مہنگائی کیسے ختم ہوگی؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
دور حاضر کا سب سے بڑا مسلہ مہنگائی ہے جس
نے ساری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہونے کی بنا
پر غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر، امیر سے امیر تر۔غربت
کا ناسور اس قدر پھیلتا جارہا ہے کہ غریب انفرادی زندگی میں اپنے بچے فروخت
کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اجتماعی سطح پر قوموں کو غلام بنایا جارہا ہے
اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ان میں چیدہ اور بنیادی کا ذکر کرنا مقصود ہے
، عالمی استعماری قوتوں (یہودوہنود ) نے ایک گھناؤنی سازش کے تحت عالم
اسلام کو اپنا مطیع وزر خریدغلام بنانے کیلئے اسلام سے متصادم ایک معاشی
نظام تشکیل دیا جسے یو این او کی جھولی میں ڈال کر استعمال کیا گیا اس
استعماری معاشی نظام نے کمزور ممالک کو مزید پھنسانے کیلئے قرضوں کے اجراء
کا منصوبہ بنایا ، ان قرضوں کو ظاہری طور پر تو خدمت انسانیت کا نام دیا
گیا مگر اس کی پشت پر اﷲ ورسولﷺ سے جنگ یعنی سود کا عنصر غالب حیثیت سے
موجود تھا ۔دنیا پر اپنا جابرانہ غلبہ حاصل کرنے کیلئے نیوورلڈ آڈر کو نافذ
کرنے میں اس معاشی نظام نے کلیدی کردار ادا کیا قرضوں کو دینے کا سلسلہ
شروع ہوا تو سود کی لعنت مسلمانوں پر مسلط ہوگئی بالفاظ دیگر مسلمان ممالک
نے اﷲ ورسولﷺ سے جنگ چند ٹکوں کے عوض شروع کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
مسلمان سود کی قسطیں دینے کے قابل بھی نہ رہے سود کی قسطیں دینے کیلئے مزید
سودی قرضے ان عالمی ساہوں کاروں سے لینا شروع کردئیے قرض در قرض کا شکار
ہوتے گئے مسلمان اور دنیا کے غریب ممالک۔ جب ان کے مقروض ممالک کے نظام
حکومت ان سودی قرضوں کے مرہون منت ہوگئے تو ان عالمی ساہوکاروں نے اپنے
جابرانہ فیصلے ،مطالبات مسلط کرنا شروع کردئیے ان میں سے اہم ترین مطالبہ
اپنے ممالک میں مہنگائی کرنا ہے یہ استعماری قوتیں اشیائے ضروریہ سے لیکر
پیٹرولیم اور بجلی کے نرخوں تک کا تعین کرنا شروع کردیا کیونکہ اگر یہ
مقروض ممالک ان کے مہنگائی پر مبنی مطالبات نہیں مانیں گے تو ان کومزید
قرضے نہیں ملیں گے۔واضح رہے کہ سودی معیشت کے ذریعے مسلمانوں کو معاشی
طورپرکمزور ،مفلوج کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان روزی ،روٹی کے چکرمیں پڑے
رہیں انھیں ہمارے نیوورلڈ آڈر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کی وقت میسر
نہ آسکے اور ہم اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل بلاروک ٹوک کرسکیں جس میں وہ
کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
آج دنیا میں مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے جو اوپر
ذکر کردی گئی پاکستان میں سودی معیشت کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ ہر پیدا
ہونے والا بچہ ایک اندازے کے مطابق 1,10,000 روپے کا مقروض ہے ،جبکہ دوسری
طرف ہمارے معاشی ماہرین سودی قرضے ملنے کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے خوشی
سے پھولے نہیں سماتے ۔اگر یہ سلسلہ نہ روکا تو قرضے خطرناک حد تک بڑھ جائیں
گے،ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی کے اعتبار سے ایشیاء کی 17 معیشتوں
میں سے پہلے نمبر پر آگیا ہے اسی طرح 2015 کے سروے کے مطابق پاکستان میں بے
روزگاری کی شرح میں 6.9 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ،فی کس آمدنی سکڑ کر رہ گئی
ہے جبکہ اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں معیشت میں تنزلی پاکستانی کرنسی
سے دیکھی جاسکتی ہے کہ پانچ روپے کا نوٹ پچیس پیسے کی قدر پر آگیا ہے
پاکستانی کرنسی کی تنزلی تاریخ میں اس طرح کبھی نہیں ہوئی ۔ اس حالت سے
چھٹکارہ پانے کیلئے مسلم ممالک اسلامی اقوام متحدہ (اسلام کے عادلانا نظام
خلافت) کا قیام عمل میں لائیں جو اسلامی معیشت کو فروغ دے سکے سودی معیشت
سے چھٹکارہ پانے کی واحد سبیل یہی نظر آتی ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں اس
سلسلے میں مسلم ممالک کو بہت بڑی قربانی دیناہوگی کہ وہ ممالک جو عالمی
ساہوکاروں کے مقروض ہیں ان کے قرضوں کی ادائیگی کا بندوبست ان حکومتیں یا
عالم اسلام کے مخیرین کریں اور اسلامی معاشیت کو فروغ دینے کیلئے مسلم
ممالک آپس میں تجارت کریں جب اسلام کا عادلانا نظام قائم ہوجائے گا تو امت
مسلمہ جسم واحد کی طرح ہوجائے گی تب امت مسلمہ کے تمام شعبہ جات یکساں
ہوجائیں گے اس کے لازوال فوائد وثمرات نصیب ہوں گے ان تمام شعبہ جات کی
قیادت وسیادت ایک ہی سربراہ امیرالمومنین کے پاس ہوگی امت مسلمہ ایسا حسین
دور دیکھنے کیلئے بے تاب نظر آرہی ہے جب تقسیم دولت منصفانہ ہوگی غریبوں
نہیں غربت کا خاتمہ ہوگا ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ آج کل جو سود کے خاتمے کی
مہم چل رہی ہے یقیناً قابل صد تحسین ہے مگر چونکہ حکومت کے سودی معیشت سے
لامتناہی مفادات وابستہ ہیں اس لئے حکومت کسی صورت اﷲ ورسول ﷺ سے جنگ سے
باہر نہیں آئے گی البتہ اس تحریک سے سود کم ضرور ہوسکتا ہے مکمل ختم نہیں
ہوسکتا۔ایسے ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی قائدین مکمل سودی معیشت
کے خاتمے کیلئے انسداد سود کی تحریک کو تحریک نفاذاسلامی نظام میں تبدیل
کرکے فیصلہ کن کوشش کا آغاز کریں تو قوم کی سود ی معیشت سے جان چھوٹ سکتی
ہے باالفاظ دیگر سعی لاحاصل ۔۔۔۔
ارباب اقتدار کیلئے کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی لائیں شاہی اخراجات کو کم
کریں شاہانہ اخراجات ،پروٹوکول کی لعنت ،اقرباء پروری ،رشوت ستانی کا بوجھ
عوا م کے کندھوں پر ہی پڑھتا ہے دیوہیکل کابینہ کی بجائے مختصر ضروری ذمہ
داران پر مشتمل کابینہ تشکیل دی جائے ،کرپشن کا ناسور کسی بھی معاشرے میں
مہنگائی کا باعث ہوتاہے جب کسی ملک کی کابینہ سنگین قسم کی کرپشن میں ملوث
ہوتو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک پر رہبر کی شکل میں راہزن مسلط ہیں
جنھیں عوامی مفادات نہیں ذاتی مقاصد ومفادات عزیز ہیں پھر وہاں مہنگائی کے
طوفانوں کی ہی توقع کی جا سکتی ہے پاکستان کے بڑے مسائل میں سے اہم ترین
مسلہ کرپشن ہے جس نے بھی مہنگائی کا بازار گرم کرنے میں کلیدی کرادر ادا
کیا ہے ۔کرپٹ طبقہ اس قدر طاقت ور ہے کہ جس نے بھی ان کی گردن دبوچنے کی
کوشش کی اس کی چھٹی ہوگئی ۔
متحدہ برصغیر میں انگریز نے صنعت وحرفت پر قابض ہونے کیلئے
موچی،جولاہے،ترکھان ودیگر بنیادی مصنوعات کے حاملین کو کمی کمین بنا کر
عوام کے سامنے پیش کیا پھر ان کی مصنوعات کو بدنام کیالوگوں نے مقامی
مصنوعات کو خریدنا کم کردیا انگریز سرکار نے وہی خام مال برصغیر سے خرید کر
مصنوعات تیار کیں اور مسلمانوں میں فروخت کرکے کاروبار کیا پیسہ کمایا اور
انہی کے خلاف استعمال کیا آج کی جدید اصطلاح میں انگریز سرکار کی کمپنیز کو
ملٹی نیشنل کمپنیز کہا جاتا ہے مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ملٹی نیشنل کمپنیز
کے پراڈکٹس کو حد سے زیادہ اہمیت دینا ہے ۔ا ن کمپنیوں کی پراڈکٹس مہنگی
بھی ہوتی ہیں اور ساتھ ہی حلال وحرام کی تمیز کے بغیر بھی۔ایک اندازے کے
مطابق صرف بیوٹی پروڈکٹس میں روزانہ کی بنیاد کر ملٹی نیشنل کمپنیز اربوں
روپیہ کما رہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے یہ ملٹی
نیشنل کمپنیز اپنی مصنوعات کے اشتہارات صرف ان میڈیا پرسنز کو دیتی ہیں جو
ان کے نظریات کو فروغ دیں دیگر کی چھٹی ۔ ملٹی نیشنل کمپنیز ایک اژدھا کی
شکل اختیار کرچکی ہے لوگ اسے چھوڑنے کو تیا نہیں ،منہ مانگی قیمتیں ان کو
ادا کی جارہی ہیں ان حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مقامی مصنوعات
معیاری شکل میں تیار کرکے عوام کو پیش کریں مناسب منافع وصول کریں اور عام
عوام ملٹی نیشنل کمپنیز کے جال میں آنے کی بجائے مقامی مصنوعات کو ترجیح
دیں ۔اس سے ملک کا منافع ملک میں مسلمانوں کے پاس ہی رہے گا ،پھر کوئی ہم
پر مسلط نہیں ہو سکے گا تسلط اور مہنگائی کی ایک وجہ آج غیر ملکی مصنوعات
پر اندھا اعتماد اور اپنی مصنوعات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔ماہرین کا کہنا
ہے کہ اگر مسلم عوام ملٹی نیشنل کمپنیز کی مصنوعات کا استعمال بند کردیں تو
اس سے بھی مہنگائی پر قابو پایا جا سکتاہے۔
مہنگائی کی ایک بڑی وجہ عام کاروباری ،دوکانداروں کی طرف سے خود ساختہ
مہنگائی کرنا ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مارکیٹ سے تھوک پر ایک چیز سستی
ملتی ہے مگر پرچون فروش دوکاندار کثیر منافع رکھ کر فروخت کرکے عام عوام کی
جیبوں کی صفائی کرتا ہے ،اسی طرح غریب طبقہ اپنے جیسے ہی غریبوں کا دشمن
بنا بیٹھا ہے کئی بار راقم کو اس کا تجربہ ہوا کہ موبائل اسیسری کی ایٹم دس
بیس روپے کی ہے مگر دوکاندار ایک سو روپے میں فروخت کرنے پر بضد ہے اس سے
کم دینے کو تیار نہیں ،جب حقیقت اسے بتاتے ہیں تو بہت شرمندہ ہوتے ہیں بعض
تو آپے سے باہر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی آپ کسی اور سے یہ چیز لے
لو ہم آپ کو نہیں دے سکتے ۔ایسے دوکانداروں کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے
صارف کورٹس بنا رکھی ہیں لیکن عوام کو اس کا علم نہیں یا اس کے طریقہ کار
سے لاعلمی ہے جس کے باعث گلی محلے کے دوکانداروں نے خود ساختہ مہنگائی کا
بازر گرم کر رکھا ہے ۔خدمت انسانیت کے جذبے سے دوکانداروں کو خود چاہیے کہ
مناسب منافع رکھ کر اشیاء فروخت کریں ۔ایساکرنے سے کم ازکم عوام کو کچھ نہ
کچھ ریلیف تو ضرورملے گا۔ایک طرف حکمران عام لوگوں کو لوٹ رہے ہیں دوسری
طرف دوکانداروں کی خودساختہ مہنگائی عوام کا خون نچوڑ رہی ہے ۔اگر تاجر لوگ
ایمانداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں تو اس کے مثبت اثرات
عوام کو مل سکتے ہیں ۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے عام شہریوں پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی
ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بے جا اخراجات کو کنٹرول کریں اکثر ایسی
تقریبات رکھ لی جاتی ہیں جن کا ہونا عبث ہوتا ہے مگر پھر بھی ہر حال میں
اسے منعقد کیا جاتا ہے ہمیں چاہیے کہ جو چیزیں ہمارے استعال کیلئے انتہائی
ضروری نہیں ہیں انھیں خرید کراپنے اوپر ہی بوجھ نہ بنیں ۔ایک اور طریقہ یہ
ہے کہ اپنی ناجائز خواہشات کو ہر موڑ پرقربان کیاجائے ان کی حوصلہ شکنی کی
جائے تاکہ ہماری ناجائز خواہشات ہماری گھریلو،خاندانی معاشی نظام پر بوجھ
نہ بننے پائیں یاد رہے کہ ہماری ناجائز خواہشات کی تکمیل میں استعمال ہونے
والی اکثر اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کی لاگت انتہائی کم ہوتی ہے مگر ہم انھیں
ہم مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔مہنگائی پر قابوپانے کیلئے صارفین کو چاہیے کہ
جس چیز کو وہ خریدنے جارہے ہیں اس کے بارے میں کچھ معلومات ضرور حاصل کرے
،اگر ہمیں اشیاء کی لاگت اور معیار کا اندازہ ہوگا تو کوئی دوکاندار ہم سے
ہاتھ نہیں کرپائے گا یعنی صار فین کا معیشت سے با خبر رہنا بھی ازحد لازم
ہے ،آج کل ہمارے پاکستانی معاشرے میں مطالعے کا ذوق دم توڑتا جارہاہے جس
کانتیجہ لاعلمی کی شکل میں برآمد ہورہا ہے ،لوگ ترقی کی اس دوڑ میں علم کے
بغیر ہی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کاا لٹا نقصان ہو رہا ہے کہ دن رات
محنت کرکے دولت کمائی جاتی ہے علم نہ ہونے کے باعث خریداری کے وقت کسی بھی
وقت زائد منافع کی صورت میں دوکاندار کو دے دی جاتی ہے ۔
بہرکیف !جہاں مسلم حکومتوں کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ مہنگائی کے خاتمے کیلئے
اقدام کریں وہیں ہی عوام الناس پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھی مہنگائی
کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔جب دونوں طبقات(حکمران اور
عوام) اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں گے تو مہنگائی کا جن بوتل میں بند
ہوجائے گا۔ |
|