القاعدہ کی طرز پر مبینہ داعش کے خلاف دیگر
امریکی ہم نواؤں کو بھی فضائی حملوں لیا تیار کیا گیا اور جرمنی، فرانس
اور برطانیہ بھی بھی شام میں فضائی بمباری شروع کردی۔اس کے علاوہ ایرانی
زمینی اتحاداور مبینہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی طاقتوں نے معتدل
جنگجوؤں گروپوں کا لشکر تیار کرنا شروع کردیاجس القاعدہ کی ذیلی تنظیم
النصرہ محاذ کے علاوہ دیگر کئی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ اس طرح سےکئی فریقوں
کے باہم گتھم کتھا ہونے سے اسجنگ کی تصویر اس قدر دھندلی اور پیجیدہ ہوگئی
کہ یہ پتا لگاپانا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ شام میں زمینی سطح پر حقیقت میں کیا
ہو رہا ہے۔ ہاں ، مگر ایک بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شام میں
اسرائیل نواز عالمی طاقتیں بھلے اپنے سایے یعنی مبینہ داعش سے لڑ رہی ہوں
یا نہ لڑ رہی ہوں لیکن وہاں یہ مسلمانوں کو باہم لڑا کر انھیں کمزور کرکے
اسرائیل کو محفوظ راستہ فراہم کر نے کا کام بہت اچھے ڈھنگ سے کر رہی
ہیں۔کیوں کہ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ فی الوقت اس جنگ میں زمینی سطح
پر شکاری بھی مسلمان ہیں اور شکار بھی مسلمان ہی ہیں، گرچہ وہ جس کے تحت لڑ
رہے ہیں وہ اتحاد اور بینر عالمی طاقتوں کے نام کا ہے۔جیسا کہ ابھی حال ہی
میں امریکی وزیر دفاع جان کیری نے ایک بیان میں کہا کہ شام میں مغربی اتحاد
کو عربوں اور شامیوں پر مشتمل ایک بڑا زمینی لشکر تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ افغان جنگ سے سبق لیتے ہوئے مغربی طاقتوںنے شام
اور عراق میں محض فضائی بمباری اور ہتھیاروں کی سپلائی کرکے جنگ کی اٹھتی
لپٹوں سے دور سے ہاتھ سینکنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس سے نقصان
اورتباہی صرف اورصرف مسلمانوں کے کھاتے میں آئے گی جب کہ فتح و کامرانی کا
سہرہ استعماری طاقتوں کے سر بندھے گا۔لیکن شام کے جنگ کے تیزی سے بدلتے
حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جنگ میں زیادہ دیر تک محض فضائی بمباری اور
ہتھیاروں کی سپلائی سے کام نہیں چلایا جا سکے گا، ایک نہ ایک دن جنگ کے
ثمرات کو بٹورنے کے لیے جنگ کے پس پردہ کارفرما سازشی طاقتوں کو میدان جنگ
میں کود نا ہی پڑے گا۔ ایک نہ ایک دن اس جنگ کی مبہم تصویر ضرور صاف ہوگی
جب جنگ کے آخری مرحلے میں پہنچنے سےپہلے تمام فریق اور گروپ صرف دو خیموں
میں تقسیم ہوں گے ۔چھوٹے اور کمزور فریق یا تو ختم ہوجائیں گے یا پھر انھیں
کسی ایک خیمے میں پناہ لینی پڑے گی ، اس طرح سے آخری مرحلے تک جنگ کے صرف
دو فریق رہ جائیں گےاور ممکنہ طور پر ایک اہل اسلام کا خیمہ ہوگا ، جہاں نہ
کوئی داعشی ، نہ اسدی ، نہ کوئی شیعہ ، نہ سنی ، نہ کوئی عرب اور نہ کوئی
ایرانی ہوگا۔اس وقت صرف اور صرف اہل اسلام کا خیمہ ہوگا اوران کے مد مقابل
ہوگا اہل دجل و فریب کا لشکر ۔ امید ہے کہ اس جنگ کا وہ مرحلہ ضرور آئے گا
جب باہم گتھم گتھا مسلمان اپنے مشترکہ اور اصل دشمن کو پہچان لیں گے۔ |